(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا ابو داود الطيالسي، حدثنا القاسم بن الفضل الحداني، عن يوسف بن سعد، قال: قام رجل إلى الحسن بن علي بعد ما بايع معاوية، فقال: سودت وجوه المؤمنين او يا مسود وجوه المؤمنين، فقال: لا تؤنبني رحمك الله، فإن النبي صلى الله عليه وسلم اري بني امية على منبره فساءه ذلك، فنزلت: إنا اعطيناك الكوثر، يا محمد يعني نهرا في الجنة، ونزلت هذه الآية: إنا انزلناه في ليلة القدر، وما ادراك ما ليلة القدر ليلة القدر خير من الف شهر يملكها بعدك بنو امية يا محمد، قال القاسم: فعددناها، فإذا هي الف شهر لا يزيد يوم ولا ينقص ". قال ابو عيسى: هذا حديث غريب، لا نعرفه إلا من هذا الوجه من حديث القاسم بن الفضل، وقد قيل: عن القاسم بن الفضل، عن يوسف بن مازن، والقاسم بن الفضل الحداني هو ثقة وثقه يحيى بن سعيد، وعبد الرحمن بن مهدي، ويوسف بن سعد رجل مجهول، ولا نعرف هذا الحديث على هذا اللفظ إلا من هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ الْفَضْلِ الْحُدَّانِيُّ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: قَامَ رَجُلٌ إِلَى الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ بَعْدَ مَا بَايَعَ مُعَاوِيَةَ، فَقَالَ: سَوَّدْتَ وُجُوهَ الْمُؤْمِنِينَ أَوْ يَا مُسَوِّدَ وُجُوهِ الْمُؤْمِنِينَ، فَقَالَ: لَا تُؤَنِّبْنِي رَحِمَكَ اللَّهُ، فَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُرِيَ بَنِي أُمَيَّةَ عَلَى مِنْبَرِهِ فَسَاءَهُ ذَلِكَ، فَنَزَلَتْ: إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ، يَا مُحَمَّدُ يَعْنِي نَهْرًا فِي الْجَنَّةِ، وَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةَ: إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ، وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ يَمْلِكُهَا بَعْدَكَ بَنُو أُمَيَّةَ يَا مُحَمَّدُ، قَالَ الْقَاسِمُ: فَعَدَدْنَاهَا، فَإِذَا هِيَ أَلْفُ شَهْرٍ لَا يَزِيدُ يَوْمٌ وَلَا يَنْقُصُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ الْقَاسِمِ بْنِ الْفَضْلِ، وَقَدْ قِيلَ: عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ الْفَضْلِ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَازِنٍ، وَالْقَاسِمُ بْنُ الْفَضْلِ الْحُدَّانِيُّ هُوَ ثِقَةٌ وَثَّقَهُ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، وَيُوسُفُ بْنُ سَعْدٍ رَجُلٌ مَجْهُولٌ، وَلَا نَعْرِفُ هَذَا الْحَدِيثَ عَلَى هَذَا اللَّفْظِ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
یوسف بن سعد کہتے ہیں کہ ایک شخص حسن بن علی رضی الله عنہما کے پاس ان کے معاویہ رضی الله عنہ کے ہاتھ پر بیعت کر لینے کے بعد گیا اور کہا: آپ نے تو مسلمانوں کے چہروں پر کالک مل دی، (راوی کو شک ہے «سودت» کہا یا «يا مسود وجوه المؤمنين»(مسلمانوں کے چہروں پر کالک مل دینے والا) کہا، انہوں نے کہا تو مجھ پر الزام نہ رکھ، اللہ تم پر رحم فرمائے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بنی امیہ اپنے منبر پر دکھائے گئے تو آپ کو یہ چیز بری لگی، اس پر آیت «إنا أعطيناك الكوثر»”اے محمد! ہم نے آپ کو کوثر دی“، نازل ہوئی۔ کوثر جنت کی ایک نہر ہے اور سورۃ القدر کی آیات «إنا أنزلناه في ليلة القدر وما أدراك ما ليلة القدر ليلة القدر خير من ألف شهر»”ہم نے قرآن کو شب قدر میں اتارا، اور تمہیں کیا معلوم کہ شب قدر کیا ہے؟ شب قدر ہزار مہینے سے بہتر ہے“، نازل ہوئیں، اے محمد تیرے بعد بنو امیہ ان مہینوں کے مالک ہوں گے ۳؎ قاسم بن فضل حدانی کہتے ہیں: ہم نے بنی امیہ کے ایام حکومت کو گنا تو وہ ہزار مہینے ہی نکلے نہ ایک دن زیادہ نہ ایک دن کم ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اس سند سے صرف قاسم بن فضل کی روایت سے جانتے ہیں۔ ۲- یہ بھی کہا گیا ہے کہ قاسم بن فضل سے روایت کی گئی ہے اور انہوں نے یوسف بن مازن سے روایت کی ہے، قاسم بن فضل حدانی ثقہ ہیں، انہیں یحییٰ بن سعید اور عبدالرحمٰن بن مہدی نے ثقہ کہا ہے، اور یوسف بن سعد ایک مجہول شخص ہیں اور ہم اس حدیث کو ان الفاظ کے ساتھ صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 3407) (ضعیف) (سند میں اضطراب ہے، اور متن منکر ہے، جیسا کہ مؤلف نے بیان کر دیا ہے)»
وضاحت: ۱؎: سند میں اضطراب اور مجہول راوی ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے متن میں سخت نکارت ہے، کہاں آیت کا نزول شب قدر کی فضیلت کے بیان کے لیے ہونا، اور کہاں بنو امیہ کی حدث خلافت؟ یہ سب بےتکی باتیں ہیں، نیز کہاں «إنا أعطيناك الكوثر» کی شان نزول، اور کہاں بنو امیہ کی چھوٹی خلافت۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد مضطرب، ومتنه منكر
(موقوف) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن عبدة بن ابي لبابة، وعاصم هو ابن بهدلة، سمعا زر بن حبيش وزر بن حبيش يكنى ابا مريم، يقول: قلت لابي بن كعب: إن اخاك عبد الله بن مسعود يقول: " من يقم الحول يصب ليلة القدر، فقال: يغفر الله لابي عبد الرحمن لقد علم انها في العشرة الاواخر من رمضان، وانها ليلة سبع وعشرين، ولكنه اراد ان لا يتكل الناس ثم حلف لا يستثني انها ليلة سبع وعشرين، قال: قلت له: باي شيء تقول ذلك يا ابا المنذر، قال: بالآية التي اخبرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم، او بالعلامة ان الشمس تطلع يومئذ لا شعاع لها ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح. حدثنا محمد بن العلاء، حدثنا ابو بكر بن عياش، عن عاصم بن بهدلة، قال: كان ابو وائل شقيق بن سلمة لا يتكلم ما دام زر بن حبيش جالسا، قال عاصم بن بهدلة: وكان زر بن حبيش رجلا فصيحا، وكان عبد الله بن مسعود يساله عن العربية. حدثنا احمد بن إبراهيم الدورقي حدثنا يزيد بن مهران الكوفي، حدثنا ابو بكر بن عياش، عن عاصم بن بهدلة، قال: مر رجل على زر بن حبيش وهو يؤذن، فقال: يا ابا مريم اتؤذن؟ إني لارغب بك عن الاذان، فقال زر: اترغب عن الاذان، والله لا اكلمك ابدا.(موقوف) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدَةَ بْنِ أَبِي لُبَابَةَ، وَعَاصِمٍ هُوَ ابْنُ بَهْدَلَةَ، سَمِعَا زِرَّ بْنَ حُبَيْشٍ وَزِرُّ بْنُ حُبَيْشٍ يُكْنَى أَبَا مَرْيَمَ، يَقُولُ: قُلْتُ لِأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ: إِنَّ أَخَاكَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ يَقُولُ: " مَنْ يَقُمِ الْحَوْلَ يُصِبْ لَيْلَةَ الْقَدْرِ، فَقَالَ: يَغْفِرُ اللَّهُ لِأَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ لَقَدْ عَلِمَ أَنَّهَا فِي الْعَشَرَةَ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ، وَأَنَّهَا لَيْلَةُ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ، وَلَكِنَّهُ أَرَادَ أَنْ لَا يَتَّكِلَ النَّاسُ ثُمَّ حَلَفَ لَا يَسْتَثْنِي أَنَّهَا لَيْلَةُ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ، قَالَ: قُلْتُ لَهُ: بِأَيِّ شَيْءٍ تَقُولُ ذَلِكَ يَا أَبَا الْمُنْذِرِ، قَالَ: بِالْآيَةِ الَّتِي أَخْبَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَوْ بِالْعَلَامَةِ أَنَّ الشَّمْسَ تَطْلُعُ يَوْمَئِذٍ لَا شُعَاعَ لَهَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاءِ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ بَهْدَلَةَ، قَالَ: كَانَ أَبُو وَائِلٍ شَقِيقُ بْنُ سَلَمَةَ لا يَتَكَلَّمُ مَا دَامَ زِرُّ بْنُ حُبَيْشٍ جَالِسًا، قَالَ عَاصِمُ بْنُ بَهْدَلَةَ: وَكَانَ زِرُّ بْنُ حُبَيْشٍ رَجُلا فَصِيحًا، وَكَانَ عَبْدُ اللهِ بْنُ مَسْعُودٍ يَسْأَلُهُ عَنِ الْعَرِبِيَّةِ. حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ مهْرَانَ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ بهدلة، قَالَ: مَرَّ رَجُلٌ عَلَى زِرِّ بْنُ حُبَيْشٍ وَهُوَ يُؤَذِّنُ، فَقَالَ: يَا أَبَا مَرْيَمَ أَتُؤَذِّنُ؟ إِنِّي لأَرْغَبُ بِكً عَنِ الأَذَانِ، فَقَالَ زِرُّ: أَتَرْغَبُ عَنِ الأَذَانِ، وَاللهِ لا أُكَلِّمُكَ أَبَدًا.
زر بن حبیش (جن کی کنیت ابومریم ہے) کہتے ہیں کہ میں نے ابی بن کعب رضی الله عنہ سے کہا آپ کے بھائی عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں: جو سال بھر (رات کو) کھڑے ہو کر نمازیں پڑھتا رہے وہ لیلۃ القدر پا لے گا، ابی بن کعب رضی الله عنہ نے کہا: اللہ ابوعبدالرحمٰن کی مغفرت فرمائے (ابوعبدالرحمٰن، عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کی کنیت ہے) انہیں معلوم ہے کہ شب قدر رمضان کی آخری دس راتوں میں ہے اور انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ وہ رمضان کی ستائیسویں (۲۷) رات ہے، لیکن وہ چاہتے تھے کی لوگ اسی ایک ستائیسویں (۲۷) رات پر بھروسہ کر کے نہ بیٹھ رہیں کہ دوسری راتوں میں عبادت کرنے اور جاگنے سے باز آ جائیں، بغیر کسی استثناء کے ابی بن کعب رضی الله عنہ نے قسم کھا کر کہا: (شب قدر) یہ (۲۷) رات ہی ہے، زر بن حبیش کہتے ہیں: میں نے ان سے کہا: ابوالمنذر! آپ ایسا کس بنیاد پر کہہ رہے ہیں؟ انہوں نے کہا: اس آیت اور نشانی کی بنا پر جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتائی ہے (یہاں راوی کو شک ہو گیا ہے کہ انہوں نے «بالآية» کا لفظ استعمال کیا یا «بالعلامة» کا آپ نے علامت یہ بتائی (کہ ستائیسویں شب کی صبح) سورج طلوع تو ہو گا لیکن اس میں شعاع نہ ہو گی ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 793 (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: کئی برسوں کے تجربہ کی بنیاد پر مذکورہ علامتوں کو ۲۷ کی شب منطبق پانے بعد ہی ابی بن کعب رضی الله عنہ یہ دعویٰ کیا تھا اور اس کی سند بھی صحیح ہے، اس لیے آپ کا دعویٰ مبنی برحق ہے، لیکن سنت کے مطابق دس دن اعتکاف کرنا یہ الگ سنت ہے، اور الگ اجر و ثواب کا ذریعہ ہے، نیز صرف طاق راتوں میں شب بیداری کرنے والوں کی شب قدر تو ملے گی ہے، مزید اجر و ثواب الگ ہو گا، ہاں! پورے سال میں شب قدر کی تلاش کی بات: یہ ابن مسعود رضی الله عنہ کا اپنا اجتہاد ہو سکتا ہے، ویسے بھی شب قدر کا حصول اور اجر و ثواب تو متعین ہی ہے۔