كتاب التجارات کتاب: تجارت کے احکام و مسائل 20. بَابُ: النَّهْيِ عَنْ بَيْعِ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ وَعَنْ رِبْحِ مَا لَمْ يُضْمَنْ باب: جو چیز پاس میں نہ ہو اس کا بیچنا اور جس چیز کا ضامن نہ ہو اس میں نفع لینا منع ہے۔
حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: اللہ کے رسول! ایک آدمی مجھ سے ایک چیز خریدنا چاہتا ہے، اور وہ میرے پاس نہیں ہے، کیا میں اس کو بیچ دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو چیز تمہارے پاس نہیں ہے اس کو نہ بیچو“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/البیوع 70 (3503)، سنن الترمذی/البیوع 19 (1232، 1233)، سنن النسائی/البیوع 58 (4617)، (تحفة الأشراف: 3436)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/402، 434) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو چیز تمہارے پاس نہ ہو اس کا بیچنا جائز نہیں، اور نہ اس چیز کا نفع جائز ہے جس کے تم ضامن نہیں“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/البیوع 70 (3504)، سنن الترمذی/البیوع 19 (1234)، سنن النسائی/البیوع 58 (4615)، (تحفة الأشراف: 8664)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/174، 178، 205)، سنن الدارمی/البیوع 26 (2602) (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی اگر وہ چیز برباد ہو جائے تو تمہارا کچھ نقصان نہ ہو، ایسی چیز کا نفع اٹھانا بھی جائز نہیں، یہ شرع کا ایک عام مسئلہ ہے کہ نفع ہمیشہ ضمانت کے ساتھ ملتا ہے، جو شخص کسی چیز کا ضامن ہو وہی اس کے نفع کا مستحق ہے، اور اس کی مثال یہ ہے کہ ابھی خریدار نے بیع پر قبضہ نہیں کیا اور وہ چیز خریدنے والے کی ضمانت میں داخل نہیں ہوئی، اب خریدنے والا اگر اس کو قبضے سے پہلے کسی اور کے ہاتھ بیچ ڈالے اور نفع کمائے، تو بیع جائز اور صحیح نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
عتاب بن اسید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو مکہ بھیجا، تو اس چیز کے نفع سے منع کیا جس کے وہ ضامن نہ ہوں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 9749) (صحیح)» (سند میں لیث بن ابی سلیم ضعیف راوی ہیں، اور عطاء کی ملاقات عتاب رضی اللہ عنہ سے نہیں ہے، لیکن شواہد کی وجہ سے حدیث صحیح ہے، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 1212)
قال الشيخ الألباني: صحيح
|