كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم کتاب: تفسیر قرآن کریم 45. باب وَمِنْ سُورَةِ الدُّخَانِ باب: سورۃ الدخان سے بعض آیات کی تفسیر۔
مسروق کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کے پاس آ کر کہا: ایک قصہ گو (واعظ) قصہ بیان کرتے ہوئے کہہ رہا تھا (قیامت کے قریب) زمین سے دھواں نکلے گا، جس سے کافروں کے کان بند ہو جائیں گے، اور مسلمانوں کو زکام ہو جائے گا۔ مسروق کہتے ہیں: یہ سن کر عبداللہ غصہ ہو گئے (پہلے) ٹیک لگائے ہوئے تھے، (سنبھل کر) بیٹھ گئے۔ پھر کہا: تم میں سے جب کسی سے کوئی چیز پوچھی جائے اور وہ اس کے بارے میں جانتا ہو تو اسے بتانی چاہیئے اور جب کسی ایسی چیز کے بارے میں پوچھا جائے جسے وہ نہ جانتا ہو تو اسے «اللہ اعلم» ”اللہ بہتر جانتا ہے“ کہنا چاہیئے، کیونکہ یہ آدمی کے علم و جانکاری ہی کی بات ہے کہ جب اس سے کسی ایسی چیز کے بارے میں پوچھا جائے جسے وہ نہ جانتا ہو تو وہ کہہ دے «اللہ اعلم» ”اللہ بہتر جانتا ہے“، اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے فرمایا: «قل ما أسألكم عليه من أجر وما أنا من المتكلفين» ”کہہ دو میں تم سے اس کام پر کسی اجر کا طالب نہیں ہوں، اور میں خود سے باتیں بنانے والا بھی نہیں ہوں“ (ص: ۸۶)، (بات اس دخان کی یہ ہے کہ) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کو دیکھا کہ وہ نافرمانی ہی کیے جا رہے ہیں تو آپ نے فرمایا: ”اے اللہ! یوسف علیہ السلام کے سات سالہ قحط کی طرح ان پر سات سالہ قحط بھیج کر ہماری مدد کر“ (آپ کی دعا قبول ہو گئی)، ان پر قحط پڑ گیا، ہر چیز اس سے متاثر ہو گئی، لوگ چمڑے اور مردار کھانے لگے (اس حدیث کے دونوں راویوں اعمش و منصور میں سے ایک نے کہا ہڈیاں بھی کھانے لگے)، عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ نے کہا: دھواں جیسی چیز زمین سے نکلنے لگی، تو ابوسفیان نے آپ کے پاس آ کر کہا: آپ کی قوم ہلاک و برباد ہو گئی، آپ ان کی خاطر اللہ سے دعا فرما دیجئیے عبداللہ نے کہا: یہی مراد ہے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان «يوم تأتي السماء بدخان مبين يغشى الناس هذا عذاب أليم» ”جس دن آسمان کھلا ہوا دھواں لائے گا یہ (دھواں) لوگوں کو ڈھانپ لے گا، یہ بڑا تکلیف دہ عذاب ہے“ (الدخان: ۱۰)، کا، منصور کہتے ہیں: یہی مفہوم ہے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان «ربنا اكشف عنا العذاب إنا مؤمنون» ”اے ہمارے رب! ہم سے عذاب کو ٹال دے ہم ایمان لانے والے ہیں“ (الدخان: ۱۲)، کا، تو کیا آخرت کا عذاب ٹالا جا سکے گا؟۔ عبداللہ کہتے ہیں: «بطشہ»، «لزام» (بدر) اور دخان کا ذکرو زمانہ گزر گیا اعمش اور منصور دونوں راویوں میں سے، ایک نے کہا: «قمر» (چاند) کا شق ہونا گزر گیا، اور دوسرے نے کہا: روم کے مغلوب ہونے کا واقعہ بھی پیش آ چکا ہے۔
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- «لزام» سے مراد یوم بدر ہے۔ تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الاستسقاء 2 (1007)، و13 (1020)، تفسیر سورة یوسف 4 (4693)، وتفسیر سورة الفرقان 5 (4767)، وتفسیر الروم 1 (4774)، وتفسیر ص 3 (4809)، وتفسیر الدخان 1 (4820)، و2 (4821)، و3 (4822)، صحیح مسلم/المنافقین 7 (2798) (تحفة الأشراف: 9574) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر مومن کے لیے دو دروازے ہیں، ایک دروازہ وہ ہے جس سے اس کے نیک عمل چڑھتے ہیں اور ایک دروازہ وہ ہے جس سے اس کی روزی اترتی ہے، جب وہ مر جاتا ہے تو یہ دونوں اس پر روتے ہیں، یہی ہے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان: «فما بكت عليهم السماء والأرض وما كانوا منظرين» ”(کفار و مشرکین) پر زمین و آسمان کوئی بھی نہ رویا اور انہیں کسی بھی طرح کی مہلت نہ دی گئی“ (الدخان: ۲۹)، کا مطلب“۔
۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے مرفوع صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ۲- موسیٰ بن عبیدہ اور یزید بن ابان رقاشی حدیث بیان کرنے میں ضعیف ہیں۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 1675) (ضعیف) (سند میں یزید بن ابان رقاشی ضعیف راوی ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، الضعيفة (4491) // ضعيف الجامع الصغير (5214) //
|