كتاب التجارات کتاب: تجارت کے احکام و مسائل 58. بَابُ: التَّغْلِيظِ فِي الرِّبَا باب: حرمت سود میں وارد وعید کا بیان۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”معراج کی رات میں کچھ لوگوں کے پاس سے گزرا جن کے پیٹ مکانوں کے مانند تھے، ان میں باہر سے سانپ دکھائی دیتے تھے، میں نے کہا: جبرائیل! یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا: یہ سود خور ہیں“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 15443، ومصباح الزجاجة: 798)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/353، 363) (ضعیف)» (سند میں علی بن زید بن جدعان ضعیف ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سود ستر گناہوں کے برابر ہے جن میں سے سب سے چھوٹا گناہ یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے نکاح کرے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 13073، ومصباح الزجاجة: 799) (صحیح)» (سند میں ابومعشر نجیح بن عبد الرحمن سندی ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بناء پرحدیث صحیح ہے)
وضاحت: ۱؎: ستر کی تعداد سے مراد گنا ہ کی زیادتی اور اس فعل کی شناعت و قباحت کا اظہار ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سود کے تہتر دروازے ہیں“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 9561، ومصباح الزجاجة: 800) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آخری آیت جو نازل ہوئی، وہ سود کی حرمت والی آیت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تفسیر ہم سے بیان نہیں کی، لہٰذا سود کو چھوڑ دو، اور جس میں سود کا شبہ ہو اسے بھی ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10454)، وقد أخرجہ: (حم (1/36، 49) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اگرچہ سود کی آیت کے بعد اور کئی آیتیں اتریں، لیکن اس کو آخری اس اعتبار سے کہا کہ معاملات کے باب میں اس کے بعد کوئی آیت نہیں اتری، مقصد یہ ہے کہ سود کی آیت منسوخ نہیں ہے، اس کا حکم قیامت تک باقی ہے، اور نبی کریم ﷺ نے اس کی تفسیر نہیں کی یعنی جیسا چاہئے ویسا کھول کر سود کا مسئلہ بیان نہیں کیا، چھ چیزوں کا بیان کر دیا کہ ان میں سود ہے: سونا، چاندی، گیہوں، جو، نمک، اور کھجور، اور چیزوں کا بیان نہیں کیا کہ ان میں سود ہوتا ہے یا نہیں، لیکن مجتہدین نے اپنے اپنے قیاس کے موافق دوسری چیزوں میں بھی سود قرار دیا، اب جن چیزوں کو نبی کریم ﷺ نے بیان کر دیا ان میں تو سود کی حرمت قطعی ہے، کسی مسلمان کو اس کے پاس پھٹکنا نہ چاہئے، رہیں اور چیزیں جن میں اختلاف ہے تو تقوی یہ ہے کہ ان میں بھی سود کا پرہیز کرے، لیکن اگر کوئی اس میں مبتلا ہو جائے تو اللہ سے استغفار کرے اور حتی المقدور دوبارہ احتیاط رکھے، اور یہ زمانہ ایسا ہے کہ اکثر لوگ سود کھانے سے بچتے ہیں تو دینے میں گرفتار ہوتے ہیں، حالانکہ دونوں کا گناہ برابر ہے، اللہ ہی اپنے بندوں کو بچائے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کے کھانے والے پر، کھلانے والے پر، اس کی گواہی دینے والے پر، اور اس کا حساب لکھنے والے پر لعنت بھیجی ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/البیوع 4 (3333)، سنن الترمذی/البیوع 2 (1206)، (تحفة الأشراف: 9356)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/المساقاة 19 (1597)، سنن النسائی/الطلاق 13 (3445)، مسند احمد (1/393، 394، 402، 453) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یقیناً لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ کوئی ایسا نہ بچے گا جس نے سود نہ کھایا ہو، جو نہیں کھائے گا اسے بھی اس کا غبار لگ جائے گا“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/البیوع 3 (3331)، سنن النسائی/البیوع 2 (4460)، (تحفة الأشراف: 12241)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/494) (ضعیف)» (سعید بن أبی خیرہ مقبول راوی ہیں، یعنی متابعت کی موجود گی میں، اور متابع کوئی نہیں ہے، اس لئے لین الحدیث ہیں، یعنی کمزوری اور ضعیف ہیں، حسن بصری کا سماع ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے بھی سود سے مال بڑھایا، اس کا انجام یہ ہوتا ہے کہ اس کا مال گھٹ جاتا ہے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 9203، ومصباح الزجاجة: 802)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/395، 424) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: سودی کاروبار کرنے والا اپنا مال بڑھانے کے لئے زیادہ سود لیتا ہے، لیکن غیب سے ایسی آفتیں اترتی ہیں کہ مال میں برکت نہیں رہتی، سب تباہ و برباد ہو جاتا ہے، اور آدمی مفلس بن جاتا ہے۔ اس امر کا تجربہ ہو چکا ہے، مسلمان کو کبھی سودی کاروبار سے ترقی نہیں ہوتی، البتہ کفار و مشرکین کا مال سود سے بڑھتا ہے، وہ کافر ہیں ان کو سود کی حرمت سے کیا غرض، ان کو تو پہلے ایمان لانے کا حکم ہے۔ اورچونکہ ان کی آخرت تباہ کن ہے، اس لیے دنیا میں ان کو ڈھیل دے دی گئی ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
|