كتاب الأشربة کتاب: مشروبات (پینے والی چیزوں) کے احکام و مسائل 53. بَابُ: ذِكْرِ مَا يَجُوزُ شُرْبُهُ مِنَ الطِّلاَءِ وَمَا لاَ يَجُوزُ باب: کون سا طلاء پینا جائز ہے اور کون سا ناجائز؟
سوید بن غفلہ کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے کسی عامل (گورنر) کو لکھا: مسلمانوں کو وہ طلاء پینے دو جس کے دو حصے جل گئے ہوں اور ایک حصہ باقی ہو ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 10461) (حسن، صحیح الإسناد)»
وضاحت: ۱؎: انگور کا رس دو تہائی جل گیا ہو اور ایک تہائی رہ جائے تو اس کو طلا کہتے ہیں، یہ حلال ہے۔ قال الشيخ الألباني: حسن صحيح موقوف
عامر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوموسیٰ اشعری کے نام عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا خط پڑھا: امابعد، میرے پاس شام کا ایک قافلہ آیا، ان کے پاس ایک مشروب تھا جو گاڑھا اور کالا تھا جیسے اونٹ کا طلاء۔ میں نے ان سے پوچھا: وہ اسے کتنا پکاتے ہیں؟ انہوں نے مجھے بتایا: وہ اسے دو تہائی پکاتے ہیں۔ اس کے دو خراب حصے جل کر ختم ہو جاتے ہیں، ایک تہائی تو شرارت (نشہ) والا اور دوسرا تہائی اس کی بدبو والا۔ لہٰذا تم اپنے ملک کے لوگوں کو اس کے پینے کی اجازت دو ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 10478) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مفہوم یہ ہے کہ پکانے پر انگور کے رس کی تین حالتیں ہیں: پہلی حالت یہ ہے کہ وہ نشہ لانے والا اور تیز ہوتا ہے، دوسری حالت یہ ہے کہ وہ بدبودار ہوتا ہے اور تیسری حالت یہ ہے کہ وہ عمدہ اور ذائقہ دار ہوتا ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره
عبداللہ بن یزید خطمی کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ہمیں لکھا: امابعد، اپنے مشروبات کو اس قدر پکاؤ کہ اس میں سے شیطانی حصہ نکل جائے ۱؎، کیونکہ اس کے اس میں دو حصے ہیں اور تمہارا ایک۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 10588) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: شیطانی حصہ سے روایت نمبر ۵۷۲۹ میں مذکور واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عامر شعبی کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ لوگوں کو اتنا گاڑھا طلاء پلاتے کہ اگر اس میں مکھی گر جائے تو وہ اس میں سے نکل نہ سکے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 10151) (صحیح الإسناد)»
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد موقوف
داود کہتے ہیں کہ میں نے سعید بن المسیب سے پوچھا: وہ کون سا مشروب ہے جسے عمر رضی اللہ عنہ نے حلال قرار دیا؟ وہ بولے: جو اس قدر پکایا جائے کہ اس کا دو تہائی حصہ ختم ہو جائے اور ایک تہائی باقی رہ جائے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الٔاشراف: 18701) (صحیح لغیرہ)»
قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره
سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ ابو الدرداء رضی اللہ عنہ ایسا مشروب پیتے جو دو تہائی جل کر ختم ہو گیا ہو اور ایک تہائی باقی رہ گیا ہو۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الٔاشراف: 10936) (صحیح الإسناد)»
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد موقوف
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ ایسا طلاء پیتے تھے جس کا دو تہائی جل کر ختم ہو گیا ہو اور ایک تہائی باقی ہو۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الٔاشراف: 9027) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح موقوف
سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ ایک اعرابی نے ان سے اس مشروب کے بارے میں پوچھا جو پکا کر آدھا رہ گیا ہو، انہوں نے کہا: نہیں، جب تک دو تہائی جل نہ جائے اور ایک تہائی باقی رہ جائے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 18758) (صحیح الإسناد)»
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد مقطوع
سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ جب طلاء جل کر ایک تہائی رہ جائے تو اسے پینے میں کوئی حرج نہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الٔاشراف: 18754) (صحیح الإسناد)»
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد مقطوع
ابورجاء کہتے ہیں کہ میں نے حسن (حسن بصری) سے اس طلاء کے بارے میں پوچھا جو جل کر نصف رہ گیا ہو، تو انہوں نے کہا: اسے مت پیو۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (صحیح الاسناد)»
قال الشيخ الألباني: سكت عنه الشيخ
بشیر بن مہاجر کہتے ہیں کہ میں نے حسن (حسن بصری) سے پوچھا: شیرہ (رس) کس قدر پکایا جائے۔ انہوں نے کہا: اس وقت تک پکاؤ کہ اس کا دو تہائی جل جائے اور ایک تہائی باقی رہ جائے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الٔاشراف: 18503) (حسن الإسناد مقطوع)»
قال الشيخ الألباني: حسن الإسناد مقطوع
انس بن سیرین کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا: نوح علیہ السلام سے شیطان نے انگور کے پودے کے بارے میں جھگڑا کیا، اس نے کہا: یہ میرا ہے، انہوں نے کہا: یہ میرا ہے، پھر دونوں میں صلح ہوئی اس پر کہ نوح علیہ السلام کا ایک تہائی ہے اور شیطان کا دو تہائی ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الٔاشراف: 237) (حسن الإسناد) (یہ اثر اسرائیلیات سے قریب ہے)»
وضاحت: ۱؎: اسی طرف عمر رضی اللہ عنہ کا اشارہ تھا۔ (دیکھئیے نمبر ۵۷۲۰) قال الشيخ الألباني: حسن الإسناد موقوف وهو بالإسرائيليات أشبه
عبدالملک بن طفیل جزری کہتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز نے ہمیں لکھا: طلاء مت پیو، جب تک کہ اس کا دو تہائی جل نہ جائے اور ایک تہائی باقی نہ رہ جائے اور ہر نشہ لانے والی چیز حرام ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 5603 (ضعیف الإسناد) (اس کے راوی عبدالملک مجہول ہیں، لیکن اس معنی کی پچھلی اگلی روایات صحیح ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
مکحول کہتے ہیں: ہر نشہ لانے والی چیز حرام ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الٔاشراف: 19460) (صحیح الإسناد)»
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد مقطوع غير أن المتن صحيح موصولا
|