من كتاب فضائل القرآن قرآن کے فضائل 14. باب فَضْلِ أَوَّلِ سُورَةِ الْبَقَرَةِ وَآيَةِ الْكُرْسِيِّ: سورہ البقرہ اور آیت الکرسی کی فضیلت کا بیان
ايفع بن عبداللہ الکلاعی نے کہا: ایک صحابی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! قرآن پاک کی کون سی سورت سب سے زیادہ عظیم ہے؟ فرمایا: ” «﴿قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ﴾» “، اس نے عرض کیا: اور کون کی آیت سب سے عظیم ہے؟ فرمایا: ”آیۃ الکرسی:“ «﴿اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ . . . . . .﴾» [البقره: 255/2] ، پھر اس نے کہا: اے اللہ کے نبی! کون سی آیت ہے جو آپ پسند فرماتے ہیں اور جو آپ اور آپ کی امت کے لئے نفع بخش ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سورہ البقرہ کی آخری آیتیں کیوں کہ وہ عرش کے نیچے اللہ کی رحمت کے خزانوں میں سے ہیں، جن کو الله تعالیٰ نے خاص اس امت کو عطا فرمایا ہے، جو دنیا و آخرت کی ساری اچھائی و بھلائی کو شامل ہیں۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لإرساله أو ربما لإعضاله وأيفع قال الأزدي: لا يصح حديثه، [مكتبه الشامله نمبر: 3423]»
اس روایت کی سند ضعيف و مرسل ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا: مرسل بلکہ معضل ہے۔ دیکھئے: [الاصابة 222/1] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لإرساله أو ربما لإعضاله وأيفع قال الأزدي: لا يصح حديثه
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے ایک شخص جنات میں سے ایک جن سے ملا اور اس سے کشتی لڑی اور اس آدمی نے جن کو پچھاڑ دیا اور کہا: مجھے تم کمزور جسم، تھکے تھکائے نظر آتے ہو؟ تمہاری کلائیاں کتے کی کلائیوں کی طرح ہیں، تو کیا تمام جنات ایسے ہی ہوتے ہیں یا ان میں سے صرف تم ایسے (کمزور و نحیف) ہو؟ اس جن نے جواب دیا: الله کی قسم! میں جنات میں مضبوط ہڈیوں والا ہوں، تم دوبارہ مجھ سے کشتی لڑو، اگر تم نے مجھے پھر پچھاڑ دیا تو تم کو ایسی چیز بتاؤں گا جو تمہیں فائدہ دے گی، اس صحابی نے کہا: ٹھیک ہے آ جاؤ، پھر انہوں نے دوبارہ اس جن کو پچھاڑ دیا اور کہا: اب مجھے وہ چیز بتاؤ، جن نے کہا کیا تم: «﴿اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ . . . . . .﴾» (آیۃ الکرسی) پڑھتے ہو؟ انہوں نے کہا: ہاں پڑھتا ہوں، اس جن نے کہا: تم اس کو جس گھر میں بھی پڑھو گے اس سے شیطان گدھے کی طرح ہوا خارج کرتا ہوا نکل جائے گا، پھر صبح تک وہ شیطان اس گھر میں داخل نہ ہو گا۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: «الضيئل» کے معنی کمزور و نحیف اور «الشخيت»: تھکے ہوئے، «الضليع»: اچھے مضبوط پسلیوں والے اور «الخبج» کے معنی ہوا کے ہیں۔
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات ولكن عامرا الشعبي قال الحاكم والدارقطني وأبو حاتم: " لم يسمع من ابن مسعود، [مكتبه الشامله نمبر: 3424]»
اس اثر کے رجال ثقات ہیں، لیکن عامر الشعبی رحمہ اللہ کا سماع سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں۔ ابوعاصم کا نام محمد بن ابی ایوب ہے۔ دیکھئے: [طبراني 183/9، 8826]۔ اور یہ اثر سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ پر موقوف ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات ولكن عامرا الشعبي قال الحاكم والدارقطني وأبو حاتم: " لم يسمع من ابن مسعود
شعبی رحمہ اللہ سے مروی ہے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: جو کوئی رات میں سورہ البقرہ کی دس آیات پڑھے گا اس گھر میں اس رات صبح تک شیطان داخل نہیں ہو گا، چار آیات شروع کی اور آیت الکرسی اس کے بعد کی دو آیتیں اور آخر کی تین آیات جو «﴿لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ . . . . . .﴾» سے شروع ہوتی ہیں۔
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 3425]»
اس اثر میں بھی انقطاع ہے، شعبی رحمہ اللہ کا سماع سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں۔ دیکھئے: [طبراني 147/9، 8673]۔ نیز آگے آنے والی روایات ملاحظ فرمایئے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
شعبی رحمہ اللہ سے مروی ہے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: جو آدمی سورہ بقرہ کی پہلی چار آیات اور آیت الکرسی اور دو آیتیں اس کے بعد اور تین آخری آیات پڑھے گا اس دن شیطان اس کے اور اس کے اہل و عیال کے قریب نہ آئے گا، اور نہ ایسی بات ہو گی جو اس کو ناپسند ہو، اور یہ آیات اگر پاگل پر بھی پڑھی جائیں گی تو اس کو افاقہ ہو جائے گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده منقطع كسابقه، [مكتبه الشامله نمبر: 3426]»
اس اثر میں بھی پچھلی روایت کی طرح انقطاع ہے، اور اس کو ابن الضریس نے [فضائل القرآن 166] میں اور بیہقی نے [شعب الإيمان 2412] میں روایت کیا ہے، اور یہ بھی سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده منقطع كسابقه
ابواسحاق نے اس شخص سے روایت کیا جس نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ فرماتے تھے: میں نہیں سمجھتا کوئی آدمی جو عاقل ہو اور سورہ البقرہ کی آخری آیت پڑھے بنا سو جائے، یہ آیات عرش کے نیچے کے خزانے کی ہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف فيه جهالة، [مكتبه الشامله نمبر: 3427]»
اس حدیث کی سند بھی ضعیف ہے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرنے والا مجہول ہے، اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ پر یہ اثر موقوف ہے۔ دیکھئے: [فضائل لابن الضريس 176]، [الدر المنثور للسيوطي 378/1] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف فيه جهالة
مغیرہ بن سبیع جو سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے تلاميذ میں سے تھے، انہوں نے کہا: جو آدمی سوتے وقت سورہ بقرہ کی دس آیات پڑھے گا وہ قرآن پاک کو نہیں بھولے گا۔ وہ آیات یہ ہیں: چار آیات شروع کی، آیت الکرسی اور اس کے بعد کی دو آیتیں اور تین آیات آخر کی۔ اسحاق نے کہا: جو حفظ کیا ہے اسے نہیں بھولے گا۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: راوی مغیرہ کو بعض نے مغیرہ بن سمیع کہا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى المغيرة وهو موقوف عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 3428]»
کتب رجال میں مغیرہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے تلامیذ میں مذکور نہیں ہیں، اور مغیرہ تک یہ سند صحیح اور انہیں پر موقوف ہے۔ اور ابوسنان کا نام ضرار بن مرۃ ہے، اور ابوالاحوص: سلام بن سلیم ہیں۔ دیکھئے: [ترمدي 2882]۔ نیز دیکھئے: [شعب الإيمان للبيهقي 2413]، [ابن منصور 428/2، 138]، [أبونعيم فى أخبار أصبهان 233/1]، [شرح السنة 1198] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى المغيرة وهو موقوف عليه
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کوئی آیت الکرسی، حم (سورہ المومن) کے شروع سے «﴿ إِلَيْهِ الْمَصِيرُ ﴾» [غافر 3/40] تک پڑھے وہ شام تک ایسی چیز نہیں دیکھے گا جو اسے ناپسند ہو اور جو شخص ان کو شام کو پڑھے گا تو صبح تک ایسی چیز نہیں دیکھے گا جو اسے ناپسند ہو۔“
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 3429]»
عبدالرحمٰن بن ابی بکر کی وجہ سے اس حدیث کی سند ضعیف ہے۔ باقی رواۃ ثقات ہیں۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان پیدا فرمانے سے دو ہزار سال پہلے ایک کتاب لکھی، اس میں سے دو آیتیں نازل فرمائیں جن سے سورہ البقرہ کو ختم کیا (یعنی آخری دو آیتیں)، اور یہ دونوں آیتیں تین رات جس گھر میں پڑھی جائیں گی اس سے شیطان قریب نہ ہو گا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3430]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 2882]، [فضائل القرآن لابي عبيد، ص: 232]، [الحاكم 2065]، [البيهقي شعب الإيمان 2400] و [فضائل القرآن الضريس 167] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو سورہ البقرہ کی آخری دو آیتیں پڑھ لے وہ اس کے لئے کافی ہیں۔“ صحیح بخاری میں ہے: ”جس نے سورہ بقرہ کی دو آخری آیتیں رات میں پڑھ لیں وہ اسے (ہر آفت سے بچانے کے لئے) کافی ہو جائیں گی۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 3431]»
اس حدیث کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5009]، [مسلم 807]، [ابن حبان 781]، [الحميدي 457]، [النسائي فى فضائل القرآن 28، 29، 44]، [عبدالرزاق 6020]، [ابن الضريس 161] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
سیدہ اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”الله تعالیٰ کا اسم اعظم ان دو آیتوں میں ہے: «﴿اَللّٰهُ لَا إِلٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ . . . . . .﴾» [البقره: 255/2] اور «﴿وَإِلٰهُكُمْ إِلٰهٌ وَاحِدٌ . . . . . .﴾» [البقره: 163/2] “
تخریج الحدیث: «إسناده حسن من أجل عبيد الله بن أبي زياد، [مكتبه الشامله نمبر: 3432]»
عبداللہ بن ابی زیاد کی وجہ سے اس حدیث کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 1496]، [ترمذي 3476]، [ابن ماجه 3855]، [أحمد 461/6]، [ابن أبى شيبه 9412]، [ابن الضريس 182]، [مشكل الآثار 64/1]، [شرح السنة للبغوي 1261] و [البيهقي فى شعب الإيمان 2383] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن من أجل عبيد الله بن أبي زياد
جبیر بن نفیر سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ کو دو آیتوں سے ختم کیا ہے جو مجھے عرش کے تلے خزانہ سے دی گئی ہیں، تم ان کو سیکھو اور اپنی عورتوں کو سکھاؤ کیوں کہ یہ دونوں آیتیں برکت، قرآن، اور دعا ہیں۔“
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات غير أنه مرسل، [مكتبه الشامله نمبر: 3433]»
اس حدیث کے رواۃ ثقات ہیں لیکن مرسل ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد فى المراسيل 91]، [الحاكم 2066، 2067]، [أحمد 151/5، 383]، [النسائي فى فضائل القرآن 47] و [الفريابي فضائل القرآن 53، وغيرهم] وضاحت:
(تشریح احادیث 3411 سے 3422) ان تمام آثار و احادیث سے سورۂ بقرہ کی پہلی اور آ خری آیات، نیز آیت الکرسی کی فضیلت ثابت ہوئی۔ آیت الکرسی کی فضیلت اور بھی احادیثِ صحیحہ سے ثابت ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات غير أنه مرسل
|