Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح مسلم
كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاة
مسجدوں اور نماز کی جگہ کے احکام
34. باب اسْتِحْبَابِ التَّبْكِيرِ بِالْعَصْرِ:
باب: عصر اول وقت پڑھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1412
وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ ، وَقُتَيْبَةُ ، وَابْنُ حُجْرٍ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ جَعْفَرٍ ، عَنِ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَنَّهُ دَخَلَ عَلَى أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ فِي دَارِهِ بِالْبَصْرَةِ، حِينَ انْصَرَفَ مِنَ الظُّهْرِ، وَدَارُهُ بِجَنْبِ الْمَسْجِدِ، فَلَمَّا دَخَلْنَا عَلَيْهِ، قَالَ: أَصَلَّيْتُمُ الْعَصْرَ؟ فَقُلْنَا لَهُ: إِنَّمَا انْصَرَفْنَا السَّاعَةَ مِنَ الظُّهْرِ، قَالَ: فَصَلُّوا الْعَصْرَ، فَقُمْنَا فَصَلَّيْنَا، فَلَمَّا انْصَرَفْنَا، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " تِلْكَ صَلَاةُ الْمُنَافِقِ، يَجْلِسُ يَرْقُبُ الشَّمْسَ، حَتَّى إِذَا كَانَتْ بَيْنَ قَرْنَيِ الشَّيْطَانِ قَامَ، فَنَقَرَهَا أَرْبَعًا "، لَا يَذْكُرُ: اللَّهَ فِيهَا، إِلَّا قَلِيلًا.
علاء بن عبدالرحمان سے روایت ہے کہ وہ نماز ظہر سے فارغ ہو کر حضرت انس رضی اللہ عنہ کے ہاں بصرہ میں ان کے گھر حاضر ہوئے، ان کا گھر مسجد کے پہلو میں تھا، جب ہم ان کی خدمت میں پہنچے تو انھوں نے پوچھا: کیا تم لوگوں نے عصر کی نماز پڑھ لی ہے؟ ہم نے ان سے عرض کی: ہم تو ابھی ظہر کی نماز پڑھ کر لوٹے ہیں۔ انھوں نے فرمایا: تو عصر پڑھ لو۔ ہم نے اٹھ کر (عصر کی) نماز پڑھ لی، جب ہم فارغ ہوئے تو انھوں نےکہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا یہ منافق کی نماز ہے، وہ بیٹھا ہوا سورج کو دیکھتا رہتا ہے یہاں تک کہ (جب وہ زرد پڑ کر) شیطان کے دو سنگوں کے درمیان چلا جاتا ہے تو کھڑا ہو کر اس (نماز) کی چار ٹھونگیں مار دیتا ہے اور اس میں اللہ کو بہت ہی کم یاد کرتا ہے۔
حضرت عطاء بن عبد الرحمٰن بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس بصرہ میں ان کے گھر نماز ظہر سے فارغ ہو کر گیا اور ان کا گھر مسجد کے پہلو میں تھا، جب ہم ان کی خدمت میں پہنچے تو انہوں نے پوچھا، کیا تم نے عصر کی نماز پڑھ لی ہے؟ تو ہم نے عرض کیا، ہم تو ابھی ظہر کی نماز پڑھ کر آ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ یہ منافق والی نماز ہے کہ آدمی بیٹھا ہوا آفتاب کا انتظار کرتا رہے، یہاں تک کہ (جب وہ زود پڑجائے) شیطان کے دو سینگوں کے درمیان ہو جاتا ہے تو کھڑا ہو کر چار ٹھونگیں مارتا ہے اور اللہ کو بہت ہی تھوڑا یاد کرتا ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 1412 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1412  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
عصر کی نماز بلا کسی عذر اور مجبوری کے اتنی مؤخر کرنا کہ آفتاب غروب ہونے کے قریب پہنچ جائے اور اس آخری اور تنگ وقت میں مرغ کی ٹھونگوں کی طرح جلدی جلدی چار رکعتیں پڑھنا جن میں اللہ کے ذکر کی مقدار بھی بہت کم اور برائے نام ہو ایک منافقانی طرز عمل ہے مومن کو ہر نماز خاص کر عصر کی نماز اپنے صحیح وقت پر انتہائی طمانیت اور تعدیل کے ساتھ پڑھنی چاہیے جلدی جلدی رکوع اور سجدہ کرنے تو مرغ کی ٹھونگوں کی طرح اوپر نیچے ہونا ہے۔
(2)
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں بنو امیہ کے بعض گورنر عصر کی نماز بہت تاخیر سے پڑھتے تھے اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے اس طرز عمل کو غلط اور خلاف سنت سمجھتے تھے اس لیے انھوں نے اپنے پاس آنے والوں کو نماز عصر پڑھ لینے کے لیے کہا اور بعد میں انہیں یہ حدیث سنائی اور وہ خود بھی عصر کی نماز گھر پر جلد پڑھ لیتے تھے جیسا کہ اگلی روایت میں آ رہا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1412   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 413  
´عصر کے وقت کا بیان۔`
علاء بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ ہم ظہر کے بعد انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو دیکھا کہ وہ عصر پڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے ہیں، جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو ہم نے نماز کے جلدی ہونے کا ذکر کیا یا خود انہوں نے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: یہ منافقوں کی نماز ہے، یہ منافقوں کی نماز ہے، یہ منافقوں کی نماز ہے کہ آدمی بیٹھا رہے یہاں تک کہ جب سورج زرد ہو جائے اور وہ شیطان کی دونوں سینگوں کے بیچ ہو جائے یا اس کی دونوں سینگوں پر ہو جائے ۱؎ تو اٹھے اور چار ٹھونگیں لگا لے اور اس میں اللہ کا ذکر صرف تھوڑا سا کرے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 413]
413۔ اردو حاشیہ:
➊ یہ حدیث گویا پہلی حدیث کی شرح ہے کہ اگر کسی سے عذر شرعی کی بنا پر تاخیر ہوئی ہو اور اس نے سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے ایک رکعت پالی ہو تو اس نے گویا وقت میں نماز پالی اور یہ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں کے لیے خاص رحمت ہے۔ اور اگر بغیر عذر کے تاخیر کرے تو یہ منافقت کی علامت ہے۔
سورج کا شیطان کے دو سینگوں کے درمیان ہونا کے مفہوم میں اختلاف ہے۔ علامہ نووی  رحمہ اللہ کہتے ہیں: کہا جاتا ہے کہ یہ حقیقت ہے اور سورج کے طلوع و غروب کے وقت شیطان سورج کے سامنے آ جاتا ہے ایسے لگتا ہے گویا سورج اس کے سر کے درمیان سے نکل رہا ہے یا غروب ہو رہا ہے۔ اور سورج کے پجاری بھی ان اوقات میں اس کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں، تو یہ سمجھتا ہے کہ اسے ہی سجدہ کیا جا رہا ہے۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ دو سینگوں سے مراد مجازاً شیطان کا بلند ہونا اور شیطانی قوتوں کا غلبہ اور کفار طلوع و غروب کے اوقات میں سورج کو سجدہ کرتے ہیں . . . . . . انتھی «والله أعلم»
➌ استثنائی صورتوں کو قائدہ یا کلیہ بنانا چاہیے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 413   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 512  
´عصر تاخیر سے پڑھنے کی وعید کا بیان۔`
علاء کہتے ہیں کہ وہ جس وقت ظہر پڑھ کر پلٹے انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس بصرہ میں ان کے گھر گئے، اور ان کا گھر مسجد کے بغل میں تھا، تو جب ہم لوگ ان کے پاس آئے تو انہوں نے پوچھا: کیا تم لوگوں نے عصر پڑھ لی؟ ہم نے کہا: نہیں، ہم لوگ ابھی ظہر پڑھ کر پلٹے ہیں، تو انہوں نے کہا: تو عصر پڑھ لو، ہم لوگ کھڑے ہوئے اور ہم نے عصر پڑھی، جب ہم پڑھ چکے تو انس رضی اللہ عنہ کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: یہ منافق کی نماز ہے کہ بیٹھا عصر کا انتظار کرتا رہے یہاں تک کہ جب سورج شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان ہو جائے، (غروب کے قریب ہو جائے) تو اٹھے اور چار ٹھونگیں مار لے، اور اس میں اللہ کا ذکر معمولی سا کرے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 512]
512 ۔ اردو حاشیہ:
➊سورج شیطان کے دوسینگوں کے درمیان ہونے سے مراد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ غروب کے قریب ہوتا ہے، اس وقت سورج کے پجاری اس کی پوجا کرتے ہیں، یہ شیطانی کام ہے، اس لیے مندرجہ بالا لفظوں سے بیان فرمایا۔ بعض اہل علم نے اسے حقیقت پر محمول کیا ہے کہ طلوع، غروب اور استوا (سر پرہونے) کے قریب شیطان سورج کے پاس آکر کھڑا ہوتا ہے، اس طرح کہ سورج اس کے دو سینگوں کے درمیان ہوتا ہے، تاکہ سورج کے پجاری اس کی بھی پوجا کریں۔ شاید اسی بنا پر مسلمانوں کو ان اوقات میں نماز پڑھنے سے روک دیا گیا ہے۔ واللہ أعلم۔
چار ٹھونگے (چونچیں) مارتا ہے۔ چونکہ سورج تقریباً غروب ہو رہا ہوتا ہے، اس لیے وہ جلدی جلدی نماز پڑھتا ہے۔ دیکھنے میں ایسے لگتا ہے جیسے کوا ٹھونگے مار رہا ہے۔ ارکان کے اذکارواور اد بھی صحیح طرح نہیں پڑھتا کیونکہ رغبت نہیں ہوتی، لہٰذا کچھ پڑھا گیا، کچھ رہ گیا۔ چونکہ رکعتیں چار ہیں، لہٰذا چار ٹھونگے کہا گیا ہے۔ ان میں سجدے گو آٹھ ہیں مگر جلد جلد کرنے کی وجہ سے گویا دونوں مل کر ایک ٹھونگا مارنے کے برابر ہوئے۔
➌مومن کی نماز اطمینان، خشوع و خضوع اور اذکار مسنونہ سے مزین ہوتی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 512