سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
کتاب سنن ابن ماجه تفصیلات

سنن ابن ماجه
کتاب: تجارت کے احکام و مسائل
The Chapters on Business Transactions
27. بَابُ : مَنْ كَرِهَ أَنْ يُسَعِّرَ
27. باب: قیمت مقرر کرنے کی کراہت کا بیان۔
Chapter: Whoever Does Not Like To Fix Prices
حدیث نمبر: 2201
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن زياد ، حدثنا عبد الاعلى ، حدثنا سعيد ، عن قتادة ، عن ابي نضرة ، عن ابي سعيد ، قال: غلا السعر على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالوا: لو قومت يا رسول الله، قال:" إني لارجو، ان افارقكم ولا يطلبني احد منكم بمظلمة ظلمته".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، قَالَ: غَلَا السِّعْرُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: لَوْ قَوَّمْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:" إِنِّي لَأَرْجُو، أَنْ أُفَارِقَكُمْ وَلَا يَطْلُبَنِي أَحَدٌ مِنْكُمْ بِمَظْلَمَةٍ ظَلَمْتُهُ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں مہنگائی بڑھ گئی، تو لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر آپ نرخ مقرر کر دیں تو اچھا رہے گا! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری خواہش ہے کہ میں تم سے اس حال میں جدا ہوں کہ کوئی مجھ سے کسی زیادتی کا جو میں نے اس پر کی ہو مطالبہ کرنے والا نہ ہو۔

وضاحت:
۱؎: نبی کریم ﷺکے عہد مبارک میں غذائی اجناس کی قیمتیں بڑھ گئی تھیں شاید اس کا سبب قحط سالی اور بارش کا نہ برسنا تھا، یا مدینہ اور شام کے درمیان راستے کا خراب ہونا جہاں سے مدینہ منورہ کو غلہ آتا تھا، لوگوں نے رسول اکرم ﷺ سے قیمتوں اور منافع پر کنٹرول کی گزارش کی تو نبی کریم ﷺ نے اس معاملے کو اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹا دیا کہ وہی رزاق ہے اور اسی کے ہاتھ میں روزی کو کم اور زیادہ کرنا ہے، رسول اکرم ﷺ نے نرخ پر کنٹرول اس خیال سے نہ کیا کہ اس سے خواہ مخواہ کہیں لوگ ظلم و زیادتی کا شکار نہ ہو جائیں، لیکن حاکم وقت لوگوں کی خدمت کے لیے عادلانہ اور منصفانہ نرخ پر کنٹرول کا اقدام کر سکتا ہے، عام مصلحت کے پیش نظر علماء اسلام نے اس کی اجازت دی ہے، امام ابن القیم فرماتے ہیں کہ نرخ کے کنٹرول میں بعض چیزیں حرام کے قبیل سے ہیں، اور بعض چیزیں انصاف پر مبنی اور جائز ہیں، قیمتوں پر کنٹرول سے اگر لوگ ظلم کا شکار ہوں یا ناحق ان کو ایسی بیع پر مجبور کیا جائے، جو ان کے یہاں غیر پسندیدہ ہو یا ان کو مباح چیزوں سے روکنے والی ہو تو ایسا کنٹرول حرام ہے، اور لوگوں کے درمیان عدل و انصاف کا ضامن کنٹرول جیسے لوگوں کو اس بات پر مجبور کرنا کہ وہ وہی قیمت لیں جس کے وہ حقیقی طور پر حقدار ہیں، اور ان کو اس حقیقی قیمت سے زیادہ لینے سے روک دے جو ان کے لیے لینا حرام ہے، تو ایسا کنٹرول جائز ہی نہیں بلکہ واجب ہے، خلاصہ کلام یہ کہ اگر لوگوں کی مصلحتیں قیمتوں پر کنٹرول کے بغیر نہ پوری ہو رہی ہوں تو منصفانہ طور پر ان کی قیمتوں کی تحدید کر دینی چاہئے اور اگر اس کی ضرورت نہ ہو اور اس کے بغیر کام چل رہا ہو تو قیمتوں پر کنٹرول نہ کرے۔ علامہ محمد بن ابراہیم آل الشیخ مفتی اکبر سعودی عرب فرماتے ہیں کہ ہم پر جو چیز واضح ہوئی اور جس پر ہمارے دلوں کو اطمینان ہے وہ وہی ہے جسے ابن القیم نے ذکر فرمایا ہے کہ قیمتوں کی تحدید میں سے بعض چیزیں ظلم ہیں، اور بعض چیزیں عدل و انصاف کے عین مطابق تو دوسری صورت جائز ہے، قیمتوں پر کنٹرول سے اگر لوگ ظلم کا شکار ہو رہے ہوں یا ناحق انہیں ایسی قیمت پر مجبور ہونا پڑے جس پر وہ راضی نہیں ہیں، یا اس سے وہ اللہ کی مباح کی ہوئی چیزوں سے روکے جا رہے ہوں تو ایسا کرنا حرام ہے، اور اگر قیمتوں پر کنٹرول سے لوگوں کے درمیان عدل کا تقاضا پورا ہو رہا ہے کہ حقیقی قیمت اور واجبی معاوضہ لینے پر ان کو مجبور کیا جا رہا ہو یا اس تدبیر سے ان کو اصلی قیمت سے زیادہ لینے سے روکا جا رہا ہو جس کا لینا ان کے لیے حرام ہے، تو یہ جائز ہی نہیں بلکہ واجب ہے، پس قیمتوں پر کنٹرول دو شرطوں کے ساتھ جائز ہے، پہلی شرط یہ ہے کہ ایسی چیزوں کی قیمتوں پر کنٹرول ہو جن کے محتاج سارے لوگ ہوں، دوسری شرط یہ ہے کہ مہنگائی کا سبب بازار میں سامان کا کم ہونا ہے یا طلب کا زیادہ ہونا، تو جس چیز میں یہ دونوں شرطیں پائی جائیں اس میں قیمتوں کی تحدید عدل و انصاف اور عام مصلحتوں کی رعایت کے قبیل سے ہے، جیسے گوشت، روٹی اور دواؤں وغیرہ کی قیمتوں پر کنٹرول۔ مجمع الفقہ الإسلامی مکہ مکرمہ نے تاجروں کے منافع کے کنٹرول سے متعلق (۱۴۰۹) ہجری کی ایک قرارداد میں یہ طے کیا کہ حاکم صرف اس وقت مارکیٹ اور چیزوں کے بھاؤ کے سلسلے میں دخل اندازی کرے جب مصنوعی اسباب کی وجہ سے ان چیزوں میں واضح خلل پائے، تو ایسی صورت میں حاکم کو چاہئے کہ وہ ممکنہ عادلانہ وسائل اختیار کر کے اس مسئلے میں دخل اندازی کرے اور بگاڑ، مہنگائی اور غبن فاحش کے اسباب کا خاتمہ کرے۔ (ملاحظہ ہو: توضیح الأحکام من بلوغ المرام، تالیف عبداللہ بن عبدالرحمن البسام، ۴/۳۲۹)

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 438، ومصباح الزجاجة: 774)، مسند احمد (3/85) (صحیح)» ‏‏‏‏

It was narrated that Abu Sa'eed said: "Prices rose at the time of the Messenger of Allah (ﷺ), and they said: 'Why do you not fix the food prices, O Messenger of Allah?' He said: 'I hope that when I leave you, no one among you will be demanding restitution for a wrong that I have done to him."'
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

   سنن ابن ماجه2201سعد بن مالكلو قومت قال إني لأرجو أن أفارقكم ولا يطلبني أحد منكم بمظلمة ظلمته

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 2201 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2201  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  تجارت کے معاملات طلب و رسد کے قوانین معیشت کے مطابق خود کار طریقے سے چلتے رہنا ملکی معیشت کے لیے مفید ہے۔
حکومت کو ان میں دخل اندازی سے اجتناب کرنا چاہیے۔

(2)
اگر تاجر ناجائز طور پر زیادہ منافع کے لالچ میں عوام کی ضروریات کا خیال نہ رکھیں تو حکومت سرکاری گوداموں سے سستا غلہ فراہم کرکے اس کا توڑ کر سکتی ہے۔

(3)
حکومت کو چاہیے کہ تاجروں کے حقوق کے ساتھ ساتھ عوام کی ضروریات کا بھی خیال رکھے۔
جب ایک علاقے میں ضروریات کی کسی چیز کی کمی ہو جائے تو دوسرے علاقے سے لا کر وہاں مہیا کی جائے۔

(4)
تاجروں کو چاہیے زیادہ نفع کے لالچ میں عوام پر ظلم نہ کریں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2201   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.