عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آخری آیت جو نازل ہوئی، وہ سود کی حرمت والی آیت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تفسیر ہم سے بیان نہیں کی، لہٰذا سود کو چھوڑ دو، اور جس میں سود کا شبہ ہو اسے بھی ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اگرچہ سود کی آیت کے بعد اور کئی آیتیں اتریں، لیکن اس کو آخری اس اعتبار سے کہا کہ معاملات کے باب میں اس کے بعد کوئی آیت نہیں اتری، مقصد یہ ہے کہ سود کی آیت منسوخ نہیں ہے، اس کا حکم قیامت تک باقی ہے، اور نبی کریم ﷺ نے اس کی تفسیر نہیں کی یعنی جیسا چاہئے ویسا کھول کر سود کا مسئلہ بیان نہیں کیا، چھ چیزوں کا بیان کر دیا کہ ان میں سود ہے: سونا، چاندی، گیہوں، جو، نمک، اور کھجور، اور چیزوں کا بیان نہیں کیا کہ ان میں سود ہوتا ہے یا نہیں، لیکن مجتہدین نے اپنے اپنے قیاس کے موافق دوسری چیزوں میں بھی سود قرار دیا، اب جن چیزوں کو نبی کریم ﷺ نے بیان کر دیا ان میں تو سود کی حرمت قطعی ہے، کسی مسلمان کو اس کے پاس پھٹکنا نہ چاہئے، رہیں اور چیزیں جن میں اختلاف ہے تو تقوی یہ ہے کہ ان میں بھی سود کا پرہیز کرے، لیکن اگر کوئی اس میں مبتلا ہو جائے تو اللہ سے استغفار کرے اور حتی المقدور دوبارہ احتیاط رکھے، اور یہ زمانہ ایسا ہے کہ اکثر لوگ سود کھانے سے بچتے ہیں تو دینے میں گرفتار ہوتے ہیں، حالانکہ دونوں کا گناہ برابر ہے، اللہ ہی اپنے بندوں کو بچائے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10454)، وقد أخرجہ: (حم (1/36، 49) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف قتادة عنعن وله طريق آخر عند الإسماعيلي كما في مسند الفاروق (571/2) وإسناده ضعيف انوار الصحيفه، صفحه نمبر 460
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2276
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) حلال و حرام کے مسائل میں سود کےمسائل آخر میں نازل ہوئے۔
(2) رسول اللہ ﷺ نے سود کی تشریح فرمائی اور اس کی مختلف رائج صورتوں سے واضح طور پر منع فرما دیا، اس کے باوجود بعض صورتیں ایسی ہو سکتی ہیں جو بعد میں ایجاد ہوں اور علماء کو ان کےبارے میں قیاس کرنا پڑے اس لیے علماء کو ان معاملات کا باریک بینی سے جائزہ لے کر واضح فتویٰ جاری کرنا چاہیے۔
(3) جب کوئی تجارتی معاملہ ایسا ہو کہ اس کے جائز یا ناجائز ہونےمیں شک ہو تو اس سے پرہیز کرنا چاہیے جب تک علمائے کرام سے واضح رہنمائی نہ لے لی جائے۔
(4) تجارت کے علاوہ دوسرے معاملات میں بھی مشکوک کام سے اجتناب کرنا چاہیے۔
(5) مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے شواہد کی بنا پر صحیح اور حسن قرار دیا ہے نیز صحیح بخاری میں حضرت ابن عباس ؓ سے بھی مروی ہے کہ سب سے آخر میں سود کی آیت ہی نازل ہوئی۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4544) لہٰذا اس روایت سے اور اس کے ہم معنی دیگر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کےباوجود قابل حجت اور قابل عمل ہے۔ مزیدتفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعة الحديثة مسند الإمام أحمد: 1/ 361، وسنن ابن ماجة بتحقيق الدكتور بشار عواد، رقم: 2276)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2276