(قدسي) حدثنا حدثنا ابو كريب، حدثنا عبدة بن سليمان، وعبد الرحيم بن سليمان، عن محمد بن عمرو، قال: حدثنا ابو سلمة، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يقول الله: اعددت لعبادي الصالحين ما لا عين رات ولا اذن سمعت ولا خطر على قلب بشر، واقرءوا إن شئتم: فلا تعلم نفس ما اخفي لهم من قرة اعين جزاء بما كانوا يعملون سورة السجدة آية 17، وفي الجنة شجرة يسير الراكب في ظلها مائة عام لا يقطعها، واقرءوا إن شئتم: وظل ممدود سورة الواقعة آية 30، وموضع سوط في الجنة خير من الدنيا وما فيها، واقرءوا إن شئتم: فمن زحزح عن النار وادخل الجنة فقد فاز وما الحياة الدنيا إلا متاع الغرور سورة آل عمران آية 185 ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(قدسي) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، وَعَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَقُولُ اللَّهُ: أَعْدَدْتُ لِعِبَادِيَ الصَّالِحِينَ مَا لَا عَيْنٌ رَأَتْ وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ، وَاقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ: فَلا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ سورة السجدة آية 17، وَفِي الْجَنَّةِ شَجَرَةٌ يَسِيرُ الرَّاكِبُ فِي ظِلِّهَا مِائَةَ عَامٍ لَا يَقْطَعُهَا، وَاقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ: وَظِلٍّ مَمْدُودٍ سورة الواقعة آية 30، وَمَوْضِعُ سَوْطٍ فِي الْجَنَّةِ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا، وَاقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ: فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلا مَتَاعُ الْغُرُورِ سورة آل عمران آية 185 ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ فرماتا ہے: میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے ایسی چیزیں تیار کی ہیں جسے نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ ہی کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی انسان کے دل میں اس کا خیال آیا ہے، تم چاہو تو اس آیت کو پڑھ لو «فلا تعلم نفس ما أخفي لهم من قرة أعين جزاء بما كانوا يعملون»”ان کے نیک اعمال کے بدلے میں ان کی آنکھ کی ٹھنڈک کے طور پر جو چیز تیار کی گئی ہے اسے کوئی بھی نہیں جانتا“(السجدۃ: ۱۷)، جنت میں ایک ایسا درخت ہے جس کی (گھنی) چھاؤں میں سوار سو برس تک بھی چلتا چلا جائے تو بھی اس کا سایہ ختم نہ ہو، تم چاہو تو آیت کا یہ ٹکڑا «وظل ممدود»”پھیلا ہوا لمبا لمبا سایہ“(الواقعہ: ۳۰)، پڑھ لو، جنت میں ایک کوڑا رکھنے کی جگہ برابر دنیا اور دنیا میں جو کچھ ہے اس سے بہتر ہے، چاہو تو دلیل کے طور پر یہ آیت پڑھ لو «فمن زحزح عن النار وأدخل الجنة فقد فاز وما الحياة الدنيا إلا متاع الغرور»”جو شخص جہنم سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کر دیا گیا تو وہ کامیاب ہو گیا اور دنیا کی زندگی تو دھوکے کا سامان ہے“(آل عمران: ۱۸۵)۔
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، حدثنا عبد الرزاق، عن معمر، عن قتادة، عن انس، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " إن في الجنة لشجرة يسير الراكب في ظلها مائة عام لا يقطعها، وإن شئتم فاقرءوا: وظل ممدود {30} وماء مسكوب {31} سورة الواقعة آية 30-31. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وفي الباب، عن ابي سعيد.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ فِي الْجَنَّةِ لَشَجَرَةً يَسِيرُ الرَّاكِبُ فِي ظِلِّهَا مِائَةَ عَامٍ لَا يَقْطَعُهَا، وَإِنْ شِئْتُمْ فَاقْرَءُوا: وَظِلٍّ مَمْدُودٍ {30} وَمَاءٍ مَسْكُوبٍ {31} سورة الواقعة آية 30-31. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَفِي الْبَابِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ.
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنت میں ایک درخت ہے، سوار اس کے سایہ میں سو سال تک چلے گا پھر بھی اس درخت کے سایہ کو عبور نہ کر سکے گا، اگر چاہو تو پڑھو «وظل ممدود وماء مسكوب»”ان کے لیے دراز سایہ ہے اور (فراواں) بہتا ہوا پانی“(الواقعہ: ۳۰)۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابو سعید خدری سے بھی روایت ہے۔
(مرفوع) حدثنا ابو كريب، حدثنا رشدين بن سعد، عن عمرو بن الحارث، عن دراج، عن ابي الهيثم، عن ابي سعيد الخدري رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم في قوله: " وفرش مرفوعة سورة الواقعة آية 34، قال: ارتفاعها كما بين السماء والارض، ومسيرة ما بينهما خمس مائة عام ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، لا نعرفه إلا من حديث رشدين، وقال بعض اهل العلم معنى هذا الحديث: وارتفاعها كما بين السماء والارض، قال: ارتفاع الفرش المرفوعة في الدرجات والدرجات ما بين كل درجتين كما بين السماء والارض.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا رِشْدِينُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ دَرَّاجٍ، عَنْ أَبِي الْهَيْثَمِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قَوْلِهِ: " وَفُرُشٍ مَرْفُوعَةٍ سورة الواقعة آية 34، قَالَ: ارْتِفَاعُهَا كَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، وَمَسِيرَةُ مَا بَيْنَهُمَا خَمْسُ مِائَةِ عَامٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ رِشْدِينَ، وَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ: وَارْتِفَاعُهَا كَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، قَالَ: ارْتِفَاعُ الْفُرُشِ الْمَرْفُوعَةِ فِي الدَّرَجَاتِ وَالدَّرَجَاتُ مَا بَيْنَ كُلِّ دَرَجَتَيْنِ كَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت کریمہ: «وفرش مرفوعة»”جنتیوں کے اونچے اونچے بچھونے ہوں گے“(الواقعہ: ۳۴)، کے سلسلے میں فرمایا: ”ان بچھونوں کی اونچائی اتنی ہے جنتا آسمان و زمین کے درمیان کا فاصلہ ہے اور ان کے درمیان چلنے کی مسافت پانچ سو سال کی ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف رشدین کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- بعض اہل علم کہتے ہیں: اس حدیث میں «ارتفاعها كما بين السماء والأرض» کا مفہوم یہ ہے کہ بچھونوں کی اونچائی درجات کی بلندی کے مطابق ہو گی اور ہر دو درجے کے درمیان کا فاصلہ اتنا ہو گا جتنا آسمان و زمین کے درمیان کا فاصلہ ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 2540 (ضعیف)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، التعليق الرغيب (4 / 262)
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت «وتجعلون رزقكم أنكم تكذبون»”اور تم اپنے رزق (کا شکریہ یہ ادا کرتے ہو کہ) تم (اللہ کی رزاقیت کی) تکذیب کرتے ہو“(الواقعہ: ۸۲)، کے متعلق فرمایا: ”تمہارا «شكر» یہ ہوتا ہے: تم کہتے ہو کہ یہ بارش فلاں فلاں نچھتر کے باعث اور فلاں فلاں ستاروں کی گردش کی بدولت ہوئی ہے۔ اس طرح تم جھوٹ بول کر حقیقت کو جھٹلاتے ہو“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے، ہم اسے اسرائیل کی روایت کے سوا اور کسی سند سے مرفوع نہیں جانتے، ۲- اس حدیث کو سفیان ثوری نے عبدالاعلی سے، عبدالاعلیٰ نے ابوعبدالرحمٰن سلمی سے، اور عبدالرحمٰن نے علی سے اسی طرح روایت کیا ہے، اور اسے مرفوعاً روایت نہیں کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10173) (ضعیف الإسناد) (سند میں ”عبد الاعلی بن عامر“ کو وہم ہو جایا کرتا تھا)»
(مرفوع) حدثنا ابو عمار الحسين بن حريث الخزاعي المروزي، حدثنا وكيع، عن موسى بن عبيدة، عن يزيد بن ابان، عن انس رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: في قوله: " إنا انشاناهن إنشاء سورة الواقعة آية 35، قال: إن من المنشآت اللائي كن في الدنيا عجائز عمشا رمصا ". قال ابو عيسى: هذا حديث غريب، لا نعرفه مرفوعا إلا من حديث موسى بن عبيدة، وموسى بن عبيدة، ويزيد بن ابان الرقاشي يضعفان في الحديث.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ الْخُزَاعِيُّ الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبَانَ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فِي قَوْلِهِ: " إِنَّا أَنْشَأْنَاهُنَّ إِنْشَاءً سورة الواقعة آية 35، قَالَ: إِنَّ مِنَ الْمُنْشَآتِ اللَّائِي كُنَّ فِي الدُّنْيَا عَجَائِزَ عُمْشًا رُمْصًا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ مَرْفُوعَا إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُوسَى بْنِ عُبَيْدَةَ، وَمُوسَى بْنُ عُبَيْدَةَ، وَيَزِيدُ بْنُ أَبَانَ الرَّقَاشِيُّ يُضَعَّفَانِ فِي الْحَدِيثِ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت: «إنا أنشأناهن إنشاء»”ہم انہیں نئی اٹھان اٹھائیں گے نئی اٹھان“(الواقعہ: ۸۲)، کے سلسلے میں فرمایا: ”ان نئی اٹھان والی عورتوں میں وہ عورتیں بھی ہیں جو دنیا میں بوڑھی تھیں، جن کی آنکھیں خراب ہو چکی ہوں اور ان سے پانی بہتا رہتا ہو“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے مرفوع صرف موسیٰ بن عبیدہ کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- اور موسیٰ بن عبیدہ اور یزید بن ابان رقاشی حدیث بیان کرنے میں ضعیف قرار دیئے گئے ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 1676) (ضعیف الإسناد) (سند میں ”موسی بن عبیدہ“ اور ”یزید بن ابان وقاشی“ دونوں ضعیف ہیں)»
(مرفوع) حدثنا ابو كريب، حدثنا معاوية بن هشام، عن شيبان، عن ابي إسحاق، عن عكرمة، عن ابن عباس، قال: قال ابو بكر رضي الله عنه: يا رسول الله، قد شبت، قال: " شيبتني هود، والواقعة، والمرسلات، وعم يتساءلون، وإذا الشمس كورت ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، لا نعرفه من حديث ابن عباس إلا من هذا الوجه، وروى علي بن صالح هذا الحديث، عن ابي إسحاق، عن ابي جحيفة نحو هذا، وروي عن ابي إسحاق، عن ابي ميسرة شيء من هذا مرسلا، وروى ابو بكر بن عياش، عن ابي إسحاق، عن عكرمة، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحو حديث شيبان، عن ابي إسحاق، ولم يذكر فيه عن ابن عباس، حدثنا بذلك هاشم بن الوليد الهروي، حدثنا ابو بكر بن عياش.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ هِشَامٍ، عَنْ شَيْبَانَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَدْ شِبْتَ، قَالَ: " شَيَّبَتْنِي هُودٌ، وَالْوَاقِعَةُ، وَالْمُرْسَلَاتُ، وَعَمَّ يَتَسَاءَلُونَ، وَإِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَرَوَى عَلِيُّ بْنُ صَالِحٍ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ نَحْوَ هَذَا، وَرُوِي عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي مَيْسَرَةَ شَيْءٌ مِنْ هَذَا مُرْسَلًا، وَرَوَى أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ حَدِيثِ شَيْبَانَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، حَدَّثَنَا بِذَلِكَ هَاشِمُ بْنُ الْوَلِيدِ الْهَرَوِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ابوبکر رضی الله عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: آپ تو بوڑھے ہو چلے؟ آپ نے فرمایا: ”مجھے «هود»، «الواقعة»، «المرسلات»، «عم يتساءلون» اور سورۃ «إذا الشمس کوّرت» نے بوڑھا کر دیا ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے ابن عباس رضی الله عنہما کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ۲- علی بن صالح نے یہ حدیث اسی طرح ابواسحاق سے، اور ابواسحاق نے ابوحجیفہ رضی الله عنہ سے روایت کی ہے، ۳- اس حدیث کی کچھ باتیں ابواسحاق ابومیسرہ سے مرسلاً روایت کی گئی ہیں۔ ابوبکر بن عیاش نے ابواسحاق کے واسطہ سے، ابواسحاق نے عکرمہ سے، اور عکرمہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے شیبان کی اس حدیث جیسی روایت کی ہے جسے انہوں نے ابواسحاق سے روایت کی ہے اور انہوں نے اس روایت میں ابن عباس رضی الله عنہما سے روایت کا ذکر نہیں کیا ہے۔