(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا معمر، عن الزهري، اخبرني سعيد بن المسيب، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " حين اسري بي، لقيت موسى، قال فنعته، فإذا رجل حسبته، قال: مضطرب رجل الراس كانه من رجال شنوءة، قال: ولقيت عيسى، قال فنعته، قال: ربعة احمر كانما خرج من ديماس يعني الحمام، ورايت إبراهيم، قال: وانا اشبه ولده به، قال: واتيت بإناءين احدهما لبن والآخر خمر، فقيل لي: خذ ايهما شئت، فاخذت اللبن فشربته، فقيل لي: هديت للفطرة او اصبت الفطرة، اما إنك لو اخذت الخمر غوت امتك "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " حِينَ أُسْرِيَ بِي، لَقِيتُ مُوسَى، قَالَ فَنَعَتَهُ، فَإِذَا رَجُلٌ حَسِبْتُهُ، قَالَ: مُضْطَرِبٌ رَجِلُ الرَّأْسِ كَأَنَّهُ مِنْ رِجَالِ شَنُوءَةَ، قَالَ: وَلَقِيتُ عِيسَى، قَالَ فَنَعَتَهُ، قَالَ: رَبْعَةٌ أَحْمَرُ كَأَنَّمَا خَرَجَ مِنْ دِيمَاسٍ يَعْنِي الْحَمَّامَ، وَرَأَيْتُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: وَأَنَا أَشْبَهُ وَلَدِهِ بِهِ، قَالَ: وَأُتِيتُ بِإِنَاءَيْنِ أَحَدُهُمَا لَبَنٌ وَالْآخَرُ خَمْرٌ، فَقِيلَ لِي: خُذْ أَيَّهُمَا شِئْتَ، فَأَخَذْتُ اللَّبَنَ فَشَرِبْتُهُ، فَقِيلَ لِي: هُدِيتَ لِلْفِطْرَةِ أَوْ أَصَبْتَ الْفِطْرَةَ، أَمَا إِنَّكَ لَوْ أَخَذْتَ الْخَمْرَ غَوَتْ أُمَّتُكَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(معراج کی رات) جب مجھے آسمان پر لے جایا گیا تو میری ملاقات موسیٰ (علیہ السلام) سے ہوئی، آپ نے ان کا حلیہ بتایا“ اور میرا گمان یہ ہے کہ آپ نے فرمایا: ”موسیٰ لمبے قد والے تھے: ہلکے پھلکے روغن آمیز سر کے بال تھے، شنوءۃ قوم کے لوگوں میں سے لگتے تھے“، آپ نے فرمایا: ”میری ملاقات عیسیٰ (علیہ السلام) سے بھی ہوئی“، آپ نے ان کا بھی وصف بیان کیا، فرمایا: ”عیسیٰ درمیانے قد کے سرخ (سفید) رنگ کے تھے، ایسا لگتا تھا گویا ابھی دیماس (غسل خانہ) سے نہا دھو کر نکل کر آ رہے ہوں، میں نے ابراہیم (علیہ السلام) کو بھی دیکھا، میں ان کی اولاد میں سب سے زیادہ ان سے مشابہہ ہوں“، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے پاس دو برتن لائے گئے، ایک دودھ کا پیالہ تھا اور دوسرے میں شراب تھی، مجھ سے کہا گیا: جسے چاہو لے لو، تو میں نے دودھ کا پیالہ لے لیا اور دودھ پی گیا، مجھ سے کہا گیا: آپ کو فطرت کی طرف رہنمائی مل گئی، یا آپ نے فطرت سے ہم آہنگ اور درست قدم اٹھایا، اگر آپ نے شراب کا برتن لے لیا ہوتا تو آپ کی امت گمراہ ہو جاتی“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی تباہی و بربادی کا شکار ہوتی اس لیے کہ شراب کا خاصہ ہی یہی ہے۔ (مولف نے ان احادیث کو ”اسراء اور معراج“ کی مناسبت کی وجہ سے ذکر کیا جن کا بیان اس باب کے شروع میں ہے)
(موقوف) حدثنا حدثنا إسحاق بن منصور، اخبرنا عبد الرزاق، اخبرنا معمر، عن قتادة، عن انس، ان النبي صلى الله عليه وسلم " اتي بالبراق ليلة اسري به ملجما مسرجا فاستصعب عليه، فقال له جبريل: ابمحمد تفعل هذا فما ركبك احد اكرم على الله منه، قال: فارفض عرقا "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، ولا نعرفه إلا من حديث عبد الرزاق.(موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " أُتِيَ بِالْبُرَاقِ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ مُلْجَمًا مُسْرَجًا فَاسْتَصْعَبَ عَلَيْهِ، فَقَالَ لَهُ جِبْرِيلُ: أَبِمُحَمَّدٍ تَفْعَلُ هَذَا فَمَا رَكِبَكَ أَحَدٌ أَكْرَمُ عَلَى اللَّهِ مِنْهُ، قَالَ: فَارْفَضَّ عَرَقًا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَلَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّزَّاقِ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جس رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج حاصل ہوئی آپ کی سواری کے لیے براق لایا گیا۔ براق لگام لگایا ہوا تھا اور اس پر کاٹھی کسی ہوئی تھی، آپ نے اس پر سوار ہوتے وقت دقت محسوس کی تو جبرائیل علیہ السلام نے اسے یہ کہہ کر جھڑکا: تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایسا کر رہا ہے، تجھ پر اب تک ان سے زیادہ اللہ کے نزدیک کوئی معزز شخص سوار نہیں ہوا ہے، یہ سن کر براق پسینے پسینے ہو گیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف عبدالرزاق کی روایت سے جانتے ہیں۔
بریدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(معراج کی رات) جب ہم بیت المقدس پہنچے تو جبرائیل علیہ السلام نے اپنی انگلی کے اشارے سے پتھر میں شگاف کر دیا اور براق کو اس سے باندھ دیا۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن عقيل، عن الزهري، عن ابي سلمة، عن جابر بن عبد الله، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " لما كذبتني قريش قمت في الحجر فجلا الله لي بيت المقدس، فطفقت اخبرهم عن آياته وانا انظر إليه "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وفي الباب، عن مالك بن صعصعة، وابي سعيد، وابن عباس، وابي ذر، وابن مسعود.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَمَّا كَذَّبَتْنِي قُرَيْشٌ قُمْتُ فِي الْحِجْرِ فَجَلا اللَّهُ لِي بَيْتَ الْمَقْدِسِ، فَطَفِقْتُ أُخْبِرُهُمْ عَنْ آيَاتِهِ وَأَنَا أَنْظُرُ إِلَيْهِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَفِي الْبَابِ، عَنْ مَالِكِ بْنِ صَعْصَعَةَ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَبِي ذَرٍّ، وَابْنِ مَسْعُودٍ.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب قریش نے مجھے (معراج کے سفر کے بارے میں) جھٹلا دیا کہ میں حجر (حطیم) میں کھڑا ہوا اور اللہ نے بیت المقدس کو میرے سامنے ظاہر کر دیا اور میں اسے دیکھ دیکھ کر انہیں اس کی نشانیاں (پہچان) بتانے لگا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں مالک بن صعصعہ ابوسعید، ابن عباس، ابوذر اور ابن مسعود رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن عمرو بن دينار، عن عكرمة، عن ابن عباس، في قوله: وما جعلنا الرؤيا التي اريناك إلا فتنة للناس سورة الإسراء آية 60، قال: " هي رؤيا عين اريها النبي صلى الله عليه وسلم ليلة اسري به إلى بيت المقدس، قال: والشجرة الملعونة في القرآن هي شجرة الزقوم "، قال: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، فِي قَوْلِهِ: وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلا فِتْنَةً لِلنَّاسِ سورة الإسراء آية 60، قَالَ: " هِيَ رُؤْيَا عَيْنٍ أُرِيَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ، قَالَ: وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِي الْقُرْآنِ هِيَ شَجَرَةُ الزَّقُّومِ "، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما آیت کریمہ: «وما جعلنا الرؤيا التي أريناك إلا فتنة للناس»”اور نہیں کیا ہم نے وہ مشاہدہ کہ جسے ہم نے تمہیں کروایا ہے (یعنی إسراء و معراج کے موقع پر جو کچھ دکھلایا ہے) مگر لوگوں کی آزمائش کے لیے“(بنی اسرائیل: ۶۰)، کے بارے میں کہتے ہیں: اس سے مراد (کھلی) آنکھوں سے دیکھنا تھا، جس دن آپ کو بیت المقدس کی سیر کرائی گئی تھی ۱؎ انہوں نے یہ بھی کہا «والشجرة الملعونة في القرآن» میں شجرہ «ملعونہ» سے مراد تھوہڑ کا درخت ہے۔
(مرفوع) حدثنا عبيد بن اسباط بن محمد قرشي كوفي، حدثنا ابي، عن الاعمش، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، في قوله: وقرءان الفجر إن قرءان الفجر كان مشهودا سورة الإسراء آية 78 قال: " تشهده ملائكة الليل وملائكة النهار "، قال: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ أَسْبَاطِ بْنِ مُحَمَّدٍ قُرَشِيٌّ كُوفِيٌّ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِي قَوْلِهِ: وَقُرْءَانَ الْفَجْرِ إِنَّ قُرْءَانَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا سورة الإسراء آية 78 قَالَ: " تَشْهَدُهُ مَلَائِكَةُ اللَّيْلِ وَمَلَائِكَةُ النَّهَارِ "، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت «وقرآن الفجر إن قرآن الفجر كان مشهودا»”صبح کو قرآن پڑھا کرو کیونکہ صبح قرآن پڑھنے کا وقت فرشتوں کے حاضر ہونے کا ہوتا ہے“(بنی اسرائیل: ۷۸)، کے متعلق فرمایا: ”اس وقت رات کے فرشتے اور دن کے فرشتے سب حاضر (و موجود) ہوتے ہیں“۔
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن عبد الرحمن، اخبرنا عبيد الله بن موسى، عن إسرائيل، عن السدي، عن ابيه، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، في قول الله تعالى: يوم ندعو كل اناس بإمامهم سورة الإسراء آية 71، قال: " يدعى احدهم فيعطى كتابه بيمينه ويمد له في جسمه ستون ذراعا ويبيض وجهه ويجعل على راسه تاج من لؤلؤ يتلالا، فينطلق إلى اصحابه فيرونه من بعيد فيقولون: اللهم ائتنا بهذا وبارك لنا في هذا، حتى ياتيهم فيقول: ابشروا لكل رجل منكم مثل هذا، قال: واما الكافر فيسود وجهه ويمد له في جسمه ستون ذراعا على صورة آدم فيلبس تاجا، فيراه اصحابه فيقولون: نعوذ بالله من شر هذا اللهم لا تاتنا بهذا، قال: فياتيهم، فيقولون: اللهم اخزه، فيقول: ابعدكم الله فإن لكل رجل منكم مثل هذا "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، والسدي اسمه إسماعيل بن عبد الرحمن.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنِ السُّدِّيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِي قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: يَوْمَ نَدْعُو كُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ سورة الإسراء آية 71، قَالَ: " يُدْعَى أَحَدُهُمْ فَيُعْطَى كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ وَيُمَدُّ لَهُ فِي جِسْمِهِ سِتُّونَ ذِرَاعًا وَيُبَيَّضُ وَجْهُهُ وَيُجْعَلُ عَلَى رَأْسِهِ تَاجٌ مِنْ لُؤْلُؤٍ يَتَلَأْلَأُ، فَيَنْطَلِقُ إِلَى أَصْحَابِهِ فَيَرَوْنَهُ مِنْ بَعِيدٍ فَيَقُولُونَ: اللَّهُمَّ ائْتِنَا بِهَذَا وَبَارِكْ لَنَا فِي هَذَا، حَتَّى يَأْتِيَهُمْ فَيَقُولُ: أَبْشِرُوا لِكُلِّ رَجُلٍ مِنْكُمْ مِثْلُ هَذَا، قَالَ: وَأَمَّا الْكَافِرُ فَيُسَوَّدُ وَجْهُهُ وَيُمَدُّ لَهُ فِي جِسْمِهِ سِتُّونَ ذِرَاعًا عَلَى صُورَةِ آدَمَ فَيُلْبَسُ تَاجًا، فَيَرَاهُ أَصْحَابُهُ فَيَقُولُونَ: نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شَرِّ هَذَا اللَّهُمَّ لَا تَأْتِنَا بِهَذَا، قَالَ: فَيَأْتِيهِمْ، فَيَقُولُونَ: اللَّهُمَّ أَخْزِهِ، فَيَقُولُ: أَبْعَدَكُمُ اللَّهُ فَإِنَّ لِكُلِّ رَجُلٍ مِنْكُمْ مِثْلَ هَذَا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَالسُّدِّيُّ اسْمُهُ إِسْمَاعِيل بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے اس قول «يوم ندعو كل أناس بإمامهم»”جس دن ہم ہر انسان کو اس کے امام (اگوا و پیشوا) کے ساتھ بلائیں گے“(بنی اسرائیل: ۷۱)، کے بارے میں فرمایا: ”ان میں سے جو کوئی (جنتی شخص) بلایا جائے گا اور اس کا نامہ اعمال اس کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا اور اس کا جسم بڑھا کر ساٹھ گز کا کر دیا جائے گا، اس کا چہرہ چمکتا ہوا ہو گا اس کے سر پر موتیوں کا جھلملاتا ہوا تاج رکھا جائے گا، پھر وہ اپنے ساتھیوں کے پاس جائے گا، اسے لوگ دور سے دیکھ کر کہیں گے: اے اللہ! ایسی ہی نعمتوں سے ہمیں بھی نواز، اور ہمیں بھی ان میں برکت عطا کر، وہ ان کے پاس پہنچ کر کہے گا: تم سب خوش ہو جاؤ۔ ہر شخص کو ایسا ہی ملے گا، لیکن کافر کا معاملہ کیا ہو گا؟ کافر کا چہرہ کالا کر دیا جائے گا، اور اس کا جسم ساٹھ گز کا کر دیا جائے گا جیسا کہ آدم علیہ السلام کا تھا، اسے تاج پہنایا جائے گا۔ اس کے ساتھی اسے دیکھیں گے تو کہیں گے اس کے شر سے ہم اللہ کی پناہ چاہتے ہیں۔ اے اللہ! ہمیں ایسا تاج نہ دے، کہتے ہیں: پھر وہ ان لوگوں کے پاس آئے گا وہ لوگ کہیں گے: اے اللہ! اسے ذلیل کر، وہ کہے گا: اللہ تمہیں ہم سے دور ہی رکھے، کیونکہ تم میں سے ہر ایک کے لیے ایسا ہی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- سدی کا نام اسماعیل بن عبدالرحمٰن ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 13616) (ضعیف الإسناد) (سند میں عبد الرحمن ابن ابی کریمہ والد سدی مجہول الحال راوی ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد // ضعيف الجامع الصغير (6424) //
(مرفوع) حدثنا ابو كريب، حدثنا وكيع، عن داود بن يزيد الزعافري، عن ابيه، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: في قوله: " عسى ان يبعثك ربك مقاما محمودا سورة الإسراء آية 79 سئل عنها، قال: هي الشفاعة "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن، وداود الزعافري هو داود الاودي بن يزيد بن عبد الرحمن وهو عم عبد الله بن إدريس.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ يَزِيدَ الزَّعَافِرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فِي قَوْلِهِ: " عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا سورة الإسراء آية 79 سُئِلَ عَنْهَا، قَالَ: هِيَ الشَّفَاعَةُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَدَاوُدُ الزَّعَافِرِيُّ هُوَ دَاوُدُ الْأَوْدِيُّ بْنُ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَهُوَ عَمُّ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ إِدْرِيسَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت: «عسى أن يبعثك ربك مقاما محمودا»”عنقریب آپ کا رب آپ کو مقام محمود میں کھڑا کرے گا“(بنی اسرائیل: ۷۹)، کے بارے میں پوچھے جانے پر فرمایا: ”اس سے مراد شفاعت ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- اور داود زغافری: داود اود بن یزید بن عبداللہ اودی ہیں، اور یہ عبداللہ بن ادریس کے چچا ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 14848)، و مسند احمد (2/441، 444، 528) (صحیح) (سند میں داود ضعیف اور ان کے باپ یزید عبد الرحمن الأودی الزعافری لین الحدیث راوی ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: الصحیحة رقم: 2369، 2370)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (2639 و 2370)، الظلال (784)
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن ابن ابي نجيح، عن مجاهد، عن ابي معمر، عن ابن مسعود، قال: " دخل رسول الله صلى الله عليه وسلم مكة عام الفتح وحول الكعبة ثلاث مائة وستون نصبا، فجعل النبي صلى الله عليه وسلم يطعنها بمخصرة في يده وربما قال بعود ويقول: " جاء الحق وزهق الباطل إن الباطل كان زهوقا سورة الإسراء آية 81 جاء الحق وما يبدئ الباطل وما يعيد سورة سبا آية 49 "، قال: هذا حديث حسن صحيح وفيه عن ابن عمر.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: " دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ عَامَ الْفَتْحِ وَحَوْلَ الْكَعْبَةِ ثَلَاثُ مِائَةٍ وَسِتُّونَ نُصُبًا، فَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَطْعَنُهَا بِمِخْصَرَةٍ فِي يَدِهِ وَرُبَّمَا قَالَ بِعُودٍ وَيَقُولُ: " جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا سورة الإسراء آية 81 جَاءَ الْحَقُّ وَمَا يُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَمَا يُعِيدُ سورة سبأ آية 49 "، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَفِيهِ عَنِ ابْنِ عُمَرَ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جس سال مکہ فتح ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے تو خانہ کعبہ کے اردگرد تین سو ساٹھ بت نصب تھے، آپ اپنے ہاتھ میں لی ہوئی چھڑی سے انہیں کچوکے لگانے لگے (عبداللہ نے کبھی ایسا کہا) اور کبھی کہا کہ آپ اپنے ہاتھ میں ایک لکڑی لیے ہوئے تھے، اور انہیں ہاتھ لگاتے ہوئے کہتے جاتے تھے «جاء الحق وزهق الباطل إن الباطل كان زهوقا»”حق آ گیا باطل مٹ گیا باطل کو مٹنا اور ختم ہونا ہی تھا“(بنی اسرائیل: ۸۱)، «جاء الحق وما يبدئ الباطل وما يعيد»”حق غالب آ گیا ہے، اب باطل نہ ابھر سکے گا اور نہ ہی لوٹ کر آئے گا“(سبا: ۴۹)۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اور اس باب میں ابن عمر رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے۔
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا جرير، عن قابوس بن ابي ظبيان، عن ابيه، عن ابن عباس، قال: " كان النبي صلى الله عليه وسلم بمكة ثم امر بالهجرة فنزلت عليه: وقل رب ادخلني مدخل صدق واخرجني مخرج صدق واجعل لي من لدنك سلطانا نصيرا سورة الإسراء آية 80 "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ قَابُوسَ بْنِ أَبِي ظَبْيَانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَكَّةَ ثُمَّ أُمِرَ بِالْهِجْرَةِ فَنَزَلَتْ عَلَيْهِ: وَقُلْ رَبِّ أَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَلْ لِي مِنْ لَدُنْكَ سُلْطَانًا نَصِيرًا سورة الإسراء آية 80 "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں تھے، پھر آپ کو ہجرت کا حکم ملا، اسی موقع پر آیت: «وقل رب أدخلني مدخل صدق وأخرجني مخرج صدق واجعل لي من لدنك سلطانا نصيرا»”دعا کر، اے میرے رب! مجھے اچھی جگہ پہنچا اور مجھے اچھی طرح نکال، اور اپنی طرف سے مجھے قوی مددگار مہیا فرما“(بنی اسرائیل: ۸۰)، نازل ہوئی۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا يحيى بن زكريا بن ابي زائدة، عن داود بن ابي هند، عن عكرمة، عن ابن عباس، قال: " قالت قريش ليهود: اعطونا شيئا نسال هذا الرجل، فقال: سلوه عن الروح، قال: فسالوه عن الروح، فانزل الله تعالى: ويسالونك عن الروح قل الروح من امر ربي وما اوتيتم من العلم إلا قليلا سورة الإسراء آية 85، قالوا: اوتينا علما كثيرا، اوتينا التوراة ومن اوتي التوراة فقد اوتي خيرا كثيرا، فانزلت: قل لو كان البحر مدادا لكلمات ربي لنفد البحر سورة الكهف آية 109 إلى آخر الآية "، قال: هذا حديث حسن صحيح غريب من هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبَي هِنْدٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " قَالَتْ قُرَيْشٌ لِيَهُودَ: أَعْطُونَا شَيْئًا نَسْأَلُ هَذَا الرَّجُلَ، فَقَالَ: سَلُوهُ عَنِ الرُّوحِ، قَالَ: فَسَأَلُوهُ عَنِ الرُّوحِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلا قَلِيلا سورة الإسراء آية 85، قَالُوا: أُوتِينَا عِلْمًا كَثِيرًا، أُوتِينَا التَّوْرَاةُ وَمَنْ أُوتِيَ التَّوْرَاةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا، فَأُنْزِلَتْ: قُلْ لَوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِكَلِمَاتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ سورة الكهف آية 109 إِلَى آخِرِ الْآيَةَ "، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ قریش نے یہود سے کہا کہ ہمیں کوئی ایسا سوال دو جسے ہم اس شخص (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) سے پوچھیں، انہوں نے کہا: اس شخص سے روح کے بارے میں سوال کرو، تو انہوں نے آپ سے روح کے بارے میں پوچھا (روح کی حقیقت کیا ہے؟) اس پر اللہ نے آیت «ويسألونك عن الروح قل الروح من أمر ربي وما أوتيتم من العلم إلا قليلا»”تم سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہہ دو! روح امر الٰہی ہے، تمہیں بہت ہی تھوڑا علم دیا گیا ہے“(بنی اسرائیل: ۸۵)، انہوں نے کہا: ہمیں تو بہت زیادہ علم حاصل ہے، ہمیں توراۃ ملی ہے، اور جسے توراۃ دی گئی ہو اسے بہت بڑی خیر مل گئی، اس پر آیت «قل لو كان البحر مدادا لكلمات ربي لنفد البحر»”کہہ دیجئیے: اگر میرے رب کی باتیں، کلمے، معلومات و مقدرات لکھنے کے لیے سمندر سیاہی (روشنائی) بن جائیں تو سمندر ختم ہو جائے (مگر میرے رب کی حمد و ثناء ختم نہ ہو)“(الکہف: ۱۰۹)، نازل ہوئی ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔
(مرفوع) حدثنا علي بن خشرم، اخبرنا عيسى بن يونس، عن الاعمش، عن إبراهيم، عن علقمة، عن عبد الله، قال: كنت امشي مع النبي صلى الله عليه وسلم في حرث بالمدينة وهو يتوكا على عسيب فمر بنفر من اليهود، فقال بعضهم: لو سالتموه، فقال بعضهم: لا تسالوه فإنه يسمعكم ما تكرهون، فقالوا له: يا ابا القاسم، حدثنا عن الروح، فقام النبي صلى الله عليه وسلم ساعة ورفع راسه إلى السماء، فعرفت انه يوحى إليه، حتى صعد الوحي، ثم قال: " الروح من امر ربي وما اوتيتم من العلم إلا قليلا سورة الإسراء آية 85 "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: كُنْتُ أَمْشِي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَرْثٍ بِالْمَدِينَةِ وَهُوَ يَتَوَكَّأُ عَلَى عَسِيبٍ فَمَرَّ بِنَفَرٍ مِنَ الْيَهُودِ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَوْ سَأَلْتُمُوهُ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَا تَسْأَلُوهُ فَإِنَّهُ يُسْمِعُكُمْ مَا تَكْرَهُونَ، فَقَالُوا لَهُ: يَا أَبَا الْقَاسِمِ، حَدِّثْنَا عَنِ الرُّوحِ، فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَاعَةً وَرَفَعَ رَأْسَهُ إِلَى السَّمَاءِ، فَعَرَفْتُ أَنَّهُ يُوحَى إِلَيْهِ، حَتَّى صَعِدَ الْوَحْيُ، ثُمَّ قَالَ: " الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلا قَلِيلا سورة الإسراء آية 85 "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ کے ایک کھیت میں چل رہا تھا۔ آپ (کبھی کبھی) کھجور کی ایک ٹہنی کا سہارا لے لیا کرتے تھے، پھر آپ کچھ یہودیوں کے پاس سے گزرے تو ان میں سے بعض نے (چہ میگوئی کی) کہا: کاش ان سے کچھ پوچھتے، بعض نے کہا: ان سے کچھ نہ پوچھو، کیونکہ وہ تمہیں ایسا جواب دیں گے جو تمہیں پسند نہ آئے گا (مگر وہ نہ مانے) کہا: ابوالقاسم! ہمیں روح کے بارے میں بتائیے، (یہ سوال سن کر) آپ کچھ دیر (خاموش) کھڑے رہے، پھر آپ نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا، تو میں نے سمجھ لیا کہ آپ پر وحی آنے والی ہے، چنانچہ وحی آ ہی گئی، پھر آپ نے فرمایا: «الروح من أمر ربي وما أوتيتم من العلم إلا قليلا»”روح میرے رب کے حکم سے ہے، تمہیں بہت تھوڑا علم حاصل ہے“۔
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، حدثنا الحسن بن موسى، وسليمان بن حرب، قالا: حدثنا حماد بن سلمة، عن علي بن زيد، عن اوس بن خالد، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يحشر الناس يوم القيامة ثلاثة اصناف: صنفا مشاة، وصنفا ركبانا، وصنفا على وجوههم "، قيل: يا رسول الله، وكيف يمشون على وجوههم؟ قال: " إن الذي امشاهم على اقدامهم قادر على ان يمشيهم على وجوههم، اما إنهم يتقون بوجوههم كل حدب وشوك "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن، وقد روى وهيب، عن ابن طاوس، عن ابيه، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم شيئا من هذا.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى، وَسُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَوْسِ بْنِ خَالِدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يُحْشَرُ النَّاسُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ثَلَاثَةَ أَصْنَافٍ: صِنْفًا مُشَاةً، وَصِنْفًا رُكْبَانًا، وَصِنْفًا عَلَى وُجُوهِهِمْ "، قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَكَيْفَ يَمْشُونَ عَلَى وُجُوهِهِمْ؟ قَالَ: " إِنَّ الَّذِي أَمْشَاهُمْ عَلَى أَقْدَامِهِمْ قَادِرٌ عَلَى أَنْ يُمْشِيَهُمْ عَلَى وُجُوهِهِمْ، أَمَا إِنَّهُمْ يَتَّقُونَ بِوُجُوهِهِمْ كُلَّ حَدَبٍ وَشَوْكٍ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ رَوَى وُهَيْبٌ، عَنِ ابْن طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا مِنْ هَذَا.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے دن لوگ تین طرح سے جمع کئے جائیں گے، ایک گروہ چل کر آئے گا، اور ایک گروہ سوار ہو کر آئے گا اور ایک گروہ اپنے منہ کے بل آئے گا“۔ پوچھا گیا: اللہ کے رسول! وہ لوگ اپنے منہ کے بل کیسے چلیں گے؟ آپ نے فرمایا: ”جس نے انہیں قدموں سے چلایا ہے وہ اس پر بھی قادر ہے کہ وہ انہیں ان کے منہ کے بل چلا دے، سنو (یہی نہیں ہو گا کہ وہ چلیں گے بلکہ) وہ منہ ہی سے ہر بلندی (نشیب و فراز) اور کانٹے سے بچ کر چلیں گے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- وہیب نے ابن طاؤس سے اور انہوں نے اپنے باپ طاؤس سے اور طاؤس نے ابوہریرہ کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس حدیث کا کچھ حصہ روایت کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 12203) (ضعیف) (سند میں علی بن زید بن جدعان ضعیف راوی ہیں)»
وضاحت: ۱؎: مؤلف یہ حدیث ارشاد باری تعالیٰ «ونحشرهم يوم القيامة على وجوههم»(الإسراء: ۹۷)۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (5546 / التحقيق الثاني)، التعليق الرغيب (4 / 194) // ضعيف الجامع الصغير (6417) //
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا يزيد بن هارون، اخبرنا بهز بن حكيم، عن ابيه، عن جده، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إنكم محشورون رجالا وركبانا ويجرون على وجوههم "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا بَهْزُ بْنُ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّكُمْ مَحْشُورُونَ رِجَالًا وَرُكْبَانًا وَيُجَرُّونَ عَلَى وُجُوهِهِمْ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
معاویہ بن حیدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم (قیامت میں) جمع کئے جاؤ گے: کچھ لوگ پیدل ہوں گے، کچھ لوگ سواری پر، اور کچھ لوگ اپنے منہ کے بل گھسیٹ کر اکٹھا کئے جائیں گے“۔
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا ابو داود، ويزيد بن هارون، وابو الوليد، واللفظ لفظ يزيد والمعنى واحد، عن شعبة، عن عمرو بن مرة، عن عبد الله بن سلمة، عن صفوان بن عسال، ان يهوديين قال احدهما لصاحبه اذهب بنا إلى هذا النبي نساله، فقال: لا تقل له نبي فإنه إن سمعنا نقول نبي كانت له اربعة اعين، فاتيا النبي صلى الله عليه وسلم، فسالاه عن قول الله عز وجل: ولقد آتينا موسى تسع آيات بينات سورة الإسراء آية 101، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا تشركوا بالله شيئا، ولا تزنوا، ولا تقتلوا النفس التي حرم الله إلا بالحق، ولا تسرقوا، ولا تسحروا، ولا تمشوا ببريء إلى سلطان فيقتله، ولا تاكلوا الربا، ولا تقذفوا محصنة، ولا تفروا من الزحف شك شعبة وعليكم يا معشر اليهود خاصة ان لا تعدوا في السبت، فقبلا يديه ورجليه "، وقالا: نشهد انك نبي، قال: فما يمنعكما ان تسلما؟، قالا: إن داود دعا الله ان لا يزال في ذريته نبي وإنا نخاف إن اسلمنا ان تقتلنا اليهود "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، وَيَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، وَأَبُو الْوَلِيدِ، وَاللَّفْظُ لَفْظُ يَزِيدَ وَالْمَعْنَى وَاحِدٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ، أَنَّ يَهُودِيَّيْنِ قَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ اذْهَبْ بِنَا إِلَى هَذَا النَّبِيِّ نَسْأَلُهُ، فَقَالَ: لَا تَقُلْ لَهُ نَبِيٌّ فَإِنَّهُ إِنْ سَمِعَنَا نَقُولُ نَبِيٌّ كَانَتْ لَهُ أَرْبَعَةُ أَعْيُنٍ، فَأَتَيَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَاهُ عَنْ قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى تِسْعَ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ سورة الإسراء آية 101، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تُشْرِكُوا بِاللَّهِ شَيْئًا، وَلَا تَزْنُوا، وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ، وَلَا تَسْرِقُوا، وَلَا تَسْحَرُوا، وَلَا تَمْشُوا بِبَرِيءٍ إِلَى سُلْطَانٍ فَيَقْتُلَهُ، وَلَا تَأْكُلُوا الرِّبَا، وَلَا تَقْذِفُوا مُحْصَنَةً، وَلَا تَفِرُّوا مِنَ الزَّحْفِ شَكَّ شُعْبَةُ وَعَلَيْكُمْ يَا مَعْشَرَ الْيَهُودَ خَاصَّةً أَنْ لَا تَعْدُوا فِي السَّبْتِ، فَقَبَّلَا يَدَيْهِ وَرِجْلَيْهِ "، وَقَالَا: نَشْهَدُ أَنَّكَ نَبِيٌّ، قَالَ: فَمَا يَمْنَعُكُمَا أَنْ تُسْلِمَا؟، قَالَا: إِنَّ دَاوُدَ دَعَا اللَّهَ أَنْ لَا يَزَالَ فِي ذُرِّيَّتِهِ نَبِيٌّ وَإِنَّا نَخَافُ إِنْ أَسْلَمْنَا أَنْ تَقْتُلَنَا الْيَهُودُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
صفوان بن عسال رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ یہود میں سے ایک یہودی نے دوسرے یہودی سے کہا: اس نبی کے پاس مجھے لے چلو، ہم چل کر ان سے (کچھ) پوچھتے ہیں، دوسرے نے کہا: انہیں نبی نہ کہو، اگر انہوں نے سن لیا کہ تم انہیں نبی کہتے ہو تو (مارے خوشی کے) ان کی چار آنکھیں ہو جائیں گی۔ پھر وہ دونوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور آپ سے اللہ تعالیٰ کے اس قول «ولقد آتينا موسى تسع آيات بينات»”ہم نے موسیٰ کو نو نشانیاں دیں“(اسرائیل: ۱۰۱)، کے بارے میں پوچھا کہ وہ نو نشانیاں کیا تھیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، زنا نہ کرو، ناحق کسی شخص کا قتل نہ کرو، چوری نہ کرو، جادو نہ کرو، کسی بری (بےگناہ) شخص کو (مجرم بنا کر) بادشاہ کے سامنے نہ لے جاؤ کہ وہ اسے قتل کر دے، سود نہ کھاؤ، کسی پاک دامن عورت پر زنا کی تہمت نہ لگاؤ، دشمن کی طرف بڑھتے ہوئے بڑے لشکر سے نکل کر نہ بھاگو“۔ شعبہ کو شک ہو گیا ہے (کہ آپ نے نویں چیز یہ فرمائی ہے) اور تم خاص یہودیوں کے لیے یہ بات ہے کہ ہفتے کے دن میں زیادتی (الٹ پھیر) نہ کرو، (یہ جواب سن کر) ان دونوں نے آپ کے ہاتھ پیر چومے اور کہا: ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے نبی ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”پھر تمہیں اسلام قبول کر لینے سے کیا چیز روک رہی ہے؟“ دونوں نے جواب دیا داود (علیہ السلام) نے دعا کی تھی کہ ان کی اولاد میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی نبی ہو گا (اور آپ ان کی ذریت میں سے نہیں ہیں) اب ہمیں ڈر ہے کہ ہم اگر آپ پر ایمان لے آتے ہیں تو ہمیں یہود قتل نہ کر دیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 2733، سنن ابن ماجہ/الأدب 16 (3705)، والنسائی فی الکبری فی السیر (8656) وفی المحاربة (3541) (تحفة الأشراف: 4951) وقد أخرجہ: مسند احمد (4/239) (ضعیف) (سند میں عبد اللہ بن سلمہ صدوق ہیں، لیکن حافظہ میں تبدیلی آ گئی تھی)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (3705) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (808)، وتقدم برقم (517 - 2889)، ضعيف سنن النسائي (275 / 4078) //
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، حدثنا سليمان بن داود، عن شعبة، عن ابي بشر، عن سعيد بن جبير، ولم يذكر عن ابن عباس، وهشيم، عن ابي بشر، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس ولا تجهر بصلاتك سورة الإسراء آية 110 قال: نزلت بمكة، كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا رفع صوته بالقرآن سبه المشركون، ومن انزله ومن جاء به، فانزل الله ولا تجهر بصلاتك سورة الإسراء آية 110 فيسبوا القرآن ومن انزله ومن جاء به ولا تخافت بها سورة الإسراء آية 110 عن اصحابك بان تسمعهم حتى ياخذوا عنك القرآن "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، وَلَمْ يَذْكُرْ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَهُشَيْمٍ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَلا تَجْهَرْ بِصَلاتِكَ سورة الإسراء آية 110 قَالَ: نَزَلَتْ بِمَكَّةَ، كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا رَفَعَ صَوْتَهُ بِالْقُرْآنِ سَبَّهُ الْمُشْرِكُونَ، وَمَنْ أَنْزَلَهُ وَمَنْ جَاءَ بِهِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ وَلا تَجْهَرْ بِصَلاتِكَ سورة الإسراء آية 110 فَيَسُبُّوا الْقُرْآنَ وَمَنْ أَنْزَلَهُ وَمَنْ جَاءَ بِهِ وَلا تُخَافِتْ بِهَا سورة الإسراء آية 110 عَنْ أَصْحَابِكَ بِأَنْ تُسْمِعَهُمْ حَتَّى يَأْخُذُوا عَنْكَ الْقُرْآنَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما آیت کریمہ: «ولا تجهر بصلاتك»”اپنی صلاۃ بلند آواز سے نہ پڑھو“(بنی اسرائیل: ۱۱۰)، کے بارے میں کہتے ہیں: یہ مکہ میں نازل ہوئی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بلند آواز کے ساتھ قرآن پڑھتے تھے تو مشرکین اسے اور جس نے قرآن نازل کیا ہے اور جو قرآن لے کر آیا ہے سب کو گالیاں دیتے تھے، تو اللہ نے «ولا تجهر بصلاتك» نازل کر کے نماز میں قرآن بلند آواز سے پڑھنے سے منع فرما دیا تاکہ وہ قرآن، اللہ تعالیٰ اور جبرائیل علیہ السلام کو گالیاں نہ دیں اور آگے «ولا تخافت بها» نازل فرمایا، یعنی اتنے دھیرے بھی نہ پڑھو کہ آپ کے ساتھی سن نہ سکیں بلکہ یہ ہے کہ وہ آپ سے قرآن سیکھیں (بلکہ ان دونوں کے درمیان کا راستہ اختیار کرو)۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تفسیر الإسراء 14 (4722)، والتوحید 134 (7490)، و 44 (7525)، و 52 (7547)، صحیح مسلم/الصلاة 31 (446)، سنن النسائی/الإفتتاح 80 (1012) (تحفة الأشراف: 5451)، و مسند احمد (1/23، 215) (صحیح)»
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا هشيم، حدثنا ابو بشر، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، في قوله: ولا تجهر بصلاتك ولا تخافت بها وابتغ بين ذلك سبيلا سورة الإسراء آية 110، قال: نزلت ورسول الله صلى الله عليه وسلم مختف بمكة، فكان إذا صلى باصحابه رفع صوته بالقرآن فكان المشركون إذا سمعوه شتموا القرآن ومن انزله ومن جاء به فقال الله لنبيه: ولا تجهر بصلاتك سورة الإسراء آية 110 اي بقراءتك فيسمع المشركون فيسبوا القرآن ولا تخافت بها سورة الإسراء آية 110 عن اصحابكوابتغ بين ذلك سبيلا سورة الإسراء آية 110 "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، فِي قَوْلِهِ: وَلا تَجْهَرْ بِصَلاتِكَ وَلا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلا سورة الإسراء آية 110، قَالَ: نَزَلَتْ وَرَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مختف بمكة، فَكَانَ إِذَا صَلَّى بِأَصْحَابِهِ رَفَعَ صَوْتَهُ بِالْقُرْآنِ فَكَانَ الْمُشْرِكُونَ إِذَا سَمِعُوهُ شَتَمُوا الْقُرْآنَ وَمَنْ أَنْزَلَهُ وَمَنْ جَاءَ بِهِ فَقَالَ اللَّهُ لِنَبِيِّهِ: وَلا تَجْهَرْ بِصَلاتِكَ سورة الإسراء آية 110 أَيْ بِقِرَاءَتِكَ فَيَسْمَعَ الْمُشْرِكُونَ فَيَسُبُّوا الْقُرْآنَ وَلا تُخَافِتْ بِهَا سورة الإسراء آية 110 عَنْ أَصْحَابِكَوَابْتَغِ بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلا سورة الإسراء آية 110 "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما آیت کریمہ: «ولا تجهر بصلاتك ولا تخافت بها وابتغ بين ذلك سبيلا»”صلاۃ میں آواز بہت بلند نہ کیجئے اور نہ ہی بہت پست بلکہ دونوں کے درمیان کا راستہ اختیار کیجئے“(الاسراء: ۱۱۰)، کے بارے میں کہتے ہیں: یہ آیت مکہ میں اس وقت نازل ہوئی جب آپ مکہ میں چھپے چھپے رہتے تھے، جب آپ اپنے صحابہ کے ساتھ نماز پڑھتے تھے تو قرآن بلند آواز سے پڑھتے تھے، مشرکین جب سن لیتے تو قرآن، قرآن نازل کرنے والے اور قرآن لانے والے سب کو گالیاں دیتے تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: «ولا تجهر بصلاتك» بلند آواز سے نماز نہ پڑھو (یعنی بلند آواز سے قرأت نہ کرو) کہ جسے سن کر مشرکین قرآن کو گالیاں دینے لگیں اور نہ دھیمی آواز سے پڑھو (کہ تمہارے صحابہ سن نہ سکیں) بلکہ درمیان کا راستہ اختیار کرو۔
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن مسعر، عن عاصم بن ابي النجود، عن زر بن حبيش، قال: قلت لحذيفة بن اليمان " اصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم في بيت المقدس؟، قال: لا، قلت: بلى، قال: انت تقول ذاك يا اصلع، بم تقول ذلك؟ قلت: بالقرآن، بيني وبينك القرآن، فقال حذيفة: من احتج بالقرآن فقد افلح، قال سفيان: يقول فقد احتج وربما قال قد فلج، فقال: سبحان الذي اسرى بعبده ليلا من المسجد الحرام إلى المسجد الاقصى سورة الإسراء آية 1، قال: افتراه صلى فيه؟ قلت: لا، قال: لو صلى فيه لكتبت عليكم الصلاة فيه كما كتبت الصلاة في المسجد الحرام، قال حذيفة: اتي رسول الله صلى الله عليه وسلم بدابة طويلة الظهر ممدودة هكذا خطوه مد بصره، فما زايلا ظهر البراق حتى رايا الجنة والنار، ووعد الآخرة اجمع ثم رجعا عودهما على بدئهما، قال: ويتحدثون انه ربطه لم ايفر منه وإنما سخره له عالم الغيب والشهادة "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مِسْعَرٍ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِي النَّجُودِ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ، قَالَ: قُلْتُ لِحُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ " أَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِ الْمَقْدِسِ؟، قَالَ: لَا، قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: أَنْتَ تَقُولُ ذَاكَ يَا أَصْلَعُ، بِمَ تَقُولُ ذَلِكَ؟ قُلْتُ: بِالْقُرْآنِ، بَيْنِي وَبَيْنَكَ الْقُرْآنُ، فَقَالَ حُذَيْفَةُ: مَنِ احْتَجَّ بِالْقُرْآنِ فَقَدْ أَفْلَحَ، قَالَ سُفْيَانُ: يَقُولُ فَقَدِ احْتَجَّ وَرُبَّمَا قَالَ قَدْ فَلَجَ، فَقَالَ: سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الأَقْصَى سورة الإسراء آية 1، قَالَ: أَفَتُرَاهُ صَلَّى فِيهِ؟ قُلْتُ: لَا، قَالَ: لَوْ صَلَّى فِيهِ لَكُتِبَتْ عَلَيْكُمُ الصَّلَاةُ فِيهِ كَمَا كُتِبَتِ الصَّلَاةُ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ، قَالَ حُذَيْفَةُ: أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِدَابَّةٍ طَوِيلَةِ الظَّهْرِ مَمْدُودَةٍ هَكَذَا خَطْوُهُ مَدُّ بَصَرِهِ، فَمَا زَايَلَا ظَهْرَ الْبُرَاقِ حَتَّى رَأَيَا الْجَنَّةَ وَالنَّارَ، وَوَعْدَ الْآخِرَةِ أَجْمَعَ ثُمَّ رَجَعَا عَوْدَهُمَا عَلَى بَدْئِهِمَا، قَالَ: وَيَتَحَدَّثُونَ أَنَّهُ رَبَطَهُ لِمَ أَيَفِرُّ مِنْهُ وَإِنَّمَا سَخَّرَهُ لَهُ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
زر بن حبیش کہتے ہیں کہ میں نے حذیفہ بن یمان رضی الله عنہ سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المقدس میں نماز پڑھی تھی؟ تو انہوں نے کہا: نہیں، میں نے کہا: بیشک پڑھی تھی، انہوں نے کہا: اے گنجے سر والے، تم ایسا کہتے ہو؟ کس بنا پر تم ایسا کہتے ہو؟ میں نے کہا: میں قرآن کی دلیل سے کہتا ہوں، میرے اور آپ کے درمیان قرآن فیصل ہے۔ حذیفہ رضی الله عنہ نے کہا: جس نے قرآن سے دلیل قائم کی وہ کامیاب رہا، جس نے قرآن سے دلیل پکڑی وہ حجت میں غالب رہا، زر بن حبیش نے کہا: میں نے «سبحان الذي أسرى بعبده ليلا من المسجدالحرام إلى المسجد الأقصى»۱؎ آیت پیش کی، حذیفہ رضی الله عنہ نے کہا: کیا تم اس آیت میں کہیں یہ دیکھتے ہو کہ آپ نے نماز پڑھی ہے؟ میں نے کہا: نہیں، انہوں نے کہا: اگر آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے وہاں نماز پڑھ لی ہوتی تو تم پر وہاں نماز پڑھنی ویسے ہی فرض ہو جاتی جیسا کہ مسجد الحرام میں پڑھنی فرض کر دی گئی ہے ۲؎، حذیفہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لمبی چوڑی پیٹھ والا جانور (براق) لایا گیا، اس کا قدم وہاں پڑتا جہاں اس کی نظر پہنچتی اور وہ دونوں اس وقت تک براق پر سوار رہے جب تک کہ جنت جہنم اور آخرت کے وعدہ کی ساری چیزیں دیکھ نہ لیں، پھر وہ دونوں لوٹے، اور ان کا لوٹنا ان کے شروع کرنے کے انداز سے تھا ۳؎ لوگ بیان کرتے ہیں کہ جبرائیل علیہ السلام نے اسے (یعنی براق کو بیت المقدس میں) باندھ دیا تھا، کیوں باندھ دیا تھا؟ کیا اس لیے کہ کہیں بھاگ نہ جائے؟ (غلط بات ہے) جس جانور کو عالم الغیب والشھادۃ غائب و موجود ہر چیز کے جاننے والے نے آپ کے لیے مسخر کر دیا ہو وہ کہیں بھاگ سکتا ہے؟ نہیں۔
وضاحت: ۱؎: پاک ہے وہ ذات جو لے گئی اپنے بندے کو راتوں رات مسجد الحرام سے مسجد الاقصیٰ تک۔
۲؎: حذیفہ رضی الله عنہ کا یہ بیان ان کے اپنے علم کے مطابق ہے، ورنہ احادیث میں واضح طور سے آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں انبیاء کی امامت کی تھی، اور براق کو وہاں باندھا بھی تھا جہاں دیگر انبیاء اپنی سواریاں باندھا کرتے تھے (التحفۃ مع الفتح)۔
۳؎: یعنی جس برق رفتاری سے وہ گئے تھے اسی برق رفتاری سے واپس بھی آئے۔
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن علي بن زيد بن جدعان، عن ابي نضرة، عن ابي سعيد، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " انا سيد ولد آدم يوم القيامة ولا فخر، وبيدي لواء الحمد ولا فخر، وما من نبي يومئذ آدم فمن سواه إلا تحت لوائي، وانا اول من تنشق عنه الارض ولا فخر، قال: فيفزع الناس ثلاث فزعات، فياتون آدم، فيقولون: انت ابونا آدم فاشفع لنا إلى ربك، فيقول: إني اذنبت ذنبا اهبطت منه إلى الارض، ولكن ائتوا نوحا، فياتون نوحا، فيقول: إني دعوت على اهل الارض دعوة فاهلكوا، ولكن اذهبوا إلى إبراهيم، فياتون إبراهيم، فيقول: إني كذبت ثلاث كذبات، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما منها كذبة إلا ما حل بها عن دين الله ولكن ائتوا موسى، فياتون موسى، فيقول: إني قد قتلت نفسا، ولكن ائتوا عيسى، فياتون عيسى فيقول: إني عبدت من دون الله، ولكن ائتوا محمدا، قال: فياتونني فانطلق معهم، قال ابن جدعان: قال انس: فكاني انظر إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: فآخذ بحلقة باب الجنة فاقعقعها، فيقال: من هذا؟ فيقال: محمد فيفتحون لي ويرحبون بي، فيقولون: مرحبا، فاخر ساجدا فيلهمني الله من الثناء والحمد، فيقال لي: ارفع راسك سل تعط، واشفع تشفع وقل يسمع لقولك وهو المقام المحمود الذي قال الله: عسى ان يبعثك ربك مقاما محمودا سورة الإسراء آية 79 "، قال سفيان: ليس عن انس إلا هذه الكلمة فآخذ بحلقة باب الجنة فاقعقعها، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن، وقد روى بعضهم هذا الحديث عن ابي نضرة، عن ابن عباس الحديث بطوله..(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدِ بْنِ جُدْعَانَ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرَ، وَبِيَدِي لِوَاءُ الْحَمْدِ وَلَا فَخْرَ، وَمَا مِنْ نَبِيٍّ يَوْمَئِذٍ آدَمُ فَمَنْ سِوَاهُ إِلَّا تَحْتَ لِوَائِي، وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الْأَرْضُ وَلَا فَخْرَ، قَالَ: فَيَفْزَعُ النَّاسُ ثَلَاثَ فَزَعَاتٍ، فَيَأْتُونَ آدَمَ، فَيَقُولُونَ: أَنْتَ أَبُونَا آدَمُ فَاشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، فَيَقُولُ: إِنِّي أَذْنَبْتُ ذَنْبًا أُهْبِطْتُ مِنْهُ إِلَى الْأَرْضِ، وَلَكِنْ ائْتُوا نُوحًا، فَيَأْتُونَ نُوحًا، فَيَقُولُ: إِنِّي دَعَوْتُ عَلَى أَهْلِ الْأَرْضِ دَعْوَةً فَأُهْلِكُوا، وَلَكِنْ اذْهَبُوا إِلَى إِبْرَاهِيمَ، فَيَأْتُونَ إِبْرَاهِيمَ، فَيَقُولُ: إِنِّي كَذَبْتُ ثَلَاثَ كَذِبَاتٍ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا مِنْهَا كَذِبَةٌ إِلَّا مَا حَلَّ بِهَا عَنْ دِينِ اللَّهِ وَلَكِنْ ائْتُوا مُوسَى، فَيَأْتُونَ مُوسَى، فَيَقُولُ: إِنِّي قَدْ قَتَلْتُ نَفْسًا، وَلَكِنْ ائْتُوا عِيسَى، فَيَأْتُونَ عِيسَى فَيَقُولُ: إِنِّي عُبِدْتُ مِنْ دُونِ اللَّهِ، وَلَكِنْ ائْتُوا مُحَمَّدًا، قَالَ: فَيَأْتُونَنِي فَأَنْطَلِقُ مَعَهُمْ، قَالَ ابْنُ جُدْعَانَ: قَالَ أَنَسٌ: فَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: فَآخُذُ بِحَلْقَةِ بَابِ الْجَنَّةِ فَأُقَعْقِعُهَا، فَيُقَالُ: مَنْ هَذَا؟ فَيُقَالُ: مُحَمَّدٌ فَيَفْتَحُونَ لِي وَيُرَحِّبُونَ بِي، فَيَقُولُونَ: مَرْحَبًا، فَأَخِرُّ سَاجِدًا فَيُلْهِمُنِي اللَّهُ مِنَ الثَّنَاءِ وَالْحَمْدِ، فَيُقَالُ لِي: ارْفَعْ رَأْسَكَ سَلْ تُعْطَ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ وَقُلْ يُسْمَعْ لِقَوْلِكَ وَهُوَ الْمَقَامُ الْمَحْمُودُ الَّذِي قَالَ اللَّهُ: عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا سورة الإسراء آية 79 "، قَالَ سُفْيَانُ: لَيْسَ عَنْ أَنَسٍ إِلَّا هَذِهِ الْكَلِمَةُ فَآخُذُ بِحَلْقَةِ بَابِ الْجَنَّةِ فَأُقَعْقِعُهَا، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ رَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ..
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے دن میں سارے انسانوں کا سردار ہوں گا، اور اس پر مجھے کوئی گھمنڈ نہیں ہے، میرے ہاتھ میں حمد (و شکر) کا پرچم ہو گا اور مجھے (اس اعزاز پر) کوئی گھمنڈ نہیں ہے۔ اس دن آدم اور آدم کے علاوہ جتنے بھی نبی ہیں سب کے سب میرے جھنڈے کے نیچے ہوں گے، میں پہلا شخص ہوں گا جس کے لیے زمین پھٹے گی (اور میں برآمد ہوں گا) اور مجھے اس پر بھی کوئی گھمنڈ نہیں ہے“، آپ نے فرمایا: ”(قیامت میں) لوگوں پر تین مرتبہ سخت گھبراہٹ طاری ہو گی، لوگ آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور کہیں گے: آپ ہمارے باپ ہیں، آپ اپنے رب سے ہماری شفاعت (سفارش) کر دیجئیے، وہ کہیں گے: مجھ سے ایک گناہ سرزد ہو چکا ہے جس کی وجہ سے میں زمین پر بھیج دیا گیا تھا، تم لوگ نوح کے پاس جاؤ، وہ لوگ نوح علیہ السلام کے پاس آئیں گے، مگر نوح علیہ السلام کہیں گے: میں زمین والوں کے خلاف بد دعا کر چکا ہوں جس کے نتیجہ میں وہ ہلاک کیے جا چکے ہیں، لیکن ایسا کرو، تم لوگ ابراہیم علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ، وہ لوگ ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئیں گے، ابراہیم علیہ السلام کہیں گے: میں تین جھوٹ بول چکا ہوں“، آپ نے فرمایا: ”ان میں سے کوئی جھوٹ جھوٹ نہیں تھا، بلکہ اس سے اللہ کے دین کی حمایت و تائید مقصود تھی، البتہ تم موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ، تو وہ لوگ موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں گے، موسیٰ علیہ السلام کہیں گے: میں ایک قتل کر چکا ہوں، لیکن تم عیسیی علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ۔ تو وہ عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جائیں گے، وہ کہیں گے: اللہ کے سوا مجھے معبود بنا لیا گیا تھا، تم لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ“، آپ نے فرمایا: ”لوگ میرے پاس (سفارش کرانے کی غرض سے) آئیں گے، میں ان کے ساتھ (دربار الٰہی کی طرف) جاؤں گا“، ابن جدعان (راوی حدیث) کہتے ہیں: انس نے کہا: مجھے ایسا لگ رہا ہے تو ان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہا ہوں، آپ نے فرمایا: ”میں جنت کے دروازے کا حلقہ (زنجیر) پکڑ کر اسے ہلاؤں گا، پوچھا جائے گا: کون ہے؟ کہا جائے گا: محمد ہیں، وہ لوگ میرے لیے دروازہ کھول دیں گے، اور مجھے خوش آمدید کہیں گے، میں (اندر پہنچ کر اللہ کے حضور) سجدے میں گر جاؤں گا اور حمد و ثنا کے جو الفاظ اور کلمے اللہ میرے دل میں ڈالے گا وہ میں سجدے میں ادا کروں گا، پھر مجھ سے کہا جائے گا: اپنا سر اٹھائیے، مانگیے (جو کچھ مانگنا ہو) آپ کو دیا جائے گا۔ (کسی کی سفارش کرنی ہو تو) سفارش کیجئے آپ کی شفاعت (سفارش) قبول کی جائے گی، کہئے آپ کی بات سنی جائے گی۔ اور وہ جگہ (جہاں یہ باتیں ہوں گی) مقام محمود ہو گا جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے «عسى أن يبعثك ربك مقاما محمودا»”توقع ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو مقام محمود میں بھیجے“(بنی اسرائیل: ۷۹)۔ سفیان ثوری کہتے ہیں: انس کی روایت میں اس کلمے «فآخذ بحلقة باب الجنة فأقعقعها» کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- بعض محدثین نے یہ پوری حدیث ابونضرہ کے واسطہ سے ابن عباس سے روایت کی ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الزہد 37 (4308) (تحفة الأشراف: 4367) (صحیح) (سند میں علی بن زید بن جدعان ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے)»