كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم کتاب: تفسیر قرآن کریم 40. باب وَمِنْ سُورَةِ الزُّمَرِ باب: سورۃ الزمر سے بعض آیات کی تفسیر۔
عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہما اپنے باپ (زبیر) سے روایت کرتے ہیں کہ جب آیت «ثم إنكم يوم القيامة عند ربكم تختصمون» ”پھر تم قیامت کے دن اپنے رب کے پاس (توحید و شرک کے سلسلے میں) جھگڑ رہے ہو گے“ [الزمر: 31] ، نازل ہوئی تو زبیر بن عوام رضی الله عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! اس دنیا میں ہمارا آپس میں جو لڑائی جھگڑا ہے اس کے بعد بھی دوبارہ ہمارے درمیان (آخرت میں) لڑائی جھگڑے ہوں گے؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں“، انہوں نے کہا: پھر تو معاملہ بڑا سخت ہو گا۔
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 3629) (حسن)»
قال الشيخ الألباني: حسن الإسناد
اسماء بنت یزید کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آیت «يا عبادي الذين أسرفوا على أنفسهم لا تقنطوا من رحمة الله إن الله يغفر الذنوب جميعا» ”اے میرے وہ بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے (یعنی گناہ کیے ہیں) اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوؤ، اللہ سبھی گناہ معاف کر دیتا ہے“ (الزمر: ۵۳)، پڑھتے ہوئے سنا ہے۔ اللہ کو کوئی پروا نہیں ہوتی (کہ اللہ کی اس چھوٹ اور مہربانی سے کون فائدہ اٹھا رہا ہے اور کون محروم رہ رہا ہے) ۱؎۔
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- ہم اسے صرف ثابت کی روایت سے جانتے ہیں اور وہ شہر بن حوشب سے روایت کرتے ہیں، ۳- شہر بن حوشب ام سلمہ انصاریہ سے روایت کرتے ہیں، اور ام سلمہ انصاریہ اسماء بنت یزید ہیں۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 15771) (ضعیف الإسناد) (سند میں ”شہر بن حوشب“ ضعیف ہیں)»
وضاحت: ۱؎: احمد کی روایت میں «لا يبالي» کے بعد آیت کا اگلا ٹکڑا بھی ہے «إن الله هو الغفور الرحيم» (الشورى: ۵) صاحب تحفہ الأحوذی فرماتے ہیں: شاید پہلے «لا يبالي» کا لفظ بھی آیت میں شامل تھا جو بعد میں منسوخ ہو گیا۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک یہودی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: محمد! اللہ آسمانوں کو ایک انگلی پر روکے ہوئے ہے، زمینوں کو ایک انگلی پر اٹھائے ہوئے ہے، پہاڑوں کو ایک انگلی سے تھامے ہوئے ہے، اور مخلوقات کو ایک انگلی پر آباد کئے ہوئے ہے، پھر کہتا ہے: میں ہی (ساری کائنات کا) بادشاہ ہوں۔ (یہ سن کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھلکھلا کر ہنس پڑے، فرمایا: ”پھر بھی لوگوں نے اللہ کی قدر و عزت نہ کی جیسی کہ کرنی چاہیئے تھی“۔
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تفسیر سورة الزمر 2 (4811)، والتوحید 19 (7414)، و26 (7451)، و 36 (7513)، صحیح مسلم/المنافقین ح 19 (2786) (تحفة الأشراف: 4904) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح الظلال (541 - 544)
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ پس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تعجب سے اور (اس کی باتوں کی) تصدیق میں ہنس پڑے۔
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح الظلال (541 - 544)
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک یہودی کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزر ہوا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس (یہودی) سے کہا: ”ہم سے کچھ بات چیت کرو“، اس نے کہا: ابوالقاسم! آپ کیا کہتے ہیں: جب اللہ آسمانوں کو اس پر اٹھائے گا ۱؎ اور زمینوں کو اس پر اور پانی کو اس پر اور پہاڑوں کو اس پر اور ساری مخلوق کو اس پر، ابوجعفر محمد بن صلت نے (یہ بات بیان کرتے ہوئے) پہلے چھنگلی (کانی انگلی) کی طرف اشارہ کیا، اور یکے بعد دیگرے اشارہ کرتے , ہوئے انگوٹھے تک پہنچے، (اس موقع پر بطور جواب) اللہ تعالیٰ نے «وما قدروا الله حق قدره» ”انہوں نے اللہ کی (ان ساری قدرتوں کے باوجود) صحیح قدر و منزلت نہ جانی، نہ پہچانی“ (الزمر: ۶۷)، نازل کیا۔
۱- یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے، ۲- ہم اسے (ابن عباس رضی الله عنہما کی روایت سے) صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ۳- ابوکدینہ کا نام یحییٰ بن مہلب ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو دیکھا ہے، انہوں نے یہ حدیث حسن بن شجاع سے اور حسن نے محمد بن صلت سے روایت کی ہے۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 6457) (ضعیف) (سند میں عطاء بن السائب مختلط راوی ہیں)»
وضاحت: ۱؎: احمد کی روایت میں یوں ہے «یوم یحمل…» ۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف المصدر نفسه // هو كتاب ظلال الجنة في تخريج أحاديث كتاب " السنة " لابن أبي عاصم برقم (545) //
مجاہد کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما نے کہا: کیا تمہیں معلوم ہے جہنم کتنی بڑی ہے؟ میں نے کہا: نہیں، انہوں نے کہا: بیشک، قسم اللہ کی! مجھے بھی معلوم نہ تھا، (مگر) عائشہ رضی الله عنہا نے مجھ سے بیان کیا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آیت «والأرض جميعا قبضته يوم القيامة والسموات مطويات بيمينه» ”ساری زمین قیامت کے دن رب کی ایک مٹھی میں ہو گی اور سارے آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے“ (الزمر: ۶۷)، کے تعلق سے پوچھا: رسول اللہ! پھر اس دن لوگ کہاں ہوں گے؟ آپ نے فرمایا: ”جہنم کے پل پر، (اس سے مجھے معلوم ہو گیا کہ جہنم بہت لمبی چوڑی ہو گی) اس حدیث کے سلسلے میں پوری ایک کہانی ہے۔
یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفة الأشراف: 16228) (صحیح الإسناد)»
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ اللہ کے رسول! «والأرض جميعا قبضته يوم القيامة والسموات مطويات بيمينه» ”زمین ساری کی ساری قیامت کے دن اس کی مٹھی میں ہو گی، اور آسمان سارے کے سارے اس کے ہاتھ لپٹے ہوئے ہوں گے“ پھر اس دن مومن لوگ کہاں پر ہوں گے؟ آپ نے فرمایا: ”عائشہ! وہ لوگ (پل) صراط پر ہوں گے“۔
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (صحیح)»
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں کیسے چین سے رہ سکتا ہوں جب کہ صور پھونکنے والا صور کو منہ سے لگائے ہوئے اپنا رخ اسی کی طرف کئے ہوئے ہے، اسی کی طرف کان لگائے ہوئے ہے، انتظار میں ہے کہ اسے صور پھونکنے کا حکم دیا جائے تو وہ فوراً صور پھونک دے، مسلمانوں نے کہا: ہم (ایسے موقعوں پر) کیا کہیں اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ”کہو: «حسبنا الله ونعم الوكيل توكلنا على الله ربنا وربما» ”ہمیں اللہ کافی ہے اور کیا ہی اچھا کارساز ہے، ہم نے اپنے رب اللہ پر بھروسہ کر رکھا ہے“ راوی کہتے ہیں: کبھی کبھی سفیان نے «توكلنا على الله ربنا» کے بجائے «على الله توكلنا» روایت کیا ہے۔ (اس کے معنی بھی وہی ہیں) ہم نے اللہ پر بھروسہ کیا ہے“ ۱؎۔
۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- اعمش نے بھی اسے عطیہ سے اور عطیہ نے ابو سعید خدری سے روایت کیا ہے۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 4244) (صحیح) (سند میں عطیہ ضعیف راوی ہیں، لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے)»
وضاحت: ۱؎: مولف نے یہ حدیث ارشاد باری تعالیٰ: «ونفخ في الصور فصعق من في السماوات ومن في الأرض» (الزمر: 68) کی تفسیر میں ذکر کی ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (1078 - 1079)
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک اعرابی نے کہا: اللہ کے رسول! صور کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”ایک سینگ (بھوپو) ہے جس میں پھونکا جائے گا ۱؎۔
یہ حدیث حسن ہے اور ہم اسے صرف سلیمان تیمی کی روایت سے جانتے ہیں۔ تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 2430 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: تو آواز گونجتی اور دور تک جاتی ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (1080)
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک یہودی نے مدینہ کے بازار میں کہا: نہیں، قسم ہے اس ذات کی جس نے موسیٰ علیہ السلام کو تمام انسانوں میں سے چن لیا، (یہ سنا) تو ایک انصاری شخص نے ہاتھ اٹھا کر ایک طمانچہ اس کے منہ پر مار دیا، کہا: تو ایسا کہتا ہے جب کہ (تمام انسانوں اور جنوں کے سردار) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان موجود ہیں۔ (دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت: «ونفخ في الصور فصعق من في السموات ومن في الأرض إلا من شاء الله ثم نفخ فيه أخرى فإذا هم قيام ينظرون» ”جب صور پھونکا جائے گا آواز کی کڑک سے سوائے ان کے جنہیں اللہ چاہے گا آسمانوں و زمین کے سبھی لوگ غشی کھا جائیں گے، پھر دوبارہ صور پھونکا جائے گا، تو وہ کھڑے ہو کر دیکھتے ہوں گے (کہ ان کے ساتھ) کیا کیا جاتا ہے؟“ (الزمر: ۶۹)، پڑھی اور کہا: سب سے پہلا سر اٹھانے والا میں ہوں گا تو موسیٰ مجھے عرش کا ایک پایہ پکڑے ہوئے دکھائی دیں گے، میں نہیں کہہ سکتا کہ موسیٰ نے مجھ سے پہلے سر اٹھایا ہو گا یا وہ ان لوگوں میں سے ہوں گے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے «إلا من شاء الله» کہہ کر مستثنیٰ کر دیا ہے ۲؎ اور جس نے کہا: میں یونس بن متی علیہ السلام سے بہتر ہوں اس نے غلط کہا ۳؎۔
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 15062) (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: روز حشر کا یہ واقعہ سنانے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم موسیٰ علیہ السلام کی فضیلیت ذکر کرنا چاہتے ہیں نیز اپنی خاکساری کا اظہار فرما رہے ہیں، اپنی خاکساری ظاہری کرنا دوسری بات ہے، اور فی نفسہ موسیٰ علیہ السلام کا تمام انبیاء کے افضل ہونا اور بات ہے البتہ اس طرح کسی نبی کا نام لے کر آپ کے ساتھ مقابلہ کر کے آپ کی فضیلت بیان کرنے والے کو تاؤ میں آ کر مار دینا مناسب نہیں ہے، آپ نے اس وقت یہی تعلیم دہی ہے۔ قال الشيخ الألباني: حسن صحيح تخريج الطحاوية ص // (160 - // 162)
ابوسعید اور ابوہریرہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پکارنے والا پکار کر کہے گا: (جنت میں) تم ہمیشہ زندہ رہو گے، کبھی مرو گے نہیں، تم صحت مند رہو گے، کبھی بیمار نہ ہو گے، کبھی محتاج و حاجت مند نہ ہو گے، اللہ تعالیٰ کے قول: «وتلك الجنة التي أورثتموها بما كنتم تعملون» ”یہی وہ جنت ہے جس کے تم اپنے نیک اعمال کے بدلے وارث بنائے جاؤ گے“ (الزخرف: ۷۲)، کا یہی مطلب ہے“۔
ابن مبارک وغیرہ نے یہ حدیث ثوری سے روایت کی ہے، اور انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے۔ تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الجنة 8 (2837) (تحفة الأشراف: 3963، 12193) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
|