كتاب التجارات کتاب: تجارت کے احکام و مسائل 27. بَابُ: مَنْ كَرِهَ أَنْ يُسَعِّرَ باب: قیمت مقرر کرنے کی کراہت کا بیان۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ایک دفعہ قیمتیں چڑھ گئیں، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمارے لیے ایک نرخ (بھاؤ) مقرر کر دیجئیے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ ہی نرخ مقرر کرنے والا ہے، کبھی کم کر دیتا ہے اور کبھی زیادہ کر دیتا ہے، وہی روزی دینے والا ہے، اور مجھے امید ہے کہ میں اپنے رب سے اس حال میں ملوں کہ کوئی مجھ سے جان یا مال میں کسی ظلم کا مطالبہ کرنے والا نہ ہو“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/البیوع 51 (3451)، سنن الترمذی/البیوع 73 (1314)، (تحفة الأشراف: 318، 614، 1158)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/156)، سنن الدارمی/البیوع 13 (2587) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی نہ مالی نہ جانی کسی طرح کا ظلم میں نے کسی پر نہ کیا ہو، حدیث میں اشارہ ہے کہ نرخ مقرر کرنا یعنی قیمتوں پر کنٹرول کرنا بیوپاریوں پر اور غلہ کے تاجروں پر ایک مالی ظلم ہے، یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے اس سے بچنے کی آرزو کی۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں مہنگائی بڑھ گئی، تو لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر آپ نرخ مقرر کر دیں تو اچھا رہے گا! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری خواہش ہے کہ میں تم سے اس حال میں جدا ہوں کہ کوئی مجھ سے کسی زیادتی کا جو میں نے اس پر کی ہو مطالبہ کرنے والا نہ ہو“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 438، ومصباح الزجاجة: 774)، مسند احمد (3/85) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: نبی کریم ﷺکے عہد مبارک میں غذائی اجناس کی قیمتیں بڑھ گئی تھیں شاید اس کا سبب قحط سالی اور بارش کا نہ برسنا تھا، یا مدینہ اور شام کے درمیان راستے کا خراب ہونا جہاں سے مدینہ منورہ کو غلہ آتا تھا، لوگوں نے رسول اکرم ﷺ سے قیمتوں اور منافع پر کنٹرول کی گزارش کی تو نبی کریم ﷺ نے اس معاملے کو اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹا دیا کہ وہی رزاق ہے اور اسی کے ہاتھ میں روزی کو کم اور زیادہ کرنا ہے، رسول اکرم ﷺ نے نرخ پر کنٹرول اس خیال سے نہ کیا کہ اس سے خواہ مخواہ کہیں لوگ ظلم و زیادتی کا شکار نہ ہو جائیں، لیکن حاکم وقت لوگوں کی خدمت کے لیے عادلانہ اور منصفانہ نرخ پر کنٹرول کا اقدام کر سکتا ہے، عام مصلحت کے پیش نظر علماء اسلام نے اس کی اجازت دی ہے، امام ابن القیم فرماتے ہیں کہ نرخ کے کنٹرول میں بعض چیزیں حرام کے قبیل سے ہیں، اور بعض چیزیں انصاف پر مبنی اور جائز ہیں، قیمتوں پر کنٹرول سے اگر لوگ ظلم کا شکار ہوں یا ناحق ان کو ایسی بیع پر مجبور کیا جائے، جو ان کے یہاں غیر پسندیدہ ہو یا ان کو مباح چیزوں سے روکنے والی ہو تو ایسا کنٹرول حرام ہے، اور لوگوں کے درمیان عدل و انصاف کا ضامن کنٹرول جیسے لوگوں کو اس بات پر مجبور کرنا کہ وہ وہی قیمت لیں جس کے وہ حقیقی طور پر حقدار ہیں، اور ان کو اس حقیقی قیمت سے زیادہ لینے سے روک دے جو ان کے لیے لینا حرام ہے، تو ایسا کنٹرول جائز ہی نہیں بلکہ واجب ہے، خلاصہ کلام یہ کہ اگر لوگوں کی مصلحتیں قیمتوں پر کنٹرول کے بغیر نہ پوری ہو رہی ہوں تو منصفانہ طور پر ان کی قیمتوں کی تحدید کر دینی چاہئے اور اگر اس کی ضرورت نہ ہو اور اس کے بغیر کام چل رہا ہو تو قیمتوں پر کنٹرول نہ کرے۔ علامہ محمد بن ابراہیم آل الشیخ مفتی اکبر سعودی عرب فرماتے ہیں کہ ہم پر جو چیز واضح ہوئی اور جس پر ہمارے دلوں کو اطمینان ہے وہ وہی ہے جسے ابن القیم نے ذکر فرمایا ہے کہ قیمتوں کی تحدید میں سے بعض چیزیں ظلم ہیں، اور بعض چیزیں عدل و انصاف کے عین مطابق تو دوسری صورت جائز ہے، قیمتوں پر کنٹرول سے اگر لوگ ظلم کا شکار ہو رہے ہوں یا ناحق انہیں ایسی قیمت پر مجبور ہونا پڑے جس پر وہ راضی نہیں ہیں، یا اس سے وہ اللہ کی مباح کی ہوئی چیزوں سے روکے جا رہے ہوں تو ایسا کرنا حرام ہے، اور اگر قیمتوں پر کنٹرول سے لوگوں کے درمیان عدل کا تقاضا پورا ہو رہا ہے کہ حقیقی قیمت اور واجبی معاوضہ لینے پر ان کو مجبور کیا جا رہا ہو یا اس تدبیر سے ان کو اصلی قیمت سے زیادہ لینے سے روکا جا رہا ہو جس کا لینا ان کے لیے حرام ہے، تو یہ جائز ہی نہیں بلکہ واجب ہے، پس قیمتوں پر کنٹرول دو شرطوں کے ساتھ جائز ہے، پہلی شرط یہ ہے کہ ایسی چیزوں کی قیمتوں پر کنٹرول ہو جن کے محتاج سارے لوگ ہوں، دوسری شرط یہ ہے کہ مہنگائی کا سبب بازار میں سامان کا کم ہونا ہے یا طلب کا زیادہ ہونا، تو جس چیز میں یہ دونوں شرطیں پائی جائیں اس میں قیمتوں کی تحدید عدل و انصاف اور عام مصلحتوں کی رعایت کے قبیل سے ہے، جیسے گوشت، روٹی اور دواؤں وغیرہ کی قیمتوں پر کنٹرول۔ مجمع الفقہ الإسلامی مکہ مکرمہ نے تاجروں کے منافع کے کنٹرول سے متعلق (۱۴۰۹) ہجری کی ایک قرارداد میں یہ طے کیا کہ حاکم صرف اس وقت مارکیٹ اور چیزوں کے بھاؤ کے سلسلے میں دخل اندازی کرے جب مصنوعی اسباب کی وجہ سے ان چیزوں میں واضح خلل پائے، تو ایسی صورت میں حاکم کو چاہئے کہ وہ ممکنہ عادلانہ وسائل اختیار کر کے اس مسئلے میں دخل اندازی کرے اور بگاڑ، مہنگائی اور غبن فاحش کے اسباب کا خاتمہ کرے۔ (ملاحظہ ہو: توضیح الأحکام من بلوغ المرام، تالیف عبداللہ بن عبدالرحمن البسام، ۴/۳۲۹) قال الشيخ الألباني: صحيح
|