كتاب التجارات کتاب: تجارت کے احکام و مسائل 59. بَابُ: السَّلَفِ فِي كَيْلٍ مَعْلُومٍ وَوَزْنٍ مَعْلُومٍ إِلَى أَجَلٍ مَعْلُومٍ باب: متعین ناپ تول میں ایک مقررہ مدت کے وعدے پر بیع سلف کرنے کا بیان۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے، اس وقت اہل مدینہ دو سال اور تین سال کی قیمت پہلے ادا کر کے کھجور کی بیع سلف کیا کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کھجور میں بیع سلف کرے یعنی قیمت پیشگی ادا کر دے تو اسے چاہیئے کہ یہ بیع متعین ناپ تول اور مقررہ میعاد پر کرے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/السلم 1 (2239)، 2 (2240، 2241)، 7 (2253)، صحیح مسلم/المساقاہ 25 (1604)، سنن ابی داود/البیوع 57 (3463)، سنن الترمذی/البیوع 70 (1311)، سنن النسائی/البیوع 61 (4620)، (تحفة الأشراف: 5820)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/217، 222، 282، 358)، سنن الدارمی/البیوع 45 (2625) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: بیع سلف اور سلم دونوں ایک ہیں یعنی ایک آدمی دوسرے آدمی کو روپیہ نقد دے، لیکن مال لینے کے لئے ایک میعاد مقرر کر لے، اہل حدیث کے نزدیک اس میں دو ہی شرطیں ہیں: ایک یہ کہ جس مال کے لینے پر اتفاق ہوا ہے اس کی کیفیت،جنس اور نوع واضح طور پر بیان کر دے، اگر ناپ تول کی چیز ہو تو ناپ تول صراحت سے مقرر کر دی جائے، مثلاً سو من گیہوں سفید اعلیٰ قسم کا، فلاں کپڑا اس قسم کے اتنے گز اور میٹر، دوسرے یہ کہ مال کے لینے کی میعاد مقرر ہو، مثلاً ایک مہینہ، دو مہینہ، ایک سال۔اگر ان شرطوں میں سے کوئی شرط نہ ہو تو بیع سلم فاسد ہوگی، کیونکہ اس میں نزاع کی صورت پیدا ہو گی، بعضوں نے اور شرطیں بھی رکھیں ہیں لیکن ان کی دلیل ذرا مشکل سے ملے گی، اور شاید نہ ملے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اور اس نے آ کر عرض کیا: فلاں قبیلہ کے یہودی مسلمان ہو گئے ہیں، اور وہ بھوک میں مبتلا ہیں، مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ مرتد نہ ہو جائیں، اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی کے پاس کچھ نقدی ہے“ (کہ وہ ہم سے بیع سلم کرے)؟ ایک یہودی نے کہا: میرے پاس اتنا اور اتنا ہے، اس نے کچھ رقم کا نام لیا، میرا خیال ہے کہ اس نے کہا: میرے پاس تین سو دینار ہیں، اس کے بدلے میں بنی فلاں کے باغ اور کھیت سے اس اس قیمت سے غلہ لوں گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیمت اور مدت کی تعیین تو منظور ہے لیکن فلاں کے باغ اور کھیت کی جو شرط تم نے لگائی ہے وہ منظور نہیں“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5329، ومصباح الزجاجة: 803) (ضعیف)» (سند میں ولید بن مسلم مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے)
وضاحت: ۱؎: کیونکہ احتمال ہے کہ اس باغ یا کھیت میں کچھ نہ ہو یا وہاں کا غلہ تباہ ہو جائے تو یہ شرط لغو اور بیکار ہے، البتہ یہ شرط قبول ہے کہ اس بھاؤ سے اتنے کا غلہ فلاں وقت اور تاریخ پر دے دیں گے۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف
عبداللہ بن ابی مجالد کہتے ہیں کہ عبداللہ بن شداد اور ابوبرزہ رضی اللہ عنہما کے درمیان بیع سلم کے سلسلہ میں جھگڑا ہو گیا، انہوں نے مجھے عبداللہ ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا، میں نے جا کر ان سے اس کے سلسلے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں اور ابوبکرو عمر رضی اللہ عنہما کے عہد میں گیہوں، جو، کشمش اور کھجور میں ایسے لوگوں سے بیع سلم کرتے تھے جن کے پاس اس وقت مال نہ ہوتا، پھر میں نے ابن ابزیٰ رضی اللہ عنہ سے سوال کیا، تو انہوں نے بھی ایسے ہی کہا۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/السلم 2 (2242)، 3 (2244)، 7 (2254، 2255) بلفظ: ''ما کنا نسألھم'' مکان ''ماعندھم ''، سنن ابی داود/البیوع 57 (3464، 3465)، سنن النسائی/البیوع 59 (4618)، 60 (4619)، (تحفة الأشراف: 5171)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/354، 380) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح خ بلفظ ما كنا نسألهم مكان ما عندهم
|