كتاب التجارات کتاب: تجارت کے احکام و مسائل 3. بَابُ: التَّوَقِّي فِي التِّجَارَةِ باب: تجارت میں احتیاط برتنے کا بیان۔
قیس بن ابی غرزہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں «سماسرہ» (دلال) کہے جاتے تھے، ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہمارے پاس سے گزر ہوا، تو آپ نے ہمارا ایک ایسا نام رکھا جو اس سے اچھا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے تاجروں کی جماعت! خرید و فروخت میں قسمیں اور لغو باتیں بھی ہوتی رہتی ہیں، تو تم اس میں صدقہ ملا دیا کرو“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/البیوع 1 (3326، 3327)، سنن الترمذی/البیوع 4 (1208)، سنن النسائی/الأیمان 21 (3828)، البیوع 7 (4468)، (تحفة الأشراف: 11103)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/6، 280) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
رفاعہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ اچانک کچھ لوگ صبح کے وقت خرید و فروخت کرتے نظر آئے، آپ نے ان کو پکارا: ”اے تاجروں کی جماعت!“ جب ان لوگوں نے اپنی نگاہیں اونچی اور گردنیں لمبی کر لیں ۱؎ تو آپ نے فرمایا: ”تاجر قیامت کے دن اس حال میں اٹھائے جائیں گے کہ وہ فاسق و فاجر ہوں گے، سوائے ان کے جو اللہ سے ڈریں، اور نیکوکار اور سچے ہوں“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/البیوع 4 (1210)، (تحفة الأشراف: 3607)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/البیوع 7 (2580) (صحیح)» (سند میں اسماعیل بن عبید ضعیف راوی ہے، لیکن اصل حدیث: «إن التجار يبعثون يوم القيامة فجارا» صحیح ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 1458)
وضاحت: ۱؎: نیک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں سے اچھا سلوک کرے،مفلس کو مہلت دے، بلکہ اگر ہو سکے تو معاف کر دے۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف
|