سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
کتاب سنن ترمذي تفصیلات

سنن ترمذي
کتاب: تفسیر قرآن کریم
Chapters on Tafsir
3. باب وَمِنْ سُورَةِ الْبَقَرَةِ
3. باب: سورۃ البقرہ سے بعض آیات کی تفسیر۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2961
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا ابو معاوية، حدثنا الاعمش، عن ابي صالح، عن ابي سعيد، عن النبي صلى الله عليه وسلم في قوله: " وكذلك جعلناكم امة وسطا سورة البقرة آية 143، قال: عدلا "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قَوْلِهِ: " وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا سورة البقرة آية 143، قَالَ: عَدْلًا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت: «وكذلك جعلناكم أمة وسطا» ہم نے اسی طرح تمہیں عادل امت بنایا ہے (البقرہ: ۱۴۳) کے سلسلے میں فرمایا: «وسط» سے مراد عدل ہے (یعنی انصاف پسند)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء 3 (3339)، وتفسیر سورة البقرة 13 (4487)، والاعتصام 19 (7349)، سنن ابن ماجہ/الزہد 34 (4284) (تحفة الأشراف: 4003) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

   صحيح البخاري3339سعد بن مالكيجيء نوح وأمته فيقول الله هل بلغت فيقول نعم أي رب فيقول لأمته هل بلغكم فيقولون لا ما جاءنا من نبي فيقول لنوح من يشهد لك فيقول محمد وأمته فنشهد أنه قد بلغ وهو قوله جل ذكره وكذلك جعلناكم أمة وسطا لتكونوا شهداء على الناس
   صحيح البخاري7349سعد بن مالكيجاء بنوح يوم القيامة فيقال له هل بلغت فيقول نعم يا رب فتسأل أمته هل بلغكم فيقولون ما جاءنا من نذير فيقول من شهودك فيقول محمد وأمته فيجاء بكم فتشهدون ثم قرأ رسول الله وكذلك جعلناكم أمة وسطا
   صحيح البخاري4487سعد بن مالكيدعى نوح يوم القيامة فيقول لبيك وسعديك يا رب فيقول هل بلغت فيقول نعم فيقال لأمته هل بلغكم فيقولون ما أتانا من نذير فيقول من يشهد لك فيقول محمد وأمته فتشهدون أنه قد بلغ ويكون الرسول عليكم شهيدا
   جامع الترمذي2961سعد بن مالكيدعى نوح فيقال هل بلغت فيقول نعم فيدعى قومه فيقال هل بلغكم فيقولون ما أتانا من نذير وما أتانا من أحد فيقال من شهودك فيقول محمد وأمته قال فيؤتى بكم تشهدون أنه قد بلغ فذلك قول الله وكذلك جعلناكم أمة وسطا لتكونوا شهداء على الناس
   جامع الترمذي2961سعد بن مالكوكذلك جعلناكم أمة وسطا قال عدلا

   صحيح البخاري3339سعد بن مالكيجيء نوح وأمته فيقول الله هل بلغت فيقول نعم أي رب فيقول لأمته هل بلغكم فيقولون لا ما جاءنا من نبي فيقول لنوح من يشهد لك فيقول محمد وأمته فنشهد أنه قد بلغ وهو قوله جل ذكره وكذلك جعلناكم أمة وسطا لتكونوا شهداء على الناس
   صحيح البخاري7349سعد بن مالكيجاء بنوح يوم القيامة فيقال له هل بلغت فيقول نعم يا رب فتسأل أمته هل بلغكم فيقولون ما جاءنا من نذير فيقول من شهودك فيقول محمد وأمته فيجاء بكم فتشهدون ثم قرأ رسول الله وكذلك جعلناكم أمة وسطا
   صحيح البخاري4487سعد بن مالكيدعى نوح يوم القيامة فيقول لبيك وسعديك يا رب فيقول هل بلغت فيقول نعم فيقال لأمته هل بلغكم فيقولون ما أتانا من نذير فيقول من يشهد لك فيقول محمد وأمته فتشهدون أنه قد بلغ ويكون الرسول عليكم شهيدا
   جامع الترمذي2961سعد بن مالكيدعى نوح فيقال هل بلغت فيقول نعم فيدعى قومه فيقال هل بلغكم فيقولون ما أتانا من نذير وما أتانا من أحد فيقال من شهودك فيقول محمد وأمته قال فيؤتى بكم تشهدون أنه قد بلغ فذلك قول الله وكذلك جعلناكم أمة وسطا لتكونوا شهداء على الناس
   جامع الترمذي2961سعد بن مالكوكذلك جعلناكم أمة وسطا قال عدلا

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 2961 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2961  
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
ہم نے اسی طرح تمہیں عادل امت بنایا ہے (البقرۃ: 143)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2961   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4487  
4487. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن حضرت نوح ؑ کو بلایا جائے گا تو وہ عرض کریں گے: پروردگار! میں حاضر ہوں۔ آپ کا جو ارشاد ہو میں اسے بجا لانے کے لیے تیار ہوں۔ پروردگار فرمائے گا: کیا تم نے لوگوں کو ہمارے احکام بتا دیے تھے؟ وہ کہیں گے: ہاں۔ پھر ان کی امت سے پوچھا جائے گا: کیا انہوں نے تمہیں میرا حکم پہنچایا تھا؟ وہ کہیں گے: ہمارے پاس تو کوئی ڈرانے والا آیا ہی نہیں۔ اللہ تعالٰی حضرت نوح ؑ سے فرمائے گا: تمہارا کوئی گواہ ہے؟ وہ عرض کریں گے: حضرت محمد ﷺ اور ان کی امت گواہ ہے۔ پھر اس امت کے لوگ گواہی دیں گے کہ حضرت نوح ؑ نے اللہ کا پیغام پہنچایا تھا۔ اور پیغمبر ؑ تم پر گواہ بنیں گے۔ اللہ تعالٰی کے اس ارشاد کا یہی مطلب ہے: اسی طرح ہم نے تمہیں امت وسط بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور رسول تمہارے لیے گواہی دے۔ آیت میں لفظ وسط۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4487]
حدیث حاشیہ:
یہ جملہ حدیث میں داخل ہے راوی کا کلام نہیں ہے۔
وسط کے معنی بہتر کے ہیں۔
عرب لوگ کہتے ہیں۔
فلان وسط في قومه۔
یعنی فلاں اپنی قوم میں سب سے بہتر آدمی ہے۔
ابو معاویہ کی روایت میں اتنازیادہ ہے کہ پر ور دگا ر پوچھے گا تم کو کیسے معلوم ہوا، وہ عرض کریں گے ہمارے رسول کریم ﷺ نے ہم کو خبر دی تھی کہ اگلے پیغمبروں نے اپنی اپنی امتوں کو اللہ کے حکم پہنچا دئیے اور ان کی خبر سچی ہے۔
اس حدیث سے یہ قانون نکلا کہ اگر سنی ہوئی بات کا یقین ہوجا ئے تو اس کی گواہی دینا درست ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4487   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7349  
7349. سیدنا ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن سیدنا نوح ؑ کو لایا جائے گا اور ان سے پوچھا جائے گا: کیا تم نے اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا؟ وہ کہیں گے: ہاں، اے ہمارے رب! پھر ان کی امت سے سوال کیا جائے گا: کیا انہوں نے تمہیں اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا؟ تو وہ جواب دیں گے: ہمارے پاس تو کوئی ڈرانے والا نہیں آیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ (اے نوح!) تمہارے گواہ کون ہیں؟ وہ کہیں گے: حضرت محمد ﷺ اور ان کی امت میرے گواہ ہیں، پھر تمہیں لایا جائے گا اور تم لوگ (ان کے حق میں) گواہی دو گے۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: اسی طرح ہم نے تمہیں افضل امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر حق کی گواہی اور رسول تم پر گواہ بنے۔ وسطاً سے مراد عدلاً ہے۔ جعفر بن عون نے سیدنا اعمش سے انہوں نے ابو صالح سے انہوں نے سیدنا ابو سعید خدری ؓ سے، انہوں نے نبی ﷺ سے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7349]
حدیث حاشیہ:
حالانکہ مسلمانوں نے حضرت نوح علیہ السلام کو دنیا میں نہیں دیکھا نہ ان کی امت واولں کو مگر یقین کے ساتھ گواہی دیں گے کیونکہ جو بات اللہ اور رسول کے فرمانے سے اور تواتر کے ساتھ سنی جائے وہ مثل دیکھی ہوئی بات کے یقینی ہوتی ہے اور دنیا میں بھی ایسی گواہی لی جاتی ہے۔
مثلاً ایک شخص کسی کا بیٹا ہو اور سب لوگوں میں مشہور ہو تو یہ گواہی دے سکتے ہیں کہ وہ فلاں شخص کا بیٹا ہے حالانکہ اس کو پیدا ہوتے وقت آنکھ سے نہیں دیکھا۔
اس آیت سے بعضوں نے یہ نکالا ہے کہ اجماع حجت ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس امت کو امت عادلہ فرمایا اور یہ ممکن نہیں کہ ساری امت کا اجماع نا حق اور باطل پر ہو جائے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7349   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3339  
3339. حضرت ابو سعید خدری ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن حضرت نوح ؑ اور ان کی امت آئے گی تو اللہ تعالیٰ دریافت فرمائےگا: کیا تم نے انھیں میرا پیغام پہنچادیا تھا؟ حضرت نوح ؑ عرض کریں گے: میں نے ان کو تیرا پیغام پہنچا دیاتھا اسے رب العزت! اب اللہ تعالیٰ ان کی امت سے دریافت فرمائے گا: کیا انھوں نے تمھیں میرا پیغام دیا تھا؟ وہ جواب دیں گے: نہیں! ہمارے پاس تیرا کوئی نبی نہیں آیا۔ اللہ تعالیٰ حضرت نوح ؑ سے دریافت فرمائے گا: تمہارا کوئی گواہ ہے؟ وہ کہیں گے حضرت محمد ﷺ اور آپ کی اُمت کے لوگ میرے گواہ ہیں، چنانچہ وہ(میری امت) اس امر کی گواہی دے گی کہ نوح ؑ نے لوگوں کو اللہ کاپیغام پہنچا دیا تھا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: اور اسی طرح ہم نے تمھیں امت وسط بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہی دو۔ وسط کے معنی عدل کے ہیں، یعنی تم عدل و انصاف کے علم بردار ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3339]
حدیث حاشیہ:

قرآن کریم میں ہے۔
آج ہم ان کی زبانوں پر مہر لگادیں گے تاکہ وہ بات نہ کر سکیں۔
(یٰس 36۔
65)

سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب ان کی زبان بندی ہوگی تو وہ اللہ کے حضور کلام کیسے کریں گے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قیامت کے دن لوگ کئی قسم کے حالات سے دوچار ہوں گے۔
ایک وقت ایسا ہوگا کہ وہ باتیں کریں گے اور ایک وقت ایسا آئے گا کہ ان کی زبانوں پر مہر لگا دی جائے گی اور ان کے اعضاء ان کے خلاف گواہی دے گے۔

اس حدیث میں بھی حضرت نوح ؑ کا ذکر خیر ہے لہٰذا اسے مذکورہ عنوان کے تحت ذکر کیا گیا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3339   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4487  
4487. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن حضرت نوح ؑ کو بلایا جائے گا تو وہ عرض کریں گے: پروردگار! میں حاضر ہوں۔ آپ کا جو ارشاد ہو میں اسے بجا لانے کے لیے تیار ہوں۔ پروردگار فرمائے گا: کیا تم نے لوگوں کو ہمارے احکام بتا دیے تھے؟ وہ کہیں گے: ہاں۔ پھر ان کی امت سے پوچھا جائے گا: کیا انہوں نے تمہیں میرا حکم پہنچایا تھا؟ وہ کہیں گے: ہمارے پاس تو کوئی ڈرانے والا آیا ہی نہیں۔ اللہ تعالٰی حضرت نوح ؑ سے فرمائے گا: تمہارا کوئی گواہ ہے؟ وہ عرض کریں گے: حضرت محمد ﷺ اور ان کی امت گواہ ہے۔ پھر اس امت کے لوگ گواہی دیں گے کہ حضرت نوح ؑ نے اللہ کا پیغام پہنچایا تھا۔ اور پیغمبر ؑ تم پر گواہ بنیں گے۔ اللہ تعالٰی کے اس ارشاد کا یہی مطلب ہے: اسی طرح ہم نے تمہیں امت وسط بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور رسول تمہارے لیے گواہی دے۔ آیت میں لفظ وسط۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4487]
حدیث حاشیہ:

ایک روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس امت سے دریافت کرے گا۔
"تمھیں اس بات کا علم کیسے ہوا۔
؟" وہ عرض کریں گے ہمیں رسول اللہ ﷺ نے خبر دی تھی کہ تمام رسولوں نے اپنی اپنی امت کو اللہ کا حکم پہنچا دیا تھا۔
ان کی خبر صحیح تھی۔
اس پر ہم نے حضرت نوح ؑ کی تصدیق کردی۔
(مسند أحمد: 58/3)

اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ گواہی کے لیے کسی چیز کا مشاہدہ ضروری نہیں بلکہ کسی امر کے متعلق علم و اطلاع ہو نا ہی کافی ہے وگرنہ اس مات کے لوگ حضرت نوح ؑ کے متعلق کیونکر گواہی دیں گے کہ وہ حق پر ہیں کیا یہ لوگ اس وقت وہاں موجود تھے؟ انھیں اس کا علم رسول اللہ ﷺ کے ذریعے سے ہوا اور اس علم کی بنیاد پر انھوں نے گواہی دی۔

واضح رہے کہ وسط کے لغوی معنی تو درمیان کے ہیں لیکن یہ لفظ بہتر اور افضل کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے جیسا کہ امام بخاری ؒ نے حدیث کے آخر میں اس کی وضاحت کی ہے یعنی جس طرح تمھیں سب سے بہتر قبلہ عطا کیا گیا ہے اسی طرح تمھیں تمام امتوں سے افضل بنایا گیا ہے۔
وسط کے ایک معنی اعتدال بھی کیے گئے ہیں یعنی تم معتدل اور افراط و تفریط سے پاک ہو۔
یہ معنی اسلامی تعلیمات کے اعتبار سے ہیں یعنی دینی معامالات میں نہ تو عیسائیوں کی طرح غلو کا شکار ہیں اور نہ یہودیوں کی طرح تقصیر ہی کے مرتکب ہیں۔
(فتح الباري: 217/8)
صحیح بخاری کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ وسط کے یہ معنی مرفوع حدیث کا حصہ ہیں جیسا کہ کتاب الاعتصام میں وسطاً عدلاً کے الفاظ ہیں۔
(صحیح البخاري، الاعضام بالکتاب والسنة، حدیث: 7349)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4487   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7349  
7349. سیدنا ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن سیدنا نوح ؑ کو لایا جائے گا اور ان سے پوچھا جائے گا: کیا تم نے اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا؟ وہ کہیں گے: ہاں، اے ہمارے رب! پھر ان کی امت سے سوال کیا جائے گا: کیا انہوں نے تمہیں اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا؟ تو وہ جواب دیں گے: ہمارے پاس تو کوئی ڈرانے والا نہیں آیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ (اے نوح!) تمہارے گواہ کون ہیں؟ وہ کہیں گے: حضرت محمد ﷺ اور ان کی امت میرے گواہ ہیں، پھر تمہیں لایا جائے گا اور تم لوگ (ان کے حق میں) گواہی دو گے۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: اسی طرح ہم نے تمہیں افضل امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر حق کی گواہی اور رسول تم پر گواہ بنے۔ وسطاً سے مراد عدلاً ہے۔ جعفر بن عون نے سیدنا اعمش سے انہوں نے ابو صالح سے انہوں نے سیدنا ابو سعید خدری ؓ سے، انہوں نے نبی ﷺ سے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7349]
حدیث حاشیہ:

ہم لوگوں نے حضرت نوح علیہ السلام یا ان کی امت کونہیں دیکھا مگرقیامت کے دن یقین کےساتھ گواہی دیں گے کہ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی اُمت کو اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچادیا تھا۔
ہمیں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتانے سے اس حقیقت کا پتا چلا ہے، جو بات تواتر کے ساتھ سنی جائے وہ دیکھی ہوئی چیز کی طرح ہوتی ہے اور اس کے متعلق گواہی بھی دی جا سکتی ہے۔
مثلاً:
ایک شخص کا بیٹا ہے اور سب لوگوں کو اس کا علم ہوتو وہ اس کے متعلق گواہی دے سکتے ہیں کہ فلاں شخص فلاں کا بیٹا ہے، حالانکہ کسی نے اسے پیدا ہوتے ہوئے اپنی آنکھ سے نہیں دیکھا۔

اس آیت کریمہ سے بعض حضرات نے حجیت اجماع کو ثابت کیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس اُمت کو اُمت وَسَط، یعنی عدل پسند فرمایا ہے اور یہ ممکن نہیں کہ ساری اُمت کا اجماع کسی باطل یا ناحق چیز پر ہو جائے، چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عنوان میں اس امر کی طرف اشارہ کیا ہے کیونکہ آیت کریمہ میں اس امت مرحومہ کا وصف "وَسَط" بیان ہوا ہے۔
اس سے مراد ان کا عدل پسند ہونا ہے، اس لیے اہل جہالت اور اہل بدعت قطعاً اس وصف کے لائق نہیں ہیں تو معلوم ہوا کہ اس سے مراد حقیقی اہل سنت والجماعت کے لوگ (اہل حدیث)
ہیں اور وہ حقیقی علم شرعی کے حاملین ہیں۔

احادیث میں جماعت سے چمٹے رہنے کا حکم ہے۔
شارح صحیح بخاری ابن بطال نے کہا ہے کہ اس عنوان میں جماعت کو مضبوطی سے پکڑے رکھنے کی ترغیب ہے۔
واللہ أعلم۔
(فتح الباري: 387/13)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7349   

حدیث نمبر: 2961M
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، اخبرنا جعفر بن عون، اخبرنا الاعمش، عن ابي صالح، عن ابي سعيد، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يدعى نوح فيقال: هل بلغت؟ فيقول: نعم، فيدعى قومه، فيقال: هل بلغكم؟ فيقولون: ما اتانا من نذير، وما اتانا من احد، فيقال: من شهودك؟ فيقول: محمد وامته، قال: فيؤتى بكم تشهدون انه قد بلغ، فذلك قول الله تعالى: وكذلك جعلناكم امة وسطا لتكونوا شهداء على الناس ويكون الرسول عليكم شهيدا سورة البقرة آية 143 والوسط العدل "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يُدْعَى نُوحٌ فَيُقَالُ: هَلْ بَلَّغْتَ؟ فَيَقُولُ: نَعَمْ، فَيُدْعَى قَوْمُهُ، فَيُقَالُ: هَلْ بَلَّغَكُمْ؟ فَيَقُولُونَ: مَا أَتَانَا مِنْ نَذِيرٍ، وَمَا أَتَانَا مِنْ أَحَدٍ، فَيُقَالُ: مَنْ شُهُودُكَ؟ فَيَقُولُ: مُحَمَّدٌ وَأُمَّتُهُ، قَالَ: فَيُؤْتَى بِكُمْ تَشْهَدُونَ أَنَّهُ قَدْ بَلَّغَ، فَذَلِكَ قَوْلُ اللَّهِ تَعَالَى: وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا سورة البقرة آية 143 وَالْوَسَطُ الْعَدْلُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے اس سند سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (قیامت کے دن) نوح علیہ السلام طلب کئے جائیں گے، پھر ان سے پوچھا جائے گا: کیا تم نے (اپنی امت کو) پیغام پہنچا دیا تھا؟ وہ کہیں گے: جی ہاں، پھر ان کی قوم بلائی جائے گی، اور اس سے پوچھا جائے گا: کیا انہوں نے تم لوگوں تک (میرا پیغام) پہنچا دیا تھا؟ وہ کہیں گے: ہمارے پاس تو کوئی ڈرانے والا آیا ہی نہیں تھا، اور نہ ہی ہمارے پاس کوئی اور آیا، (نوح علیہ السلام سے) کہا جائے گا: تمہارے گواہ کون ہیں؟ وہ کہیں گے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی امت، آپ نے فرمایا: تو تم گواہی کے لیے پیش کئے جاؤ گے، تم گواہی دو گے کہ ہاں، انہوں نے پہنچایا ہے۔ یہی مفہوم ہے اللہ تبارک وتعالیٰ کے قول: «وكذلك جعلناكم أمة وسطا لتكونوا شهداء على الناس ويكون الرسول عليكم شهيدا» ہم نے اسی طرح تمہیں عادل امت بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو جاؤ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم پر گواہ ہو جائیں (البقرہ: ۱۴۳) کا، «وسط» کا معنی بیچ اور درمیانی ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 2961M
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا جعفر بن عون، عن الاعمش، نحوه.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، نَحْوَهُ.
اس سند سے بھی اسی طرح روایت کی۔

تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.