كتاب التجارات کتاب: تجارت کے احکام و مسائل 41. بَابُ: مَا يُرْجَى مِنَ الْبَرَكَةِ فِي الْبُكُورِ باب: صبح کے وقت میں برکت متوقع ہونے کا بیان۔
صخر غامدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! میری امت کے لیے صبح کے وقت میں برکت عطا فرما“ اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی سریہ یا لشکر روانہ کرنا ہوتا تو اسے دن کے ابتدائی حصہ ہی میں روانہ فرماتے ۱؎۔ راوی کہتے ہیں: غامدی صخر تاجر تھے، وہ اپنا مال تجارت صبح سویرے ہی بھیجتے تھے بالآخر وہ مالدار ہو گئے، اور ان کی دولت بڑھ گئی۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الجھاد 85 (2606)، سنن الترمذی/البیوع 6 (1212)، (تحفة الأشراف: 4852)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/416، 417، 432، 4/384، 390)، سنن الدارمی/السیر 1 (2479) (صحیح)» (حدیث کا پہلا ٹکڑا «اللَّهُمَّ بَارِكْ لأُمَّتِي فِي بُكُورِهَا» شواہد کی وجہ سے صحیح ہے، اور سند میں عمارہ بن حدید کی توثیق صرف ابن حبان نے کی ہے، جو مجاہیل کی توثیق کرتے ہیں، اور ابن حجر نے مجہول کہا ہے، حدیث کے دوسرے ٹکڑے کو البانی صاحب نے سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: (4178) میں شاہد نہ ملنے کی وجہ سے ضعیف کہا ہے، جب کہ سنن ابی داود میں پوری حدیث کو صحیح کہا ہے، لیکن سنن ابن ماجہ میں تفصیل بیان کر دی ہے، نیز اس حدیث کو امام ترمذی نے حسن کہا ہے)۔
وضاحت: ۱؎: سویرے سے مراد یہ ہے کہ صبح کی نماز کے بعد شروع دن میں کرے، یہ وقت برکت کا ہے، جو کام اس وقت کرے گا امید ہے کہ اس میں برکت ہو گی۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! میری امت کو جمعرات کی صبح کے وقت میں برکت عطا فرما“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 13791، ومصباح الزجاجة: 788) (ضعیف)» (ابومروان بعض منکر احادیث روایت کرنے کی وجہ سے ضعیف راوی ہیں، نیز عبدالرحمٰن بن أبی الزناد مضطرب الحدیث ہیں، «يَوْمَ الْخَمِيسِ» کی زیادتی اس حدیث میں منکر ہے، جس کی زیادتی ضعیف راوی نے کی ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! میری امت کے لیے صبح کے وقت میں برکت عطا فرما“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجة، (تحفة الأشراف: 7754) (صحیح)» (سند میں عبد الرحمن بن أبی بکر ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی وجہ سے حدیث صحیح ہے)
قال الشيخ الألباني: صحيح
|