من كتاب فضائل القرآن قرآن کے فضائل 26. باب فَضْلِ مَنْ قَرَأَ عَشْرَ آيَاتٍ: قرآن پاک کی کوئی دس آیات پڑھنے کی فضیلت
سیدنا تمیم داری رضی اللہ عنہ نے کہا: جس شخص نے کسی رات میں دس آیات پڑھیں وہ غافلین میں نہیں لکھا جائے گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف وهو موقوف على تميم الداري، [مكتبه الشامله نمبر: 3485]»
اس روایت کی سند ضعیف اور موقوف علی سیدنا تمیم داری رضی اللہ عنہ ہے۔ آگے اس طرح کے اور آثار بھی آ رہے ہیں۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف وهو موقوف على تميم الداري
سیدنا تمیم داری اور سیدنا فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہما سے مروی ہے: جس شخص نے کسی رات (قرآن کی) دس آیات پڑھیں تو (اس کا نام) نمازیوں میں لکھا جائے گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لإرساله والقاسم أبو عبد الرحمن لم يدرك تميما، [مكتبه الشامله نمبر: 3486]»
اس روایت میں ارسال بھی ہے اور القاسم ابوعبدالرحمٰن کا لقا سیدنا تمیم داری رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں، اس لئے یہ اثر ضعیف ہے۔ اس کو بیہقی نے [شعب الإيمان 2196] میں اور سعید بن منصور نے [سنن 116/1، 23] میں ذکر کیا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لإرساله والقاسم أبو عبد الرحمن لم يدرك تميما
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: جس نے رات میں دس آیات پڑھیں وہ غافلین میں نہیں لکھا جائے گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 3487]»
اس روایت کی سند حسن ہے، لیکن موقوف ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 508/10، 10137] و [الحاكم فى المستدرك 2042، واسناده منقطع] اور اس کا شاہد [صحيح ابن خزيمه 1143]، [مستدرك الحاكم 2041]، [عمل اليوم و الليلة لابن السني 702] و [صحيح ابن حبان 2572] میں موجود ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: جو رات میں دس آیات کی تلاوت کرے وہ غافلین میں نہ لکھا جائے گا۔
تخریج الحدیث: «لم يحكم عليه المحقق، [مكتبه الشامله نمبر: 3488]»
مغیرہ بن عبداللہ الجدلی کا ترجمہ کہیں مذکور نہیں ہے، باقی رجال ثقہ ہیں۔ دیکھئے: [فضائل القرآن لابن الضريس 63] و [ابن منصور 29/1، 24]۔ نیز آگے رقم (3489) پر یہ روایت اور مفصل آ رہی ہے۔ وضاحت:
(تشریح احادیث 3473 سے 3477) اس باب کی تمام روایات، آثار و اقوال صحابہ کرام کے ہیں، احتمال ہے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہو۔ واللہ اعلم۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: لم يحكم عليه المحقق
|