Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح مسلم
كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاة
مسجدوں اور نماز کی جگہ کے احکام
47. باب الرُّخْصَةِ فِي التَّخَلُّفِ عَنِ الْجَمَاعَةِ بِعُذْرٍ:
باب: عذر کے سبب سے جماعت کا معاف ہونا۔
حدیث نمبر: 1497
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍكِلَاهُمَا، عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَحْمُودُ بْنُ رَبِيعٍ ، عَنْ عِتْبَانَ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِمَعْنَى حَدِيثِ يُونُسَ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: فَقَالَ رَجُلٌ: أَيْنَ مَالِكُ بْنُ الدُّخْشُنِ، أَوِ الدُّخَيْشِنِ؟ وَزَادَ فِي الْحَدِيثِ، قَالَ مَحْمُودٌ: فَحَدَّثْتُ بِهَذَا الْحَدِيثِ، نَفَرًا فِيهِمْ أَبُو أَيُّوبَ الأَنْصَارِيُّ، فَقَالَ: مَا أَظُنُّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَا قُلْتَ؟ قَالَ: فَحَلَفْتُ إِنْ رَجَعْتُ إِلَى عِتْبَانَ أَنْ أَسْأَلَهُ، قَالَ: فَرَجَعْتُ إِلَيْهِ، فَوَجَدْتُهُ شَيْخًا كَبِيرًا قَدْ ذَهَبَ بَصَرُهُ، وَهُوَ إِمَامُ قَوْمِهِ، فَجَلَسْتُ إِلَى جَنْبِهِ، فَسَأَلْتُهُ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، فَحَدَّثَنِيهِ كَمَا حَدَّثَنِيهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ، قَالَ الزُّهْرِيُّ: ثُمَّ نَزَلَتْ بَعْدَ ذَلِكَ فَرَائِضُ وَأُمُورٌ، نَرَى أَنَّ الأَمْرَ انْتَهَى إِلَيْهَا، فَمَنِ اسْتَطَاعَ أَنْ لَا يَغْتَرَّ فَلَا يَغْتَرَّ.
معمر نے زہر ی سے روایت کی، کہا: مجھے محمود بن ربیع رضی اللہ عنہ نے عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ سے حدیث سنائی، کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا۔۔۔۔۔پھر یونس کی حدیث کے ہم معنی حدیث بیان کی، البتہ یہ کہا: تو ایک آدمی نے کہا: مالک بن دخشن یا دخیشن کہاں ہے؟ اور حدیث میں یہ اضافہ کیا: محمود رضی اللہ عنہ نے کہاں: میں نے یہ حدیث چند لوگوں کو، جن میں ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے، سنائی تو انھوں نے کہا: میں نہیں سمجھتا کہ جو بات تم بیان کرتے ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہو۔ اس پر میں نے (دل میں) قسم کھائی کہ اگر میں عتبان رضی اللہ عنہ کے ہاں دوبارہ گیا تو ان سے (اس کے بارے میں ضرور) پوچھوں گا۔ تو میں دوبارہ ان کے پاس آیا، میں نے دیکھا کہ وہ بہت بوڑھے ہو چکے ہیں، ان کی بینائی ختم ہو چکی تھی لیکن وہ (اب بھی) اپنی قوم کے امام تھے۔ میں ان کے پہلو میں بیٹھ گیا اور ان سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے مجھے بالکل اسی طرح (ساری) حدیث سنائی جس طرح پہلے سنائی تھی۔ زہری نے کہا: اس واقعے کے بعد بہت سے فرائض اور دیگر امور (احکام) نازل ہوئے اور ہماری نظر میں معاملہ انھی پر تمام ہوا، لہذا جو انسان چاہتا ہےکہ (عتبان رضی اللہ عنہ کی حدیث کے ظاہری مفہوم سے) دھو کا نہ کھائے، وہ دھوکا کھا نے سے بچے۔
ایک دوسری سند سے امام صاحب مذکورہ بالا حدیث بیان کرتے ہیں، اس میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ ایک آدمی نے کہا، مالک بن دخشن یا دخیشن کہاں ہے؟ اور یہ اضافہ ہے، محمود کہتے ہیں میں نے یہ حدیث چند لوگوں کو جن میں ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی موجود تھے سنائی۔ تو انہوں نے کہا، میں نہیں سمجھتا کہ جو بات تم بیان کرتے ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہو۔ تو میں نے دل سے قسم اٹھائی کہ اگر میں عتبان کو دوبارہ ملوں گا تو ان سے یہ حدیث پوچھوں گا، میں ان کے پاس دوبارہ آیا تو وہ بہت بوڑھے ہو چکے تھے، ان کی بینائی ختم ہوچکی تھی لیکن وہ اپنی قوم کے امام تھےتو میں ان کے پہلو میں بیٹھ گیا اور ان سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے مجھے پہلے کی طرح سارا واقعہ سنایا۔ زہری کہتے ہیں اس واقعہ کے بعد بہت سے احکام نازل ہوئے اور بہت سی چیزیں فرض ہوئیں، ہمارے خیال میں ان کے بعد دین مکمل ہو گیا، لہٰذا جو انسان عتبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث کے ظاہری مفہوم سے دھوکا نہ کھانا چاہتا ہو وہ ہماری وضاحت سے دھوکا کھانے سے بچ جائے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 1497 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1497  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
امام زہری کا مقصد یہ ہے کہ عتبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث کا تعلق ابتدائے اسلام سے ہے جبکہ ابھی دین کے بہت سے فرائض اور احکام نازل نہیں ہوئے تھے۔
اس لیے کوئی انسان اس دھوکا میں مبتلا نہ ہو کہ محض کلمہ کے اقرارسے انسان آگ سے بچ جائے گا اور حضرت ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی یہی مفہوم لے کر (کہ محض کلمہ نجات کا باعث ہے)
اس کا فرمان نبوی ہونے سے انکار کیا لیکن ہمارے بیان کردہ مفہوم کے مطابق اس حدیث میں کوئی اشکال نہیں ہے اور اس کی پوری وضاحت کتاب الایمان میں گزر چکی ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1497