ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سود ستر گناہوں کے برابر ہے جن میں سے سب سے چھوٹا گناہ یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے نکاح کرے ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: ستر کی تعداد سے مراد گنا ہ کی زیادتی اور اس فعل کی شناعت و قباحت کا اظہار ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 13073، ومصباح الزجاجة: 799) (صحیح)» (سند میں ابومعشر نجیح بن عبد الرحمن سندی ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بناء پرحدیث صحیح ہے)
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف وقال البوصيري: ”ھذا إسناد ضعيف،أبو معشر ھو نجيح بن عبد الرحمٰن متفق علي تضعيفه“ و للحديث شواھد ضعيفة عند ابن الجارود (647) و الحاكم (2/ 37) وغيرهما انوار الصحيفه، صفحه نمبر 460
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2274
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) سود کسی بھی معاشرے کی تباہی کے لیے بہت بڑا سبب ہے اور اس کے معاشی اور معاشرتی نقصانات کے بے شمار پہلو ہیں، اس لیے فرمایا گیا کہ یہ گناہ اکیلا ہی ستر گناہوں کے برابر ہے۔ اور گناہ بھی قسم قسم کے۔
(2) زنا کبیرہ گناہ ہے اور اس کی شناعت ہر دور کے مہذب معاشروں میں مسلم رہی ہے اسی طرح محرم خواتین خصوصاً ماں اور بہن کا احترام ہر مہذب معاشرے میں تسلیم کیا جاتا ہے لہٰذا ماں سے جنسی تعلق قائم کرنا اتنا برا کام ہے جس سے زیادہ قابل نفرت گناہ کا تصور نہیں کیا جا سکتا، لیکن سود اس سے بھی زیادہ برا اور قابل نفرت جرم ہے۔
(3) سب سے ہلکا گناہ اتنا برا اور قابل نفرت ہے تو دوسرے انہتر قسم کے گناہوں کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کتنے برے ہوں گے۔
(4) اسلامی معاشرے میں سب سے نمایاں وصف ہمدردی اور خیر خواہی ہے جب کہ سود اس کے بالکل برعکس ہے۔ ضرورت اس بات کی ہےکہ اگر مقروض قرض ادا کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اسے اصل قرض بھی معاف کر دیا جائے، لیکن سود خور اصل قرض معاف کرنے کے بجائے سود چھوڑنے کے لیے بھی تیار نہیں، مقروض اگر قرض کے ذریعے سے مطلوبہ فائدہ حاصل نہ بھی کر سکے، مثلاً: قرض لے کر تجارت کرے تو اسے خواہ نفع نہ بھی ہو، سود خور اپنا سود وصول کرنے کو حاضر ہو جاتا ہے حالانکہ اس صورت میں مقروض اس بات کا مستحق ہے کہ اس کی مدد کی جائے، نہ کہ اسے مزید پریشان کیا جائے، اس لیے اسلامی معاشرے میں سود کی کوئی گنجائش نہیں بلکہ قرآن کی روشنی میں ایسا معاشرہ اسلام دشمن معاشرہ ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2274