سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: تفسیر قرآن کریم
Chapters on Tafsir
2. باب وَمِنْ سُورَةِ فَاتِحَةِ الْكِتَابِ
باب: سورۃ فاتحہ سے بعض آیات کی تفسیر۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2953
Save to word اعراب
(قدسي) حدثنا حدثنا قتيبة، حدثنا عبد العزيز بن محمد، عن العلاء بن عبد الرحمن، عن ابيه، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: من صلى صلاة لم يقرا فيها بام القرآن فهي خداج هي خداج غير تمام، قال: قلت: يا ابا هريرة، إني احيانا اكون وراء الإمام، قال: يا ابن الفارسي فاقراها في نفسك، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: قال الله تعالى: " قسمت الصلاة بيني وبين عبدي نصفين فنصفها لي ونصفها لعبدي ولعبدي ما سال، يقرا العبد فيقول: الحمد لله رب العالمين سورة الفاتحة آية 2، فيقول الله تبارك وتعالى: حمدني عبدي، فيقول: الرحمن الرحيم سورة الفاتحة آية 3 فيقول الله: اثنى علي عبدي، فيقول: مالك يوم الدين سورة الفاتحة آية 4، فيقول: مجدني عبدي وهذا لي وبيني وبين عبدي إياك نعبد وإياك نستعين سورة الفاتحة آية 5 وآخر السورة لعبدي ولعبدي ما سال، يقول: اهدنا الصراط المستقيم {6} صراط الذين انعمت عليهم غير المغضوب عليهم ولا الضالين {7} سورة الفاتحة آية 6-7 "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن، وقد روى شعبة، وإسماعيل بن جعفر، وغير واحد عن العلاء بن عبد الرحمن، عن ابيه، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحو هذا الحديث.(قدسي) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَنْ صَلَّى صَلَاةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَهِيَ خِدَاجٌ هِيَ خِدَاجٌ غَيْرُ تَمَامٍ، قَالَ: قُلْتُ: يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، إِنِّي أَحْيَانًا أَكُونُ وَرَاءَ الْإِمَامِ، قَالَ: يَا ابْنَ الْفَارِسِيِّ فَاقْرَأْهَا فِي نَفْسِكَ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: " قَسَمْتُ الصَّلَاةَ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي نِصْفَيْنِ فَنِصْفُهَا لِي وَنِصْفُهَا لِعَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ، يَقْرَأُ الْعَبْدُ فَيَقُولُ: الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ سورة الفاتحة آية 2، فَيَقُولُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: حَمِدَنِي عَبْدِي، فَيَقُولُ: الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ سورة الفاتحة آية 3 فَيَقُولُ اللَّهُ: أَثْنَى عَلَيَّ عَبْدِي، فَيَقُولُ: مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ سورة الفاتحة آية 4، فَيَقُولُ: مَجَّدَنِي عَبْدِي وَهَذَا لِي وَبَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ سورة الفاتحة آية 5 وَآخِرُ السُّورَةِ لِعَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ، يَقُولُ: اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ {6} صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ {7} سورة الفاتحة آية 6-7 "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ رَوَى شُعْبَةُ، وَإِسْمَاعِيل بْنُ جَعْفَرٍ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنِ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ هَذَا الْحَدِيثِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے کوئی نماز پڑھی اور اس میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی تو وہ نماز ناقص ہے، وہ نماز ناقص ہے، نامکمل ہے ۱؎ عبدالرحمٰن کہتے ہیں: میں نے کہا: ابوہریرہ! میں کبھی امام کے پیچھے ہوتا ہوں؟ انہوں نے کہا: فارسی لڑکے! اسے اپنے جی میں (دل ہی دل میں) پڑھ لیا کرو ۲؎ کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں نے نماز ۳؎ اپنے اور بندے کے درمیان دو حصوں میں بانٹ دی ہے۔ آدھی نماز میرے لیے ہے اور آدھی میرے بندے کے لیے، اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جو مانگے۔ میرا بندہ پڑھتا ہے: «الحمد لله رب العالمين» تو اللہ کہتا ہے: میرے بندے نے میری حمد یعنی تعریف کی۔ بندہ کہتا ہے: «الرحمن الرحيم» تو اللہ کہتا ہے: میرے بندے نے میری ثنا کی، بندہ «مالك يوم الدين» کہتا ہے تو اللہ کہتا ہے: میرے بندے نے میری عظمت اور بزرگی بیان کی اور عظمت اور بزرگی صرف میرے لیے ہے، اور میرے اور میرے بندے کے درمیان «إياك نعبد وإياك نستعين» سے لے کر سورۃ کی آخری آیات تک ہیں، اور بندے کے لیے وہ سب کچھ ہے جو وہ مانگے۔ بندہ کہتا ہے «اهدنا الصراط المستقيم صراط الذين أنعمت عليهم غير المغضوب عليهم ولا الضالين» ہمیں سیدھی اور سچی راہ دکھا، ان لوگوں کی راہ جن پر تو نے انعام کیا ان کی نہیں جن پر غضب کیا گیا اور نہ گمراہوں کی
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- شعبہ، اسماعیل بن جعفر اور کئی دوسرے رواۃ نے ایسی ہی حدیث علاء بن عبدالرحمٰن سے، علاء نے اپنے باپ سے اور ان کے باپ نے ابوہریرہ رضی الله عنہ کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصلاة 1 (395)، سنن ابی داود/ الصلاة 136 (821)، سنن النسائی/الإفتتاح 23 (910)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 11 (838) (تحفة الأشراف: 14080)، وط/الصلاة 9 (39)، و مسند احمد (2/241، 250، 285، 457) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: معلوم ہوا کہ سورۃ فاتحہ ہر نماز اور نماز کی ہر رکعت میں پڑھی جائے گی، کیونکہ اس کے بغیر کوئی نماز نہیں ہوتی۔
۲؎: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حدیث کے سب سے بڑے راوی اور جانکار صحابی ابوہریرہ رضی الله عنہ کا یہ قول اس بات پر دلالت کر رہا ہے کہ ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ خواہ امام کے پیچھے ہی کیوں نہ ہو پڑھنی فرض ہے اور یہ کہ یہ مسئلہ منسوخ نہیں ہوا ہے۔
۳؎: فرمایا تو تھا میں نے نماز کو اپنے اور بندے کے درمیان آدھا آدھا بانٹ دیا ہے، اور جب اس تقسیم کی تفصیل بیان کی تو سورۃ فاتحہ کا نام لیا اور اس کی تقسیم بتائی، پتا چلا کہ صلاۃ فاتحہ ہے، اور فاتحہ صلاۃ ہے، یعنی فاتحہ نماز کا ایسا رنگ ہے جو نماز کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، اس کا آدھا حصہ اللہ کی حمد و ثنا اور اس کی رحمت و ربوبیت اور عدل و بادشاہت کے بیان میں ہے اور آدھا حصہ دعا و مناجات پر مشتمل ہے جسے بندہ اللہ کی بارگاہ میں کرتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (838)
حدیث نمبر: 2953M
Save to word اعراب
(قدسي) وروى ابن جريج، ومالك بن انس، عن العلاء بن عبد الرحمن، عن ابي السائب، مولى هشام بن زهرة، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحو هذا.(قدسي) وَرَوَى ابْنُ جُرَيْجٍ، وَمَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنِ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي السَّائِبِ، مَوْلَى هِشَامِ بْنِ زُهْرَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ هَذَا.
ابن جریج اور مالک بن انس علاء بن عبدالرحمٰن سے علاء نے ہشام بن زہر کے آزاد کردہ غلام ابوسائب سے اور ابوسائب نے ابوہریرہ رضی الله عنہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے -

تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (838)
حدیث نمبر: 2953M
Save to word اعراب
(قدسي) وروى ابن ابي اويس، عن ابيه، عن العلاء بن عبد الرحمن، قال: حدثني ابي، وابو السائب، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحو هذا، اخبرنا بذلك محمد بن يحيى النيسابوري، ويعقوب بن سفيان الفارسي، قالا: حدثنا إسماعيل بن ابي اويس، عن ابيه، عن العلاء بن عبد الرحمن، حدثني ابي، وابو السائب مولى هشام بن زهرة وكانا جليسين لابي هريرة، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " من صلى صلاة لم يقرا فيها بام القرآن فهي خداج فهي خداج غير تمام "، وليس في حديث إسماعيل بن ابي اويس اكثر من هذا، وسالت ابا زرعة عن هذا الحديث، فقال: كلا الحديثين صحيح، واحتج بحديث ابن ابي اويس، عن ابيه، عن العلاء.(قدسي) وَرَوَى ابْنُ أَبِي أُوَيْسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، وَأَبُو السَّائِبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ هَذَا، أَخْبَرَنَا بِذَلِكَ مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى النَّيْسَابُورِيُّ، وَيَعْقُوبُ بْنُ سُفْيَانَ الْفَارِسِيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنِي أَبِي، وَأَبُو السَّائِبِ مَوْلَى هِشَامِ بْنِ زُهْرَةَ وَكَانَا جَلِيسَيْنِ لِأَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ صَلَّى صَلَاةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَهِيَ خِدَاجٌ فَهِيَ خِدَاجٌ غَيْرُ تَمَامٍ "، وَلَيْسَ فِي حَدِيثِ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي أُوَيْسٍ أَكْثَرُ مِنْ هَذَا، وَسَأَلْتُ أَبَا زُرْعَةَ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، فَقَالَ: كِلَا الْحَدِيثَيْنِ صَحِيحٌ، وَاحْتَجَّ بِحَدِيثِ ابْنِ أَبِي أُوَيْسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ الْعَلَاءِ.
‏‏‏‏ ابن ابی اویس نے اپنے باپ ابواویس سے اور ابواویس نے علاء بن عبدالرحمٰن سے روایت کی ہے، انہوں نے ابوہریرہ کے واسطہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح کی حدیث روایت کی کہ آپ نے فرمایا: جس نے کوئی نماز پڑھی اور اس میں اس نے ام القرآن (سورۃ فاتحہ) نہ پڑھی تو یہ نماز ناقص ہے ناتمام (و نامکمل) ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
اسماعیل بن ابی اویس کی حدیث میں اس سے زیادہ کچھ ذکر نہیں ہے، میں نے ابوزرعہ سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا: انہوں نے کہا: دونوں حدیثیں صحیح ہیں، اور انہوں نے دلیل دی ابن ابی اویس کی حدیث سے جسے وہ اپنے باپ سے اور ان کے باپ علاء سے روایت کرتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 9870) (حسن)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (838)
حدیث نمبر: 2954
Save to word اعراب
(مرفوع) اخبرنا عبد بن حميد، اخبرنا عبد الرحمن بن سعد، انبانا عمرو بن ابي قيس، عن سماك بن حرب، عن عباد بن حبيش، عن عدي بن حاتم، قال: " اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو جالس في المسجد، فقال القوم: هذا عدي بن حاتم، وجئت بغير امان ولا كتاب، فلما دفعت إليه اخذ بيدي وقد كان قال قبل ذلك: إني لارجو ان يجعل الله يده في يدي، قال: فقام بي فلقيته امراة وصبي معها، فقالا: إن لنا إليك حاجة، فقام معهما حتى قضى حاجتهما، ثم اخذ بيدي حتى اتى بي داره، فالقت له الوليدة وسادة فجلس عليها وجلست بين يديه، فحمد الله واثنى عليه، ثم قال: " ما يفرك ان تقول: لا إله إلا الله، فهل تعلم من إله سوى الله؟ قال: قلت: لا، قال: ثم تكلم ساعة، ثم قال: إنما تفر ان تقول: الله اكبر وتعلم ان شيئا اكبر من الله؟ قال: قلت: لا، قال: فإن اليهود مغضوب عليهم وإن النصارى ضلال، قال: قلت: فإني جئت مسلما، قال: فرايت وجهه تبسط فرحا، قال: ثم امر بي فانزلت عند رجل من الانصار جعلت اغشاه آتيه طرفي النهار، قال: فبينما انا عنده عشية إذ جاءه قوم في ثياب من الصوف من هذه النمار، قال: فصلى، وقام فحث عليهم، ثم قال: ولو صاع، ولو بنصف صاع، ولو بقبضة، ولو ببعض قبضة يقي احدكم وجهه حر جهنم او النار، ولو بتمرة ولو بشق تمرة، فإن احدكم لاقي الله، وقائل له ما اقول لكم: الم اجعل لك سمعا وبصرا؟ فيقول: بلى، فيقول: الم اجعل لك مالا وولدا؟ فيقول: بلى، فيقول: اين ما قدمت لنفسك؟ فينظر قدامه وبعده وعن يمينه وعن شماله ثم لا يجد شيئا يقي به وجهه حر جهنم، ليق احدكم وجهه النار ولو بشق تمرة، فإن لم يجد فبكلمة طيبة، فإني لا اخاف عليكم الفاقة، فإن الله ناصركم ومعطيكم حتى تسير الظعينة فيما بين يثرب والحيرة او اكثر ما تخاف على مطيتها السرق، قال: فجعلت اقول في نفسي فاين لصوص طيئ "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، لا نعرفه إلا من حديث سماك بن حرب، وروى شعبة، عن سماك بن حرب، عن عباد بن حبيش، عن عدي بن حاتم، عن النبي صلى الله عليه وسلم الحديث بطوله.(مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَعْدٍ، أَنْبَأَنَا عَمْرُو بْنُ أَبِي قَيْسٍ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ حُبَيْشٍ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ: " أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ جَالِسٌ فِي الْمَسْجِدِ، فَقَالَ الْقَوْمُ: هَذَا عَدِيُّ بْنُ حَاتِمٍ، وَجِئْتُ بِغَيْرِ أَمَانٍ وَلَا كِتَابٍ، فَلَمَّا دُفِعْتُ إِلَيْهِ أَخَذَ بِيَدِي وَقَدْ كَانَ قَالَ قَبْلَ ذَلِكَ: إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ يَجْعَلَ اللَّهُ يَدَهُ فِي يَدِي، قَالَ: فَقَامَ بِي فَلَقِيَتْهُ امْرَأَةٌ وَصَبِيٌّ مَعَهَا، فَقَالَا: إِنَّ لَنَا إِلَيْكَ حَاجَةً، فَقَامَ مَعَهُمَا حَتَّى قَضَى حَاجَتَهُمَا، ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِي حَتَّى أَتَى بِي دَارَهُ، فَأَلْقَتْ لَهُ الْوَلِيدَةُ وِسَادَةً فَجَلَسَ عَلَيْهَا وَجَلَسْتُ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: " مَا يُفِرُّكَ أَنْ تَقُولَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَهَلْ تَعْلَمُ مِنْ إِلَهٍ سِوَى اللَّهِ؟ قَالَ: قُلْتُ: لَا، قَالَ: ثُمَّ تَكَلَّمَ سَاعَةً، ثُمَّ قَالَ: إِنَّمَا تَفِرُّ أَنْ تَقُولَ: اللَّهُ أَكْبَرُ وَتَعْلَمُ أَنَّ شَيْئًا أَكْبَرُ مِنَ اللَّهِ؟ قَالَ: قُلْتُ: لَا، قَالَ: فَإِنَّ الْيَهُودَ مَغْضُوبٌ عَلَيْهِمْ وَإِنَّ النَّصَارَى ضُلَّالٌ، قَالَ: قُلْتُ: فَإِنِّي جِئْتُ مُسْلِمًا، قَالَ: فَرَأَيْتُ وَجْهَهُ تَبَسَّطَ فَرَحًا، قَالَ: ثُمَّ أَمَرَ بِي فَأُنْزِلْتُ عِنْدَ رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ جَعَلْتُ أَغْشَاهُ آتِيهِ طَرَفَيِ النَّهَارِ، قَالَ: فَبَيْنَمَا أَنَا عِنْدَهُ عَشِيَّةً إِذْ جَاءَهُ قَوْمٌ فِي ثِيَابٍ مِنَ الصُّوفِ مِنْ هَذِهِ النِّمَارِ، قَالَ: فَصَلَّى، وَقَامَ فَحَثَّ عَلَيْهِمْ، ثُمَّ قَالَ: وَلَوْ صَاعٌ، وَلَوْ بِنِصْفِ صَاعٍ، وَلَوْ بِقَبْضَةٍ، وَلَوْ بِبَعْضِ قَبْضَةٍ يَقِي أَحَدُكُمْ وَجْهَهُ حَرَّ جَهَنَّمَ أَوِ النَّارِ، وَلَوْ بِتَمْرَةٍ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ، فَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَاقِي اللَّهَ، وَقَائِلٌ لَهُ مَا أَقُولُ لَكُمْ: أَلَمْ أَجْعَلْ لَكَ سَمْعًا وَبَصَرًا؟ فَيَقُولُ: بَلَى، فَيَقُولُ: أَلَمْ أَجْعَلْ لَكَ مَالًا وَوَلَدًا؟ فَيَقُولُ: بَلَى، فَيَقُولُ: أَيْنَ مَا قَدَّمْتَ لِنَفْسِكَ؟ فَيَنْظُرُ قُدَّامَهُ وَبَعْدَهُ وَعَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ ثُمَّ لَا يَجِدُ شَيْئًا يَقِي بِهِ وَجْهَهُ حَرَّ جَهَنَّمَ، لِيَقِ أَحَدُكُمْ وَجْهَهُ النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ، فَإِنْ لَمْ يَجِدْ فَبِكَلِمَةٍ طَيِّبَةٍ، فَإِنِّي لَا أَخَافُ عَلَيْكُمُ الْفَاقَةَ، فَإِنَّ اللَّهَ نَاصِرُكُمْ وَمُعْطِيكُمْ حَتَّى تَسِيرَ الظَّعِينَةُ فِيمَا بَيْنَ يَثْرِبَ وَالْحِيرَةِ أَوْ أَكْثَرَ مَا تَخَافُ عَلَى مَطِيَّتِهَا السَّرَقَ، قَالَ: فَجَعَلْتُ أَقُولُ فِي نَفْسِي فَأَيْنَ لُصُوصُ طَيِّئٍ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، وَرَوَى شُعْبَةُ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ حُبَيْشٍ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ.
عدی بن حاتم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ آپ اس وقت مسجد میں تشریف فرما تھے، لوگوں نے کہا: یہ عدی بن حاتم ہیں، میں آپ کے پاس بغیر کسی امان اور بغیر کسی تحریر کے آیا تھا، جب مجھے آپ کے پاس لایا گیا تو آپ نے میرا ہاتھ تھام لیا۔ آپ اس سے پہلے فرما چکے تھے کہ مجھے امید ہے کہ اللہ ان کا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے گا ۱؎۔ عدی کہتے ہیں: آپ مجھے لے کر کھڑے ہوئے، اسی اثناء میں ایک عورت ایک بچے کے ساتھ آپ سے ملنے آ گئی، ان دونوں نے عرض کیا: ہمیں آپ سے ایک ضرورت ہے۔ آپ ان دونوں کے ساتھ کھڑے ہو گئے اور ان کی ضرورت پوری فرما دی۔ پھر آپ نے میرا ہاتھ تھام لیا اور مجھے لیے اپنے گھر آ گئے۔ ایک بچی نے آپ کے لیے ایک گدا بچھا دیا، جس پر آپ بیٹھ گئے اور میں بھی آپ کے سامنے بیٹھ گیا، آپ نے اللہ کی حمد و ثنا کی، پھر فرمایا: (بتاؤ) تمہیں «لا إلہ إلا اللہ» کہنے سے کیا چیز روک رہی ہے؟ کیا تم اللہ کے سوا کسی اور کو معبود سمجھتے ہو؟ میں نے کہا: نہیں، آپ نے کچھ دیر باتیں کیں، پھر فرمایا: اللہ اکبر کہنے سے بھاگ رہے ہو؟ کیا تم سمجھتے ہو کہ اللہ سے بھی بڑی کوئی چیز ہے؟ میں نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: یہود پر اللہ کا غضب نازل ہو چکا ہے اور نصاریٰ گمراہ ہیں، اس پر وہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: میں تو مسلمان ہونے کا ارادہ کر کے آیا ہوں۔ وہ کہتے ہیں: میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ خوشی سے دمک اٹھا، پھر آپ نے میرے لیے حکم فرمایا: تو میں ایک انصاری صحابی کے یہاں (بطور مہمان) ٹھہرا دیا گیا، پھر میں دن کے دونوں کناروں پر یعنی صبح و شام آپ کے پاس حاضر ہونے لگا۔ ایک شام میں آپ کے پاس بیٹھا ہی ہوا تھا کہ لوگ چیتے کی سی دھاری دار گرم کپڑے پہنے ہوئے آپ کے پاس حاضر ہوئے (ان کے آنے کے بعد) آپ نے نماز پڑھی، پھر آپ نے کھڑے ہو کر تقریر فرمائی اور لوگوں کو ان پر خرچ کرنے کے لیے ابھارا۔ آپ نے فرمایا: (صدقہ) دو اگرچہ ایک صاع ہو، اگرچہ آدھا صاع ہو، اگرچہ ایک مٹھی ہو، اگرچہ ایک مٹھی سے بھی کم ہو جس کے ذریعہ سے تم میں کا کوئی بھی اپنے آپ کو جہنم کی گرمی یا جہنم سے بچا سکتا ہے۔ (تم صدقہ دو) چاہے ایک کھجور ہی کیوں نہ ہو؟ چاہے آدھی کھجور ہی کیوں نہ ہو؟ کیونکہ تم میں سے ہر کوئی اللہ کے پاس پہنچنے والا ہے، اللہ اس سے وہی بات کہنے والا ہے جو میں تم سے کہہ رہا ہوں، (وہ پوچھے گا) کیا ہم نے تمہارے لیے کان اور آنکھیں نہیں بنائیں؟ وہ کہے گا: ہاں، کیوں نہیں! اللہ پھر کہے گا: کیا میں نے تمہیں مال اور اولاد نہ دی؟، وہ کہے گا: کیوں نہیں تو نے ہمیں مال و اولاد سے نوازا۔ وہ پھر کہے گا وہ سب کچھ کہاں ہے جو تم نے اپنی ذات کی حفاظت کے لیے آگے بھیجا ہے؟ (یہ سن کر) وہ اپنے آگے، اپنے پیچھے، اپنے دائیں بائیں (چاروں طرف) دیکھے گا، لیکن ایسی کوئی چیز نہ پائے گا جس کے ذریعہ وہ اپنے آپ کو جہنم کی گرمی سے بچا سکے۔ اس لیے تم میں سے ہر ایک کو اپنے آپ کو جہنم کی گرمی سے بچانے کی کوشش و تدبیر کرنی چاہیئے ایک کھجور ہی صدقہ کر کے کیوں نہ کرے۔ اور اگر یہ بھی نہ میسر ہو تو اچھی و بھلی بات کہہ کر ہی اپنے کو جہنم کی گرمی سے بچائے۔ مجھے اس کا خوف نہیں ہے کہ تم فقر و فاقہ کا شکار ہو جاؤ گے، کیونکہ اللہ تعالیٰ تمہارا مددگار ہے، اور تمہیں دینے والا ہے (اتنا دینے والا ہے) کہ ایک ہودج سوار عورت (تنہا) یثرب (مدینہ) سے حیرہ تک یا اس سے بھی لمبا سفر کرے گی اور اسے اپنی سواری کے چوری ہو جانے تک کا ڈر نہ ہو گا ۲؎ عدی رضی الله عنہ کہتے ہیں: (اس وقت) میں سوچنے لگا کہ قبیلہ بنی طی کے چور کہاں چلے جائیں گے ۳؎؟
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- ہم اسے صرف سماک بن حرب کی روایت ہی سے جانتے ہیں،
۳- شعبہ نے سماک بن حرب سے، سماک نے، عباد بن حبیش سے، اور عباد بن حبیش نے عدی بن حاتم رضی الله عنہ کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوری حدیث روایت کی ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (حسن) (الصحیحة 3263)»

وضاحت:
۱؎: وہ مجھ پر ایمان لے آئیں گے اور میری اطاعت قبول کر لیں گے۔
۲؎: یعنی اس وقت اتنی مالداری آ جائے گی اور اسلامی شریعت کے نفاذ کی برکت سے چاروں طرف امن و امان ہو گا کہ کسی کو چوری کرنے کی نہ ضرورت ہو گی اور نہ ہی ہمت۔
۳؎: عدی بن حاتم رضی الله عنہ قبیلہ بنی طے کے چوروں کا خیال انہیں اس لیے آیا کہ وہ خود بھی اسی قبیلہ کے تھے، اور اسی تعلق کی بنا پر انہیں اپنے قبیلہ کے چوروں کا خیال آیا، اس قبیلہ کے لوگ عراق اور حجاز کے درمیان آباد تھے، ان کے قریب سے جو بھی گزرتا تھا وہ ان پر حملہ کر کے اس کا سارا سامان لوٹ لیا کرتے تھے، اسی لیے عدی رضی الله عنہ کو تعجب ہوا کہ میرے قبیلے والوں کی موجودگی میں ایک عورت تن تنہا امن و امان کے ساتھ کیسے سفر کرے گی؟

قال الشيخ الألباني: (قول عدي بن حاتم: أتيت ... الحديث) حسن، (قول عدي بن حاتم عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " اليهود مغضوب عليهم والنصارى ضلال " فذكر الحديث بطوله) صحيح (قول عدي بن حاتم عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " اليهود مغضوب عليهم والنصارى ضلال " فذكر الحديث بطوله) تخريج الطحاوية (811)
حدیث نمبر: 2954M
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن المثنى، ومحمد بن بشار، قالا: حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، عن سماك بن حرب، عن عباد بن حبيش، عن عدي بن حاتم، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " اليهود مغضوب عليهم، والنصارى ضلال "، فذكر الحديث بطوله.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ حُبَيْشٍ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " الْيَهُودُ مَغْضُوبٌ عَلَيْهِمْ، وَالنَّصَارَى ضُلَّالٌ "، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ.
عدی بن حاتم رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہودی وہ ہیں جو اللہ کے غضب کا شکار ہوئے وہ «مغضوب عليهم» ہیں اور نصاریٰ گمراہ لوگ ہیں ۱؎، پھر (انہوں نے) پوری حدیث بیان کی۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس حدیث کی باب سے مناسبت اسی ٹکڑے میں ہے۔

قال الشيخ الألباني: (قول عدي بن حاتم: أتيت ... الحديث) حسن، (قول عدي بن حاتم عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " اليهود مغضوب عليهم والنصارى ضلال " فذكر الحديث بطوله) صحيح (قول عدي بن حاتم عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " اليهود مغضوب عليهم والنصارى ضلال " فذكر الحديث بطوله) تخريج الطحاوية (811)

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.