كتاب الأشربة کتاب: مشروبات (پینے والی چیزوں) کے احکام و مسائل 44. بَابُ: ذِكْرِ الآثَامِ الْمُتَوَلِّدَةِ عَنْ شُرْبِ الْخَمْرِ باب: شراب پینے کی وجہ سے ہونے والے گناہ جیسے ترک صلاۃ، اللہ کی طرف حرام کردہ قتل ناحق اور محرم سے زنا کاری وغیرہ کا ذکر۔
عبدالرحمٰن بن حارث کہتے ہیں کہ میں نے عثمان رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا: شراب سے بچو، کیونکہ یہ برائیوں کی جڑ ہے، تم سے پہلے زمانے کے لوگوں میں ایک شخص تھا جو بہت عبادت گزار تھا، اسے ایک بدکار عورت نے پھانس لیا، اس نے اس کے پاس ایک لونڈی بھیجی اور اس سے کہلا بھیجا کہ ہم تمہیں گواہی دینے کے لیے بلا رہے ہیں، چنانچہ وہ اس کی لونڈی کے ساتھ گیا، وہ جب ایک دروازے میں داخل ہو جاتا (لونڈی) اسے بند کرنا شروع کر دیتی یہاں تک کہ وہ ایک حسین و جمیل عورت کے پاس پہنچا، اس کے پاس ایک لڑکا تھا اور شراب کا ایک برتن، وہ بولی: اللہ کی قسم! میں نے تمہیں گواہی کے لیے نہیں بلایا ہے، بلکہ اس لیے بلایا ہے کہ تم مجھ سے صحبت کرو، یا پھر ایک گلاس یہ شراب پیو، یا اس لڑکے کو قتل کر دو، وہ بولا: مجھے ایک گلاس شراب پلا دو، چنانچہ اس نے ایک گلاس پلائی، وہ بولا: اور دو، اور وہ وہاں سے نہیں ہٹا یہاں تک کہ اس عورت سے صحبت کر لی اور اس بچے کا خون بھی کر دیا، لہٰذا تم لوگ شراب سے بچو، اللہ کی قسم! ایمان اور شراب کا ہمیشہ پینا، دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتے، البتہ ان میں سے ایک دوسرے کو نکال دے گا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 9822) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح موقوف
عبدالرحمٰن بن حارث کہتے ہیں کہ میں نے عثمان رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا: شراب سے بچو، کیونکہ یہ برائیوں کی جڑ ہے، تم سے پہلے زمانے کے لوگوں میں ایک شخص تھا جو بہت عبادت گزار تھا اور لوگوں سے الگ رہتا تھا، پھر اسی طرح ذکر کیا۔ وہ کہتے ہیں: لہٰذا تم شراب سے بچو، اس لیے کہ اللہ کی قسم وہ (یعنی شراب نوشی) اور ایمان کبھی اکٹھا نہیں ہو سکتے۔ البتہ ان میں سے ایک دوسرے کو نکال دے گا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی اگر بغیر توبہ کے مر گیا، اور اگر توبہ کر لے گا تو ایمان شراب کے اثر کو نکال دے گا ان شاء اللہ۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جس نے شراب پی اور اسے نشہ (گرچہ) نہیں ہوا، جب تک اس کا ایک قطرہ بھی اس کے پیٹ یا اس کی رگوں میں باقی رہے گا ۱؎ اس کی کوئی نماز قبول نہیں ہو گی، اور اگر وہ مر گیا تو کافر کی موت مرے گا ۲؎، اور اگر اسے نشہ ہو گیا تو اس کی نماز چالیس دن تک قبول نہیں ہو گی، اور اگر وہ اسی حالت میں مر گیا تو وہ کافر کی موت مرے گا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 7401) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: کیونکہ شراب کا ایک قطرہ بھی (جو نشہ پیدا نہیں کرتا) حرام ہے، ارشاد نبوی ہے ”جس مشروب کا زیادہ حصہ نشہ پیدا کرے اس کا تھوڑا سا حصہ بھی حرام ہے۔“ ۲؎: جیسے کفر کے ساتھ نماز مقبول نہیں اسی طرح شراب کے پیٹ میں موجود ہونے سے نماز قبول نہیں ہو گی، تو اس حالت میں موت کافر کی موت ہوئی کیونکہ بے نماز نہ پڑھنے والا کافر ہے، جیسا کہ محققین علما کا فتوی ہے۔ «خالفه يزيد بن أبي زياد» سابقہ روایت میں «يزيد بن أبي زياد» نے فضیل سے اختلاف کیا قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے شراب پی اور پیٹ میں اسے اتار لی، اللہ اس کی سات دن کی نماز قبول نہیں کرے گا، اگر وہ اس دوران میں مر گیا، تو وہ کفر کی حالت میں مرے گا، اور اگر اس کی عقل چلی گئی اور کوئی فرض چھوٹ گیا (ابن آدم نے کہا: قرآن چھوٹ گیا)، تو اس کی چالیس دن کی نماز قبول نہیں ہو گی اور اگر وہ اس دوران میں مر گیا، تو کفر کی حالت میں مرے گا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 8921) (ضعیف) (اس کے راوی ’’یزید‘‘ ضعیف ہیں)»
وضاحت: ۱؎: یعنی یزید بن زیاد کی روایت فضیل کی حدیث سے متن اور سند دونوں اعتبار سے مختلف ہے، چنانچہ فضیل کی حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہما پر موقوف ہے جب کہ یزید کی عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کی روایت سے مرفوع ہے، لیکن یزید ضعیف راوی ہیں اس لیے اس حدیث کا موقوف ہونا ہی صواب ہے۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف
|