(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، وعبد بن حميد، المعنى واحد، قالا: حدثنا ابو احمد، حدثنا سفيان، عن الاعمش، عن يحيى، قال عبد هو ابن عباد عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، قال: مرض ابو طالب فجاءته قريش، وجاءه النبي صلى الله عليه وسلم، وعند ابي طالب مجلس رجل، فقام ابو جهل كي يمنعه وشكوه إلى ابي طالب، فقال: يا ابن اخي، ما تريد من قومك، قال: " إني اريد منهم كلمة واحدة تدين لهم بها العرب وتؤدي إليهم العجم الجزية "، قال: كلمة واحدة؟ قال: " كلمة واحدة؟ " قال: " يا عم، قولوا: لا إله إلا الله "، فقالوا: إلها واحدا: ما سمعنا بهذا في الملة الآخرة إن هذا إلا اختلاق سورة ص آية 7، قال: فنزل فيهم القرآن: ص والقرءان ذي الذكر {1} بل الذين كفروا في عزة وشقاق {2} إلى قوله ما سمعنا بهذا في الملة الآخرة إن هذا إلا اختلاق سورة ص آية 1 ـ 7. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وروى يحيى بن سعيد، عن سفيان، عن الاعمش نحو هذا الحديث، وقال يحيى بن عمارة.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، وَعَبْدُ بْنُ حميد، المعنى واحد، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ يَحْيَى، قَالَ عَبْدٌ هُوَ ابْنُ عَبَّادٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: مَرِضَ أَبُو طَالِبٍ فَجَاءَتْهُ قُرَيْشٌ، وَجَاءَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعِنْدَ أَبِي طَالِبٍ مَجْلِسُ رَجُلٍ، فَقَامَ أَبُو جَهْلٍ كَيْ يَمْنَعَهُ وَشَكَوْهُ إِلَى أَبِي طَالِبٍ، فَقَالَ: يَا ابْنَ أَخِي، مَا تُرِيدُ مِنْ قَوْمِكَ، قَالَ: " إِنِّي أُرِيدُ مِنْهُمْ كَلِمَةً وَاحِدَةً تَدِينُ لَهُمْ بِهَا الْعَرَبُ وَتُؤَدِّي إِلَيْهِمْ الْعَجَمُ الْجِزْيَةَ "، قَالَ: كَلِمَةً وَاحِدَةً؟ قَالَ: " كَلِمَةً وَاحِدَةً؟ " قَالَ: " يَا عَمِّ، قُولُوا: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ "، فَقَالُوا: إِلَهًا وَاحِدًا: مَا سَمِعْنَا بِهَذَا فِي الْمِلَّةِ الآخِرَةِ إِنْ هَذَا إِلا اخْتِلاقٌ سورة ص آية 7، قَالَ: فَنَزَلَ فِيهِمُ الْقُرْآنُ: ص وَالْقُرْءَانِ ذِي الذِّكْرِ {1} بَلِ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي عِزَّةٍ وَشِقَاقٍ {2} إِلَى قَوْلِهِ مَا سَمِعْنَا بِهَذَا فِي الْمِلَّةِ الآخِرَةِ إِنْ هَذَا إِلا اخْتِلاقٌ سورة ص آية 1 ـ 7. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَرَوَى يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنِ الْأَعْمَشِ نَحْوَ هَذَا الْحَدِيثِ، وَقَالَ يَحْيَى بْنُ عِمَارَةَ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ابوطالب بیمار پڑے، تو قریش ان کے پاس آئے، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی آئے، ابوطالب کے پاس صرف ایک آدمی کے بیٹھنے کی جگہ تھی، ابوجہل اٹھا کہ وہ آپ کو وہاں بیٹھنے سے روک دے، اور ان سب نے ابوطالب سے آپ کی شکایت کی، ابوطالب نے آپ سے کہا: بھتیجے! تم اپنی قوم سے کیا چاہتے ہو؟ آپ نے فرمایا: ”میں ان سے صرف ایک ایسا کلمہ تسلیم کرانا چاہتا ہوں جسے یہ قبول کر لیں تو اس کلمہ کے ذریعہ پورا عرب مطیع و فرماں بردار ہو جائے گا اور عجم کے لوگ انہیں جزیہ ادا کریں گے، انہوں نے کہا: ایک ہی کلمہ؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں، ایک ہی کلمہ“، آپ نے فرمایا: ”چچا جان! آپ لوگ «لا إلہ الا اللہ» کہہ دیجئیے، انہوں نے کہا: ایک معبود کو تسلیم کر لیں؟ یہ بات تو ہم نے اگلے لوگوں میں نہیں سنی ہے، یہ تو صرف بناوٹی اور (تمہاری) گھڑی ہوئی بات ہے، (ہم یہ بات تسلیم نہیں کر سکتے) ابن عباس کہتے ہیں: اسی پر ان ہی لوگوں سے متعلق سورۃ ”ص“ کی آیات «ص والقرآن ذي الذكر بل الذين كفروا في عزة وشقاق) إلى قوله (ما سمعنا بهذا في الملة الآخرة إن هذا إلا اختلاق»”صٓ، اس نصیحت والے قرآن کی قسم، بلکہ کفار غرور و مخالفت میں پڑے ہوئے ہیں، ہم نے ان سے پہلے بھی بہت سی امتوں کو تباہ کر ڈالا، انہوں نے ہر چند چیخ و پکار کی لیکن وہ چھٹکارے کا نہ تھا اور کافروں کو اس بات پر تعجب ہوا کہ انہیں میں سے ایک انہیں ڈرانے والا آ گیا اور کہنے لگے کہ یہ تو جادوگر اور جھوٹا ہے، کیا اس نے سارے معبودوں کا ایک ہی معبود کر دیا، واقعی یہ تو بہت ہی عجیب بات ہے، ان کے سردار یہ کہتے ہوئے چلے کہ چلو جی اور اپنے معبودوں پر جمے رہو یقیناً اس بات میں تو کوئی غرض ہے، ہم نے تو یہ بات پچھلے دین میں بھی نہیں سنی، کچھ نہیں یہ تو صرف گھڑنت ہے“(ص: ۱-۷)، تک نازل ہوئیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- یحییٰ بن سعید نے بھی سفیان سے، سفیان نے اعمش سے اسی حدیث کے مثل حدیث بیان کی، اور یحییٰ بن سعید نے یحییٰ بن عباد کے بجائے ”یحییٰ بن عمارہ“ کہا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفة الأشراف: 5645، و5647) (ضعیف الإسناد) (سند میں یحییٰ بن عباد یا یحیی بن عمارہ لین الحدیث راوی ہیں)»
(قدسي) حدثنا سلمة بن شبيب، وعبد بن حميد، قالا: حدثنا عبد الرزاق، عن معمر، عن ايوب، عن ابي قلابة، عن ابن عباس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اتاني الليلة ربي تبارك وتعالى في احسن صورة، قال: احسبه قال في المنام، فقال: يا محمد هل تدري فيم يختصم الملا الاعلى؟ قال: قلت: لا، قال: فوضع يده بين كتفي حتى وجدت بردها بين ثديي، او قال: في نحري، فعلمت ما في السماوات وما في الارض، قال: يا محمد هل تدري فيم يختصم الملا الاعلى؟ قلت: نعم، قال: في الكفارات، والكفارات: المكث في المساجد بعد الصلوات، والمشي على الاقدام إلى الجماعات، وإسباغ الوضوء في المكاره، ومن فعل ذلك عاش بخير ومات بخير، وكان من خطيئته كيوم ولدته امه، وقال: يا محمد إذا صليت فقل: اللهم إني اسالك فعل الخيرات، وترك المنكرات، وحب المساكين، وإذا اردت بعبادك فتنة فاقبضني إليك غير مفتون، قال: والدرجات إفشاء السلام، وإطعام الطعام، والصلاة بالليل والناس نيام ". قال ابو عيسى: وقد ذكروا بين ابي قلابة، وبين ابن عباس في هذا الحديث رجلا، وقد رواه قتادة، عن ابي قلابة، عن خالد بن اللجلاج، عن ابن عباس.(قدسي) حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ، وَعَبْدُ بْنُ حميد، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَتَانِي اللَّيْلَةَ رَبِّي تَبَارَكَ وَتَعَالَى فِي أَحْسَنِ صُورَةٍ، قَالَ: أَحْسَبُهُ قَالَ فِي الْمَنَامِ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ هَلْ تَدْرِي فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْأَعْلَى؟ قَالَ: قُلْتُ: لَا، قَالَ: فَوَضَعَ يَدَهُ بَيْنَ كَتِفَيَّ حَتَّى وَجَدْتُ بَرْدَهَا بَيْنَ ثَدْيَيَّ، أَوْ قَالَ: فِي نَحْرِي، فَعَلِمْتُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ، قَالَ: يَا مُحَمَّدُ هَلْ تَدْرِي فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْأَعْلَى؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فِي الْكَفَّارَاتِ، وَالْكَفَّارَاتُ: الْمُكْثُ فِي الْمَسَاجِدِ بَعْدَ الصَّلَوَاتِ، وَالْمَشْيُ عَلَى الْأَقْدَامِ إِلَى الْجَمَاعَاتِ، وَإِسْبَاغُ الْوُضُوءِ فِي الْمَكَارِهِ، وَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ عَاشَ بِخَيْرٍ وَمَاتَ بِخَيْرٍ، وَكَانَ مِنْ خَطِيئَتِهِ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ، وَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ إِذَا صَلَّيْتَ فَقُلْ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ فِعْلَ الْخَيْرَاتِ، وَتَرْكَ الْمُنْكَرَاتِ، وَحُبَّ الْمَسَاكِينِ، وَإِذَا أَرَدْتَ بِعِبَادِكَ فِتْنَةً فَاقْبِضْنِي إِلَيْكَ غَيْرَ مَفْتُونٍ، قَالَ: وَالدَّرَجَاتُ إِفْشَاءُ السَّلَامِ، وَإِطْعَامُ الطَّعَامِ، وَالصَّلَاةُ بِاللَّيْلِ وَالنَّاسُ نِيَامٌ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ ذَكَرُوا بَيْنَ أَبِي قِلَابَةَ، وَبَيْنَ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي هَذَا الْحَدِيثِ رَجُلًا، وَقَدْ رَوَاهُ قَتَادَةُ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ اللَّجْلَاجِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرا بزرگ و برتر رب بہترین صورت میں میرے پاس آیا“، مجھے خیال پڑتا ہے کہ آپ نے فرمایا: ”- خواب میں - رب کریم نے کہا: اے محمد! کیا تمہیں معلوم ہے کہ «ملا ٔ اعلی»(اونچے مرتبے والے فرشتے) کس بات پر آپس میں لڑ جھگڑ رہے ہیں“، آپ نے فرمایا: ”میں نے کہا کہ میں نہیں جانتا تو اللہ نے اپنا ہاتھ میرے دونوں کندھوں کے بیچ میں رکھ دیا جس کی ٹھنڈک میں نے اپنی چھاتیوں کے درمیان محسوس کی، یا اپنے سینے میں یا «نحری» کہا، (ہاتھ کندھے پر رکھنے کے بعد) آسمان اور زمین میں جو کچھ ہے، وہ میں جان گیا، رب کریم نے فرمایا: اے محمد! کیا تم جانتے ہو «ملا ٔ اعلی» میں کس بات پر جھگڑا ہو رہا ہے، (بحث و تکرار ہو رہی ہے)؟ میں نے کہا: ہاں، کفارات گناہوں کو مٹا دینے والی چیزوں کے بارے میں (کہ وہ کون کون سی چیزیں ہیں؟)(فرمایا)”کفارات یہ ہیں: (۱) نماز کے بعد مسجد میں بیٹھ کر دوسری نماز کا انتظار کرنا، (۲) پیروں سے چل کر نماز باجماعت کے لیے مسجد میں جانا، (۳) ناگواری کے باوجود باقاعدگی سے وضو کرنا، جو ایسا کرے گا بھلائی کی زندگی گزارے گا، اور بھلائی کے ساتھ مرے گا اور اپنے گناہوں سے اس طرح پاک و صاف ہو جائے گا جس طرح وہ اس دن پاک و صاف تھا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا، رب کریم کہے گا: اے محمد! جب تم نماز پڑھ چکو تو کہو: «اللهم إني أسألك فعل الخيرات وترك المنكرات وحب المساكين وإذا أردت بعبادك فتنة فاقبضني إليك غير مفتون»”اے اللہ میں تجھ سے بھلے کام کرنے کی توفیق طلب کرتا ہوں، اور ناپسندیدہ و منکر کاموں سے بچنا چاہتا ہوں اور مسکینوں سے محبت کرنا چاہتا ہوں، اور جب تو اپنے بندوں کو کسی آزمائش میں ڈالنا چاہیئے تو فتنے میں ڈالے جانے سے پہلے مجھے اپنے پاس بلا لے“، آپ نے فرمایا: ”درجات بلند کرنے والی چیزیں (۱) سلام کو پھیلانا عام کرنا ہے، (۲)(محتاج و مسکین) کو کھانا کھلانا ہے، (۳) رات کو تہجد پڑھنا ہے کہ جب لوگ سو رہے ہوں“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- کچھ محدثین نے ابوقلابہ اور ابن عباس رضی الله عنہما کے درمیان اس حدیث میں ایک شخص کا ذکر کیا ہے۔ (اور وہ خالد بن لجلاج ہیں ان روایت کے آگے آ رہی ہے) ۲- اس حدیث کو قتادہ نے ابوقلابہ سے روایت کی ہے اور ابوقلابہ نے خالد بن لجلاج سے، اور خالد بن لجلاج نے ابن عباس سے روایت کی ہے۔
(قدسي) حدثنا حدثنا محمد بن بشار، حدثنا معاذ بن هشام، حدثني ابي، عن قتادة، عن ابي قلابة، عن خالد بن اللجلاج، عن ابن عباس، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " اتاني ربي في احسن صورة، فقال: يا محمد، قلت: لبيك رب وسعديك، قال: فيم يختصم الملا الاعلى؟ قلت: رب لا ادري، فوضع يده بين كتفي فوجدت بردها بين ثديي فعلمت ما بين المشرق والمغرب، فقال: يا محمد، فقلت: لبيك رب وسعديك، قال: فيم يختصم الملا الاعلى؟ قلت: في الدرجات، والكفارات، وفي نقل الاقدام إلى الجماعات، وإسباغ الوضوء في المكروهات، وانتظار الصلاة بعد الصلاة، ومن يحافظ عليهن عاش بخير ومات بخير وكان من ذنوبه كيوم ولدته امه ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب من هذا الوجه، قال: وفي الباب، عن معاذ بن جبل، وعبد الرحمن بن عائش، عن النبي صلى الله عليه وسلم، وقد روي هذا الحديث عن معاذ بن جبل، عن النبي صلى الله عليه وسلم بطوله، وقال: " إني نعست فاستثقلت نوما فرايت ربي في احسن صورة، فقال: فيم يختصم الملا الاعلى ".(قدسي) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ اللَّجْلَاجِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " أَتَانِي رَبِّي فِي أَحْسَنِ صُورَةٍ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، قُلْتُ: لَبَّيْكَ رَبِّ وَسَعْدَيْكَ، قَالَ: فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْأَعْلَى؟ قُلْتُ: رَبِّ لَا أَدْرِي، فَوَضَعَ يَدَهُ بَيْنَ كَتِفَيَّ فَوَجَدْتُ بَرْدَهَا بَيْنَ ثَدْيَيَّ فَعَلِمْتُ مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، فَقُلْتُ: لَبَّيْكَ رَبِّ وَسَعْدَيْكَ، قَالَ: فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْأَعْلَى؟ قُلْتُ: فِي الدَّرَجَاتِ، وَالْكَفَّارَاتِ، وَفِي نَقْلِ الْأَقْدَامِ إِلَى الْجَمَاعَاتِ، وَإِسْبَاغِ الْوُضُوءِ فِي الْمَكْرُوهَاتِ، وَانْتِظَارِ الصَّلَاةِ بَعْدَ الصَّلَاةِ، وَمَنْ يُحَافِظْ عَلَيْهِنَّ عَاشَ بِخَيْرٍ وَمَاتَ بِخَيْرٍ وَكَانَ مِنْ ذُنُوبِهِ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، قَالَ: وَفِي الْبَابِ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَائِشٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِطُولِهِ، وَقَالَ: " إِنِّي نَعَسْتُ فَاسْتَثْقَلْتُ نَوْمًا فَرَأَيْتُ رَبِّي فِي أَحْسَنِ صُورَةٍ، فَقَالَ: فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْأَعْلَى ".
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے میرا رب (خواب میں) بہترین صورت میں نظر آیا، اور اس نے مجھ سے کہا: محمد! میں نے کہا: میرے رب! میں تیری خدمت میں حاضر و موجود ہوں، کہا: اونچے مرتبے والے فرشتوں کی جماعت کس بات پر جھگڑ رہی ہے؟ میں نے عرض کیا: (میرے) رب! میں نہیں جانتا، (اس پر) میرے رب نے اپنا دست شفقت و عزت میرے دونوں شانوں کے درمیان رکھا جس کی ٹھنڈک میں نے اپنی چھاتیوں کے درمیان (سینے میں) محسوس کی، اور مجھے مشرق و مغرب کے درمیان کی چیزوں کا علم حاصل ہو گیا، (پھر) کہا: محمد! میں نے عرض کیا: (میرے) رب! میں حاضر ہوں، اور تیرے حضور میری موجودگی میری خوش بختی ہے، فرمایا: فرشتوں کی اونچے مرتبے والی جماعت کس بات پر جھگڑ رہی ہے؟ میں نے کہا: انسان کا درجہ و مرتبہ بڑھانے والی اور گناہوں کو مٹانے والی چیزوں کے بارے میں (کہ وہ کیا کیا ہیں) تکرار کر رہے ہیں، جماعتوں کی طرف جانے کے لیے اٹھنے والے قدموں کے بارے میں اور طبیعت کے نہ چاہتے ہوئے بھی مکمل وضو کرنے کے بارے میں۔ اور ایک نماز پڑھ کر دوسری نماز کا انتظار کرنے کے بارے میں، جو شخص ان کی پابندی کرے گا وہ بھلائی کے ساتھ زندگی گزارے گا، اور خیر (بھلائی) ہی کے ساتھ مرے گا، اور اپنے گناہوں سے اس دن کی طرح پاک و صاف ہو جائے گا جس دن کہ ان کی ماں نے جنا تھا، اور وہ گناہوں سے پاک و صاف تھا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ۲- اس باب میں معاذ بن جبل اور عبدالرحمٰن بن عائش رضی الله عنہما ۱؎ کی بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے، اور اس پوری لمبی حدیث کو معاذ بن جبل نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، (اس میں ہے)”میں نے ذرا سی اونگھ لی، تو مجھے گہری نیند آ گئی، پھر میں نے اپنے رب کو بہترین صورت میں دیکھا، میرے رب نے کہا: «فيم يختصم الملأ الأعلى» فرشتوں کی (سب سے اونچے مرتبے کی جماعت) کس بات پر لڑ جھگڑ رہی ہے؟
وضاحت: ۱؎: معاذ بن جبل رضی الله عنہ کی حدیث تو خود مؤلف کے یہاں آ رہی ہے، اور عبدالرحمٰن بن عائش رضی الله عنہ کی حدیث بغوی کی شرح السنہ میں ہے، ان عبدالرحمٰن بن عائش کی صحابیت کے بارے میں اختلاف ہے، صحیح یہی معلوم ہوتا ہے کہ صحابی نہیں ہیں، معاذ کی اگلی حدیث بھی انہی کے واسطہ سے ہے اور ان کے اور معاذ کے درمیان بھی ایک راوی ہے۔
(قدسي) حدثنا حدثنا محمد بن بشار، حدثنا معاذ بن هانئ ابو هانئ اليشكري، حدثنا جهضم بن عبد الله، عن يحيى بن ابي كثير، عن زيد بن سلام، عن ابي سلام، عن عبد الرحمن بن عايش الحضرمي انه حدثه، عن مالك بن يخامر السكسكي، عن معاذ بن جبل رضي الله عنه، قال: احتبس عنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات غداة عن صلاة الصبح حتى كدنا نتراءى عين الشمس، فخرج سريعا فثوب بالصلاة فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وتجوز في صلاته، فلما سلم دعا بصوته، فقال لنا:" على مصافكم كما انتم"، ثم انفتل إلينا، ثم قال:" اما إني ساحدثكم ما حبسني عنكم الغداة اني قمت من الليل فتوضات وصليت ما قدر لي، فنعست في صلاتي حتى استثقلت فإذا انا بربي تبارك وتعالى في احسن صورة، فقال: يا محمد، قلت:" لبيك رب"، قال: فيم يختصم الملا الاعلى؟ قلت:" لا ادري"، قالها ثلاثا، قال:" فرايته وضع كفه بين كتفي حتى وجدت برد انامله بين ثديي، فتجلى لي كل شيء وعرفت"، فقال: يا محمد، قلت:" لبيك رب"، قال: فيم يختصم الملا الاعلى؟ قلت:" في الكفارات"، قال: ما هن؟ قلت:" مشي الاقدام إلى الجماعات، والجلوس في المساجد بعد الصلوات، وإسباغ الوضوء في المكروهات"، قال: فيم؟ قلت:" إطعام الطعام، ولين الكلام، والصلاة بالليل والناس نيام"، قال: سل، قلت:" اللهم إني اسالك فعل الخيرات، وترك المنكرات، وحب المساكين، وان تغفر لي وترحمني، وإذا اردت فتنة قوم فتوفني غير مفتون، اسالك حبك، وحب من يحبك، وحب عمل يقرب إلى حبك، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنها حق فادرسوها، ثم تعلموها". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، سالت محمد بن إسماعيل، عن هذا الحديث، فقال: هذا حديث حسن صحيح، وقال: هذا اصح من حديث الوليد بن مسلم، عن عبد الرحمن بن يزيد بن جابر، قال: حدثنا خالد بن اللجلاج، حدثني عبد الرحمن بن عائش الحضرمي، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فذكر الحديث، وهذا غير محفوظ، هكذا ذكر الوليد في حديثه، عن عبد الرحمن بن عايش، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، وروى بشر بن بكر، عن عبد الرحمن بن يزيد بن جابر هذا الحديث بهذا الإسناد، عن عبد الرحمن بن عائش، عن النبي صلى الله عليه وسلم وهذا اصح، وعبد الرحمن بن عائش لم يسمع من النبي صلى الله عليه وسلم.(قدسي) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هَانِئٍ أَبُو هَانِئٍ الْيَشْكُرِيُّ، حَدَّثَنَا جَهْضَمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ سَلَّامِ، عَنْ أَبِي سَلَّامٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَايِشٍ الْحَضْرَمِيِّ أَنَّهُ حَدَّثَهُ، عَنْ مَالِكِ بْنِ يَخَامِرَ السَّكْسَكِيِّ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: احْتُبِسَ عَنَّا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ غَدَاةٍ عَنْ صَلَاةِ الصُّبْحِ حَتَّى كِدْنَا نَتَرَاءَى عَيْنَ الشَّمْسِ، فَخَرَجَ سَرِيعًا فَثُوِّبَ بِالصَّلَاةِ فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَجَوَّزَ فِي صَلَاتِهِ، فَلَمَّا سَلَّمَ دَعَا بِصَوْتِهِ، فَقَالَ لَنَا:" عَلَى مَصَافِّكُمْ كَمَا أَنْتُمْ"، ثُمَّ انْفَتَلَ إِلَيْنَا، ثُمَّ قَالَ:" أَمَا إِنِّي سَأُحَدِّثُكُمْ مَا حَبَسَنِي عَنْكُمُ الْغَدَاةَ أَنِّي قُمْتُ مِنَ اللَّيْلِ فَتَوَضَّأْتُ وَصَلَّيْتُ مَا قُدِّرَ لِي، فَنَعَسْتُ فِي صَلَاتِي حَتّى اسْتَثْقَلْتُ فَإِذَا أَنَا بِرَبِّي تَبَارَكَ وَتَعَالَى فِي أَحْسَنِ صُورَةٍ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، قُلْتُ:" لَبَّيْكَ رَبِّ"، قَالَ: فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْأَعْلَى؟ قُلْتُ:" لَا أَدْرِي"، قَالَهَا ثَلَاثًا، قَالَ:" فَرَأَيْتُهُ وَضَعَ كَفَّهُ بَيْنَ كَتِفَيَّ حَتَّى وَجَدْتُ بَرْدَ أَنَامِلِهِ بَيْنَ ثَدْيَيَّ، فَتَجَلَّى لِي كُلُّ شَيْءٍ وَعَرَفْتُ"، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، قُلْتُ:" لَبَّيْكَ رَبِّ"، قَالَ: فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْأَعْلَى؟ قُلْتُ:" فِي الْكَفَّارَاتِ"، قَالَ: مَا هُنَّ؟ قُلْتُ:" مَشْيُ الْأَقْدَامِ إِلَى الْجَمَاعَاتِ، وَالْجُلُوسُ فِي الْمَسَاجِدِ بَعْدَ الصَّلَوَاتِ، وَإِسْبَاغُ الْوُضُوءِ فِي الْمَكْرُوهَاتِ"، قَالَ: فِيمَ؟ قُلْتُ:" إِطْعَامُ الطَّعَامِ، وَلِينُ الْكَلَامِ، وَالصَّلَاةُ بِاللَّيْلِ وَالنَّاسُ نِيَامٌ"، قَالَ: سَلْ، قُلْتُ:" اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ فِعْلَ الْخَيْرَاتِ، وَتَرْكَ الْمُنْكَرَاتِ، وَحُبَّ الْمَسَاكِينِ، وَأَنْ تَغْفِرَ لِي وَتَرْحَمَنِي، وَإِذَا أَرَدْتَ فِتْنَةَ قَوْمٍ فَتَوَفَّنِي غَيْرَ مَفْتُونٍ، أَسْأَلُكَ حُبَّكَ، وَحُبَّ مَنْ يُحِبُّكَ، وَحُبَّ عَمَلٍ يُقَرِّبُ إِلَى حُبِّكَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّهَا حَقٌّ فَادْرُسُوهَا، ثُمَّ تَعَلَّمُوهَا". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، سَأَلْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيل، عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، فَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَالَ: هَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ الْوَلِيدِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ اللَّجْلَاجِ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَائِشٍ الْحَضْرَمِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، وَهَذَا غَيْرُ مَحْفُوظٍ، هَكَذَا ذَكَرَ الْوَلِيدُ فِي حَدِيثِهِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَايِشٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَوَى بِشْرُ بْنُ بَكْرٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ هَذَا الْحَدِيثَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَائِشٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهَذَا أَصَحُّ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَائِشٍ لَمْ يَسْمَعْ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
معاذ بن جبل رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک صبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھانے سے روکے رکھا، یہاں تک کہ قریب تھا کہ ہم سورج کی ٹکیہ کو دیکھ لیں، پھر آپ تیزی سے (حجرہ سے) باہر تشریف لائے، لوگوں کو نماز کھڑی کرنے کے لیے بلایا، آپ نے نماز پڑھائی، اور نماز مختصر کی، پھر جب آپ نے سلام پھیرا تو آواز دے کر لوگوں کو (اپنے قریب) بلایا، فرمایا: اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ جاؤ، پھر آپ ہماری طرف متوجہ ہوئے، آپ نے فرمایا: ”میں آپ حضرات کو بتاؤں گا کہ فجر میں بروقت مجھے تم لوگوں کے پاس مسجد میں پہنچنے سے کس چیز نے روک لیا، میں رات میں اٹھا، وضو کیا، (تہجد کی) نماز پڑھی جتنی بھی میرے نام لکھی گئی تھی، پھر میں نماز میں اونگھنے لگا یہاں تک کہ مجھے گہری نیند آ گئی، اچانک کیا دیکھتا ہوں کہ میں اپنے بزرگ و برتر رب کے ساتھ ہوں وہ بہتر صورت و شکل میں ہے، اس نے کہا: اے محمد! میں نے کہا: میرے رب! میں حاضر ہوں، اس نے کہا: «ملا ٔ الأعلى»(فرشتوں کی اونچے مرتبے والی جماعت) کس بات پر جھگڑ رہی ہے؟ میں نے عرض کیا: رب کریم میں نہیں جانتا، اللہ تعالیٰ نے یہ بات تین بار پوچھی، آپ نے فرمایا: میں نے اللہ ذوالجلال کو دیکھا کہ اس نے اپنا ہاتھ میرے دونوں کندھوں کے درمیان رکھا یہاں تک کہ میں نے اس کی انگلیوں کی ٹھنڈک اپنے سینے کے اندر محسوس کی، ہر چیز میرے سامنے روشن ہو کر آ گئی، اور میں جان گیا (اور پہچان گیا) پھر اللہ عزوجل نے فرمایا: اے محمد! میں نے کہا: رب! میں حاضر ہوں، اس نے کہا: «ملا ٔ الأعلى» کے فرشتے کس بات پر جھگڑ رہے ہیں؟ میں نے کہا: «کفارات» کے بارے میں، اس نے پوچھا: وہ کیا ہیں؟ میں نے کہا: نماز باجماعت کے لیے پیروں سے چل کر جانا، نماز کے بعد مسجد میں بیٹھ کر (دوسری نماز کے انتظار میں) رہنا، ناگواری کے وقت بھی مکمل وضو کرنا، اس نے پوچھا: پھر کس چیز کے بارے میں (بحث کر رہے ہیں)؟ میں نے کہا: (محتاجوں اور ضرورت مندوں کو) کھانا کھلانے کے بارے میں، نرم بات چیت میں، جب لوگ سو رہے ہوں اس وقت اٹھ کر نماز پڑھنے کے بارے میں، رب کریم نے فرمایا: مانگو (اور مانگتے وقت کہو) کہو: «اللهم إني أسألك فعل الخيرات وترك المنكرات وحب المساكين وأن تغفر لي وترحمني وإذا أردت فتنة قوم فتوفني غير مفتون أسألك حبك وحب من يحبك وحب عمل يقرب إلى حبك»”اے اللہ! میں تجھ سے بھلے کاموں کے کرنے اور منکرات (ناپسندیدہ کاموں) سے بچنے کی توفیق طلب کرتا ہوں، اور مساکین سے محبت کرنا چاہتا ہوں، اور چاہتا ہوں کہ تو مجھے معاف کر دے اور مجھ پر رحم فرما، اور جب تو کسی قوم کو آزمائش میں ڈالنا چاہے، تو مجھے تو فتنہ میں ڈالنے سے پہلے موت دیدے، میں تجھ سے اور اس شخص سے جو تجھ سے محبت کرتا ہو، محبت کرنے کی توفیق طلب کرتا ہوں، اور تجھ سے ایسے کام کرنے کی توفیق چاہتا ہوں جو کام تیری محبت کے حصول کا سبب بنے“، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ حق ہے، اسے پڑھو یاد کرو اور دوسروں کو پڑھاؤ سکھاؤ۔“
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے، اور یہ بھی کہا کہ یہ حدیث ولید بن مسلم کی اس حدیث سے زیادہ صحیح ہے جسے وہ عبدالرحمٰن بن یزید بن جابر سے روایت کرتے ہیں، کہتے ہیں: ہم سے بیان کیا خالد بن لجلاج نے، وہ کہتے ہیں: مجھ سے بیان کیا عبدالرحمٰن بن عائش حضرمی نے، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آگے یہی حدیث بیان کی، اور یہ غیر محفوظ ہے، ولید نے اسی طرح اپنی حدیث میں جسے انہوں نے عبدالرحمٰن بن عائش سے روایت کیا ہے ذکر کیا ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، جبکہ بشر بن بکر نے، روایت کیا عبدالرحمٰن بن یزید بن جابر سے، یہ حدیث اسی سند کے ساتھ، انہوں نے روایت کیا، عبدالرحمٰن بن عائش سے اور عبدالرحمٰن نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے (بلفظ «عن» اور یہ زیادہ صحیح ہے، کیونکہ عبدالرحمٰن بن عائش نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنا ہے۔