(مرفوع) اخبرني عمرو بن عثمان بن سعيد بن كثير , قال: حدثنا بقية , قال: حدثني الاوزاعي , عن يحيى بن ابي عمرو , عن عبد الله بن الديلمي , عن ابيه فيروز , قال: قدمت على رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقلت: يا رسول الله , إنا اصحاب كرم وقد انزل الله عز وجل تحريم الخمر , فماذا نصنع؟ قال:" تتخذونه زبيبا" , قلت: فنصنع بالزبيب ماذا؟ قال:" تنقعونه على غدائكم وتشربونه على عشائكم , وتنقعونه على عشائكم وتشربونه على غدائكم" , قلت: افلا نؤخره حتى يشتد؟ قال:" لا تجعلوه في القلل واجعلوه في الشنان , فإنه إن تاخر صار خلا". (مرفوع) أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ كَثِيرٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ , قَالَ: حَدَّثَنِي الْأَوْزَاعِيُّ , عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي عَمْرٍو , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الدَّيْلَمِيِّ , عَنْ أَبِيهِ فَيْرُوزَ , قَالَ: قَدِمْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّا أَصْحَابُ كَرْمٍ وَقَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ تَحْرِيمَ الْخَمْرِ , فَمَاذَا نَصْنَعُ؟ قَالَ:" تَتَّخِذُونَهُ زَبِيبًا" , قُلْتُ: فَنَصْنَعُ بِالزَّبِيبِ مَاذَا؟ قَالَ:" تُنْقِعُونَهُ عَلَى غَدَائِكُمْ وَتَشْرَبُونَهُ عَلَى عَشَائِكُمْ , وَتُنْقِعُونَهُ عَلَى عَشَائِكُمْ وَتَشْرَبُونَهُ عَلَى غَدَائِكُمْ" , قُلْتُ: أَفَلَا نُؤَخِّرُهُ حَتَّى يَشْتَدَّ؟ قَالَ:" لَا تَجْعَلُوهُ فِي الْقُلَلِ وَاجْعَلُوهُ فِي الشِّنَانِ , فَإِنَّهُ إِنْ تَأَخَّرَ صَارَ خَلًّا".
عبداللہ دیلمی کے والد فیروز رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم انگور والے لوگ ہیں، اور اللہ تعالیٰ نے شراب کی حرمت نازل فرما دی ہے، اب ہم کیا کریں؟ آپ نے فرمایا: ”اسے سکھا کر منقیٰ بنا لو“۔ میں نے کہا: تب ہم منقیٰ کا کیا کریں؟ آپ نے فرمایا: ”اسے صبح کے وقت بھگوؤ دو اور شام کو پیو، اور شام کو بھگوؤ صبح کو پیو“۔ میں نے کہا: دیر تک نہ رہنے دیں یہاں تک کہ اس میں تیزی آ جائے؟ آپ نے فرمایا: ”اسے گھڑوں میں مت رکھو بلکہ چمڑے کی مشک میں رکھو اس لیے کہ اگر اس میں زیادہ دیر تک رہا تو وہ (مشروب) سرکہ بن جائے گا“۔
وضاحت: ۱؎: اس باب میں (بشمول باب ۵۷) جو احادیث و آثار مذکور ہیں ان کا حاصل مطلب یہ ہے کہ کچھ مشروبات کی نوعیت یہ ہوتی ہے کہ کسی مرحلہ میں ان میں نشہ نہیں ہوتا اور کسی مرحلہ میں ہو جاتا ہے، تو جب مرحلہ میں نشہ نہیں ہوتا اس کا پینا حلال ہے، اور جب نشہ پیدا ہو جائے تو خواہ کم مقدار میں ہو یا زیادہ مقدار میں کم مقدار میں پینے سے خواہ نشہ آئے یا نہ آئے اس کا پینا حرام ہے۔ «الحمدللہ الذی بنعمتہ تتم الصالحات» ۔
(مرفوع) اخبرنا عيسى بن محمد ابو عمير بن النحاس , عن ضمرة , عن الشيباني , عن ابن الديلمي , عن ابيه , قال: قلنا: يا رسول الله , إن لنا اعنابا فماذا نصنع بها؟ قال:" زببوها" , قلنا: فما نصنع بالزبيب؟ قال:" انبذوه على غدائكم واشربوه على عشائكم , وانبذوه على عشائكم واشربوه على غدائكم , وانبذوه في الشنان ولا تنبذوه في القلال فإنه إن تاخر صار خلا". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ مُحَمَّدٍ أَبُو عُمَيْرِ بْنِ النَّحَّاسِ , عَنْ ضَمْرَةَ , عَنْ الشَّيْبَانِيِّ , عَنْ ابْنِ الدَّيْلَمِيِّ , عَنْ أَبِيهِ , قَالَ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّ لَنَا أَعْنَابًا فَمَاذَا نَصْنَعُ بِهَا؟ قَالَ:" زَبِّبُوهَا" , قُلْنَا: فَمَا نَصْنَعُ بِالزَّبِيبِ؟ قَالَ:" انْبِذُوهُ عَلَى غَدَائِكُمْ وَاشْرَبُوهُ عَلَى عَشَائِكُمْ , وَانْبِذُوهُ عَلَى عَشَائِكُمْ وَاشْرَبُوهُ عَلَى غَدَائِكُمْ , وَانْبِذُوهُ فِي الشِّنَانِ وَلَا تَنْبِذُوهُ فِي الْقِلَالِ فَإِنَّهُ إِنْ تَأَخَّرَ صَارَ خَلًّا".
فیروز دیلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمارے انگور کے باغات ہیں ہم ان کا کیا کریں؟ آپ نے فرمایا: ”ان کا منقیٰ اور کشمش بنا لو“، ہم نے عرض کیا: پھر منقے اور کشمش کا کیا کریں، آپ نے فرمایا: ”صبح کو بھگاؤ اور شام کو پی لو، اور شام کو بھگاؤ صبح کو پی لو، اور اسے مشکیزوں میں بھگاؤ، گھڑوں میں نہ بھگانا، اس لیے کہ اگر اس میں وہ (مشروب) دیر تک رہ گیا تو سرکہ بن جائے گا“۔
(مرفوع) اخبرنا ابو داود الحراني , قال: حدثنا يعلى بن عبيد , قال: حدثنا مطيع , عن ابي عثمان , عن ابن عباس , قال:" كان ينبذ لرسول الله صلى الله عليه وسلم فيشربه من الغد ومن بعد الغد , فإذا كان مساء الثالثة , فإن بقي في الإناء شيء لم يشربوه اهريق". (مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو دَاوُدَ الْحَرَّانِيُّ , قَالَ: حَدَّثَنَا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا مُطِيعٌ , عَنْ أَبِي عُثْمَانَ , عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ , قَالَ:" كَانَ يُنْبَذُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَشْرَبُهُ مِنَ الْغَدِ وَمِنْ بَعْدِ الْغَدِ , فَإِذَا كَانَ مَسَاءُ الثَّالِثَةِ , فَإِنْ بَقِيَ فِي الْإِنَاءِ شَيْءٌ لَمْ يَشْرَبُوهُ أُهَرِيقَ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نبیذ تیار کی جاتی تھی، آپ اسے دوسرے دن اور تیسرے دن پیتے ۱؎، جب تیسرے دن کی شام ہوتی اور اگر اس میں سے کچھ برتن میں بچ گئی ہوتی تو اسے نہیں پیتے بلکہ بہا دیتے۔
وضاحت: ۱؎: صحیح مسلم میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہم نبیذ تیار کرتے جسے آپ ایک دن اور رات تک پیتے، تو یہ حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما کی اس حدیث کے معارض نہیں ہے کیونکہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں اس سے زیادہ مدت تک پینے کی نفی نہیں ہے۔
(مرفوع) اخبرنا واصل بن عبد الاعلى , عن ابن فضيل , عن الاعمش , عن يحيى بن ابي عمر , عن ابن عباس , قال:" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ينبذ له نبيذ الزبيب من الليل فيجعله في سقاء فيشربه يومه ذلك , والغد وبعد الغد , فإذا كان من آخر الثالثة سقاه او شربه فإن اصبح منه شيء , اهراقه". (مرفوع) أَخْبَرَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى , عَنْ ابْنِ فُضَيْلٍ , عَنْ الْأَعْمَشِ , عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي عُمَرَ , عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ , قَالَ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُنْبَذُ لَهُ نَبِيذُ الزَّبِيبِ مِنَ اللَّيْلِ فَيَجْعَلُهُ فِي سِقَاءٍ فَيَشْرَبُهُ يَوْمَهُ ذَلِكَ , وَالْغَدَ وَبَعْدَ الْغَدِ , فَإِذَا كَانَ مِنْ آخِرِ الثَّالِثَةِ سَقَاهُ أَوْ شَرِبَهُ فَإِنْ أَصْبَحَ مِنْهُ شَيْءٌ , أَهْرَاقَهُ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے رات کو کشمش کی نبیذ تیار کی جاتی، وہ مشکیزے میں رکھی جاتی پھر آپ اسے اس دن، دوسرے دن اور اس کے بعد کے (تیسرے) دن پیتے، جب تیسرے دن کا آخری وقت ہوتا تو آپ اسے (کسی کو) پلاتے یا خود پی لیتے اور صبح تک کچھ باقی رہ جاتی تو اسے بہا دیتے۔
(موقوف) اخبرنا سويد , قال: انبانا عبد الله , عن عبيد الله , عن نافع , عن ابن عمر:" انه كان ينبذ له في سقاء الزبيب غدوة فيشربه من الليل وينبذ له عشية فيشربه غدوة , وكان يغسل الاسقية ولا يجعل فيها درديا ولا شيئا" , قال نافع: فكنا نشربه مثل العسل. (موقوف) أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ , قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ , عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ , عَنْ نَافِعٍ , عَنْ ابْنِ عُمَرَ:" أَنَّهُ كَانَ يُنْبَذُ لَهُ فِي سِقَاءٍ الزَّبِيبُ غُدْوَةً فَيَشْرَبُهُ مِنَ اللَّيْلِ وَيُنْبَذُ لَهُ عَشِيَّةً فَيَشْرَبُهُ غُدْوَةً , وَكَانَ يَغْسِلُ الْأَسْقِيَةَ وَلَا يَجْعَلُ فِيهَا دُرْدِيًّا وَلَا شَيْئًا" , قَالَ نَافِعٌ: فَكُنَّا نَشْرَبُهُ مِثْلَ الْعَسَلِ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ان کے لیے مشکیزے میں کشمش صبح کو بھگوئی جاتی، پھر وہ اسے رات کو پیتے اور شام کو بھگوئی جاتی تو صبح کو پیتے، اور وہ مشکیزے کو دھو لیتے تھے، اور معمولی سا تل چھٹ وغیرہ نہیں رہنے دیتے۔ نافع کہتے ہیں: ہم اسے شہد کی طرح پیتے تھے۔
(مقطوع) اخبرنا سويد , قال: انبانا عبد الله , عن بسام , قال: سالت ابا جعفر عن النبيذ؟ قال: كان علي بن حسين رضي الله عنه" ينبذ له من الليل فيشربه غدوة وينبذ له غدوة فيشربه من الليل". (مقطوع) أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ , قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ , عَنْ بَسَّامٍ , قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا جَعْفَرٍ عَنِ النَّبِيذِ؟ قَالَ: كَانَ عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ" يُنْبَذُ لَهُ مِنَ اللَّيْلِ فَيَشْرَبُهُ غُدْوَةً وَيُنْبَذُ لَهُ غُدْوَةً فَيَشْرَبُهُ مِنَ اللَّيْلِ".
بسام کہتے ہیں کہ میں نے ابو جعفر سے نبیذ کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے کہا: علی بن حسین کے لیے رات کو نبیذ تیار کی جاتی تو وہ صبح کو پیتے، اور صبح کو تیار کی جاتی تو رات کو پیتے۔
(موقوف) اخبرنا سويد , قال: انبانا عبد الله , عن سليمان التيمي , عن ابي عثمان وليس بالنهدي , ان ام الفضل ارسلت إلى انس بن مالك تساله عن نبيذ الجر؟ , فحدثها , عن النضر ابنه:" انه كان ينبذ في جر ينبذ غدوة ويشربه عشية". (موقوف) أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ , قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ , عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ , عَنْ أَبِي عُثْمَانَ وَلَيْسَ بِالنَّهْدِيِّ , أَنَّ أُمَّ الْفَضْلِ أَرْسَلَتْ إِلَى أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ تَسْأَلُهُ عَنْ نَبِيذِ الْجَرِّ؟ , فَحَدَّثَهَا , عَنْ النَّضْرِ ابْنِهِ:" أَنَّهُ كَانَ يَنْبِذُ فِي جَرٍّ يُنْبَذُ غَدْوَةً وَيَشْرَبُهُ عَشِيَّةً".
ابوعثمان (جو ابوعثمان نہدی نہیں ہیں) سے روایت ہے کہ ام الفضل نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے گھڑے کی نبیذ کے بارے میں مسئلہ پوچھوایا۔ تو انہوں نے اپنے بیٹے نضر کے واسطہ سے ان کو بتایا کہ وہ گھڑے میں نبیذ تیار کرتے تھے، اور صبح کو نبیذ تیار کرتے اور شام کو پیتے۔
(مقطوع) اخبرنا سويد , قال: انبانا عبد الله , عن شعبة , عن قتادة , عن سعيد بن المسيب , قال:" إنما سميت الخمر لانها تركت حتى مضى صفوها وبقي كدرها , وكان يكره كل شيء ينبذ على عكر". (مقطوع) أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ , قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ , عَنْ شُعْبَةَ , عَنْ قَتَادَةَ , عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ , قَالَ:" إِنَّمَا سُمِّيَتِ الْخَمْرُ لِأَنَّهَا تُرِكَتْ حَتَّى مَضَى صَفْوُهَا وَبَقِيَ كَدَرُهَا , وَكَانَ يَكْرَهُ كُلَّ شَيْءٍ يُنْبَذُ عَلَى عَكَرٍ".
سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ خمر کا نام خمر اس لیے پڑا کہ وہ کچھ دیر رکھ چھوڑا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ نتھر کر بالکل صاف ہو جاتا ہے، اور نیچے تل چھٹ بیٹھ جاتی ہے، اور وہ ہر اس نبیذ کو مکروہ سمجھتے تھے جس میں تل چھٹ ملا دی گئی ہو۔