سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: تفسیر قرآن کریم
Chapters on Tafsir
93. باب وَمِنْ سُورَةِ الْمُعَوِّذَتَيْنِ
باب: معوذتین سے بعض آیات کی تفسیر۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 3366
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا عبد الملك بن عمرو العقدي، عن ابن ابي ذئب، عن الحارث بن عبد الرحمن، عن ابي سلمة، عن عائشة، ان النبي صلى الله عليه وسلم نظر إلى القمر، فقال: " يا عائشة استعيذي بالله من شر هذا، فإن هذا هو الغاسق إذا وقب ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو الْعَقَدِيُّ، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَظَرَ إِلَى الْقَمَرِ، فَقَالَ: " يَا عَائِشَةُ اسْتَعِيذِي بِاللَّهِ مِنْ شَرِّ هَذَا، فَإِنَّ هَذَا هُوَ الْغَاسِقُ إِذَا وَقَبَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند کی طرف دیکھ کر فرمایا: عائشہ! اس کے شر سے اللہ کی پناہ مانگو، کیونکہ یہ «غاسق» ہے جب یہ ڈوب جائے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة 116 (304) (تحفة الأشراف: 17703)، و مسند احمد (6/215) (حسن صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی اس کے ڈوبنے سے رات کی تاریکی بڑھ جاتی ہے اور بڑھی ہوئی تاریکی میں زنا، چوریاں بدکاریاں وغیرہ زیادہ ہوتی ہیں، اس لیے اس سے پناہ مانگنے کے لیے کہا گیا ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، الصحيحة (372)، المشكاة (2475)
حدیث نمبر: 3367
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا يحيى بن سعيد، عن إسماعيل بن ابي خالد، حدثني قيس وهو ابن ابي حازم، عن عقبة بن عامر الجهني، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " قد انزل الله علي آيات لم ير مثلهن قل اعوذ برب الناس سورة الناس آية 1 إلى آخر السورة و قل اعوذ برب الفلق سورة الفلق آية 1 إلى آخر السورة ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي خَالِدٍ، حَدَّثَنِي قَيْسٌ وَهُوَ ابْنُ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ الْجُهَنِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيَّ آيَاتٍ لَمْ يُرَ مِثْلُهُنَّ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ سورة الناس آية 1 إِلَى آخِرِ السُّورَةِ و قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ سورة الفلق آية 1 إِلَى آخِرِ السُّورَةِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عقبہ بن عامر جہنی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ نے مجھ پر کچھ ایسی آیتیں نازل کی ہیں کہ ان جیسی آیتیں کہیں دیکھی نہ گئی ہیں، وہ ہیں «قل أعوذ برب الناس» آخر سورۃ تک اور «قل أعوذ برب الفلق» آخر سورۃ تک۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 1902 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح وقد مضى (3078)
حدیث نمبر: 3368
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا حدثنا محمد بن بشار، حدثنا صفوان بن عيسى، حدثنا الحارث بن عبد الرحمن بن ابي ذباب، عن سعيد بن ابي سعيد المقبري، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لما خلق الله آدم ونفخ فيه الروح عطس، فقال: الحمد لله، فحمد الله بإذنه، فقال له ربه: يرحمك الله يا آدم اذهب إلى اولئك الملائكة إلى ملإ منهم جلوس، فقل: السلام عليكم، قالوا: وعليك السلام ورحمة الله، ثم رجع إلى ربه، فقال: إن هذه تحيتك وتحية بنيك بينهم، فقال الله له ويداه مقبوضتان: اختر ايهما شئت، قال: اخترت يمين ربي، وكلتا يدي ربي يمين مباركة، ثم بسطها، فإذا فيها آدم وذريته، فقال: اي رب، ما هؤلاء؟ فقال: هؤلاء ذريتك فإذا كل إنسان مكتوب عمره بين عينيه، فإذا فيهم رجل اضوؤهم او من اضوئهم، قال: يا رب، من هذا؟ قال: هذا ابنك داود قد كتبت له عمر اربعين سنة، قال: يا رب زده في عمره، قال: ذاك الذي كتبت له، قال: اي رب، فإني قد جعلت له من عمري ستين سنة، قال: انت وذاك، قال: ثم اسكن الجنة ما شاء الله، ثم اهبط منها فكان آدم يعد لنفسه، قال: فاتاه ملك الموت، فقال له آدم: قد عجلت قد كتب لي الف سنة، قال: بلى، ولكنك جعلت لابنك داود ستين سنة، فجحد فجحدت ذريته، ونسي فنسيت ذريته، قال: فمن يومئذ امر بالكتاب والشهود ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب من هذا الوجه، وقد روي من غير وجه عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، من رواية زيد بن اسلم، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي ذُبَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَمَّا خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ وَنَفَخَ فِيهِ الرُّوحَ عَطَسَ، فَقَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ، فَحَمِدَ اللَّهَ بِإِذْنِهِ، فَقَالَ لَهُ رَبُّهُ: يَرْحَمُكَ اللَّهُ يَا آدَمُ اذْهَبْ إِلَى أُولَئِكَ الْمَلَائِكَةِ إِلَى مَلَإٍ مِنْهُمْ جُلُوسٍ، فَقُلْ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ، قَالُوا: وَعَلَيْكَ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى رَبِّهِ، فَقَالَ: إِنَّ هَذِهِ تَحِيَّتُكَ وَتَحِيَّةُ بَنِيكَ بَيْنَهُمْ، فَقَالَ اللَّهُ لَهُ وَيَدَاهُ مَقْبُوضَتَانِ: اخْتَرْ أَيَّهُمَا شِئْتَ، قَالَ: اخْتَرْتُ يَمِينَ رَبِّي، وَكِلْتَا يَدَيْ رَبِّي يَمِينٌ مُبَارَكَةٌ، ثُمَّ بَسَطَهَا، فَإِذَا فِيهَا آدَمُ وَذُرِّيَّتُهُ، فَقَالَ: أَيْ رَبِّ، مَا هَؤُلَاءِ؟ فَقَالَ: هَؤُلَاءِ ذُرِّيَّتُكَ فَإِذَا كُلُّ إِنْسَانٍ مَكْتُوبٌ عُمْرُهُ بَيْنَ عَيْنَيْهِ، فَإِذَا فِيهِمْ رَجُلٌ أَضْوَؤُهُمْ أَوْ مِنْ أَضْوَئِهِمْ، قَالَ: يَا رَبِّ، مَنْ هَذَا؟ قَالَ: هَذَا ابْنُكَ دَاوُدُ قَدْ كَتَبْتُ لَهُ عُمْرَ أَرْبَعِينَ سَنَةً، قَالَ: يَا رَبِّ زِدْهُ فِي عُمْرِهِ، قَالَ: ذَاكَ الَّذِي كَتَبْتُ لَهُ، قَالَ: أَيْ رَبِّ، فَإِنِّي قَدْ جَعَلْتُ لَهُ مِنْ عُمْرِي سِتِّينَ سَنَةً، قَالَ: أَنْتَ وَذَاكَ، قَالَ: ثُمَّ أُسْكِنَ الْجَنَّةَ مَا شَاءَ اللَّهُ، ثُمَّ أُهْبِطَ مِنْهَا فَكَانَ آدَمُ يَعُدُّ لِنَفْسِهِ، قَالَ: فَأَتَاهُ مَلَكُ الْمَوْتِ، فَقَالَ لَهُ آدَمُ: قَدْ عَجَّلْتَ قَدْ كُتِبَ لِي أَلْفُ سَنَةٍ، قَالَ: بَلَى، وَلَكِنَّكَ جَعَلْتَ لِابْنِكِ دَاوُدَ سِتِّينَ سَنَةً، فَجَحَدَ فَجَحَدَتْ ذُرِّيَّتُهُ، وَنَسِيَ فَنَسِيَتْ ذُرِّيَّتُهُ، قَالَ: فَمِنْ يَوْمِئِذٍ أُمِرَ بِالْكِتَابِ وَالشُّهُودِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِنْ رِوَايَةِ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب اللہ نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اور ان میں روح پھونک دی، تو ان کو چھینک آئی، انہوں نے «الحمد لله» کہنا چاہا چنانچہ اللہ کی اجازت سے «الحمد لله» کہا، (تمام تعریفیں اللہ کے لیے سزاوار ہیں) پھر ان سے ان کے رب نے کہا: اللہ تم پر رحم فرمائے، اے آدم! ان فرشتوں کی بیٹھی ہوئی جماعت و گروہ کے پاس جاؤ اور ان سے السلام علیکم کہو، انہوں نے جا کر السلام علیکم کیا، فرشتوں نے جواب دیا، وعلیک السلام ورحمۃ اللہ، پھر وہ اپنے رب کے پاس لوٹ آئے، اللہ نے فرمایا: یہ تمہارا اور تمہاری اولاد کا آپس میں طریقہ سلام و دعا ہے، پھر اللہ نے اپنے دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں بند کر کے آدم سے کہا: ان میں سے جسے چاہو پسند کر لو، وہ کہتے ہیں: میں نے اللہ کے دایاں ہاتھ کو پسند کیا، اور حقیقت یہ ہے کہ میرے رب کے دونوں ہی ہاتھ داہنے ہاتھ ہیں اور برکت والے ہیں، پھر اس نے مٹھی کھولی تو اس میں آدم اور آدم کی ذریت تھی، آدم علیہ السلام نے پوچھا: اے میرے رب یہ کون لوگ ہیں؟ کہا یہ سب تیری اولاد ہیں اور ہر ایک کی عمر اس کی دونوں آنکھوں کے بیچ میں لکھی ہوئی ہے، ان میں ایک سب سے زیادہ روشن چہرہ والا تھا، آدم علیہ السلام نے پوچھا: اے میرے رب یہ کون ہے؟ کہا یہ تمہارا بیٹا داود ہے، میں نے اس کی عمر چالیس سال لکھ دی ہے، آدم علیہ السلام نے کہا: اے میرے رب! اس کی عمر بڑھا دیجئیے، اللہ نے کہا: یہ عمر تو اس کی لکھی جا چکی ہے، آدم علیہ السلام نے کہا: اے میرے رب! میں اپنی عمر میں سے ساٹھ سال اسے دیئے دیتا ہوں، اللہ نے کہا: تم اور وہ جانو؟ چلو خیر، پھر آدم علیہ السلام جنت میں رہے جب تک کہ اللہ کو منظور ہوا، پھر آدم علیہ السلام جنت سے نکال باہر کر دیئے گئے، آدم علیہ السلام اپنی زندگی کے دن گنا کرتے تھے، ملک الموت ان کے پاس آئے تو آدم علیہ السلام نے ان سے کہا: آپ تو جلدی آ گئے میری عمر تو ہزار برس لکھی گئی ہے، ملک الموت نے کہا: ہاں (بات تو صحیح ہے) لیکن آپ نے تو اپنی زندگی کے ساٹھ سال اپنے بیٹے داود کو دے دیے تھے، تو انہوں نے انکار کر دیا آدم علیہ السلام کے اسی انکار کا نتیجہ اور اثر ہے کہ ان کی اولاد بھی انکار کرنے لگ گئی، آدم علیہ السلام بھول گئے، ان کی اولاد بھی بھولنے لگ گئی، اسی دن سے حکم دے دیا گیا ساری باتیں لکھ لی جایا کریں اور گواہ بنا لیے جایا کریں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،
۲- یہ حدیث کئی اور سندوں سے ابوہریرہ رضی الله عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے، اور ابوہریرہ کی اس حدیث کو زید بن اسلم نے بطریق: «أبي صالح عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة 82 (218) (تحفة الأشراف: 12955) (حسن صحیح)»

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، المشكاة (4662)، ظلال الجنة (204 - 206)

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.