(مرفوع) حدثنا هناد، وابو عمار، قالا: حدثنا وكيع، عن إسرائيل، عن سماك، عن عكرمة، عن ابن عباس، قال: " لما وجه النبي صلى الله عليه وسلم إلى الكعبة، قالوا: يا رسول الله، كيف بإخواننا الذين ماتوا وهم يصلون إلى بيت المقدس، فانزل الله تعالى: وما كان الله ليضيع إيمانكم سورة البقرة آية 143 "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، وَأَبُو عَمَّارٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " لَمَّا وُجِّهَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْكَعْبَةِ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ بِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ مَاتُوا وَهُمْ يُصَلُّونَ إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ سورة البقرة آية 143 "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا تو لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہمارے ان بھائیوں کا کیا بنے گا جو بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے تھے، اور وہ گزر گئے تو (اسی موقع پر) اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: «وما كان الله ليضيع إيمانكم»”اللہ تعالیٰ تمہارا ایمان ضائع نہ کرے گا“(البقرہ: ۱۴۳)۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت: ۱؎: یعنی: بیت المقدس کی طرف منہ کر کے پڑھی گئی نمازوں کو ضائع نہیں کرے گا کیونکہ اس وقت یہی حکم الٰہی تھا، اس آیت میں «ایمان» سے مراد «صلاۃ» ہے نہ کہ بعض بزعم خود مفسر قرآن بننے والے نام نہاد مفسرین کا یہ کہنا کہ یہاں «ایمان» ہی مراد ہے، یہ صحیح حدیث کا صریح انکار ہے، «عفا اللہ عنہ» ۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ السنة 16 (4680) (تحفة الأشراف: 6108) (صحیح) (سند میں سماک کی عکرمہ سے روایت میں اضطراب پایا جاتا ہے، لیکن صحیح بخاری کی براء رضی الله عنہ کی حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے)»
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2964
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اللہ تعالیٰ تمہارا ایمان ضائع نہ کرے گا (البقرۃ: 143) یعنی: بیت المقدس کی طرف منہ کر کے پڑھی گئی نمازوں کو ضائع نہیں کرے گا کیونکہ اس وقت یہی حکم الٰہی تھا، اس آیت میں ”ایمان“ سے مراد ”نماز“ہے نہ کہ بعض بزعم خود مفسر قرآن بننے والے نام نہاد مفسرین کا یہ کہنا کہ یہاں ”ایمان“ ہی مراد ہے، یہ صحیح حدیث کا صریح انکار ہے، عفا اللہ عنہ۔
نوٹ: (سند میں سماک کی عکرمہ سے روایت میں اضطراب پایا جاتا ہے، لیکن صحیح بخاری کی براء رضی الله عنہ کی حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے)-
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2964
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4680
´ایمان کی کمی اور زیادتی کے دلائل کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب (نماز میں) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کی طرف رخ کرنا شروع کیا تو لوگ کہنے لگے: اللہ کے رسول! ان لوگوں کا کیا ہو گا جو مر گئے، اور وہ بیت المقدس کی طرف نماز پڑھتے تھے؟ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی «وما كان الله ليضيع إيمانكم»”ایسا نہیں ہے کہ اللہ تمہارے ایمان یعنی نماز ضائع فرما دے“(البقرہ: ۱۴۳)۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4680]
فوائد ومسائل: اس آیت کریمہ میں اللہ عزوجل نے ایک عمل،نماز کو ایمان سے تعبیر فرمایا ہے،معلوم ہوا کہ اعمال ایمان کا جز ہیں اور اعمال کے کمال سے ایمان کا مل ہوتا ہے ورنہ کمی آجاتی ہے
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4680