من كتاب فضائل القرآن قرآن کے فضائل 5. باب الْقُرْآنُ كَلاَمُ اللَّهِ: قرآن پاک اللہ کا کلام ہے
قتادہ رحمہ اللہ نے کہا: اس آیت: «﴿فَأَمَّا الَّذِيْنَ آمَنُوْا فَيَعْلَمُوْنَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّهِمْ . . . . . .﴾» [البقره: 26/2] سے مراد یہ ہے کہ مومنین جانتے ہیں کہ یہ رحمٰن کا کلام ہے۔
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 3395]»
اس اثر کی سند قتادہ رحمہ اللہ تک صحیح اور انہیں پر موقوف ہے۔ دیکھئے: [تفسير طبري 180/1] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
عطیہ بن قیس نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”الله تعالیٰ کے نزدیک کسی کا کلام اس کے اپنے کلام سے زیادہ عظیم نہیں ہے، اور بندے کوئی کلام نہیں پڑھتے ہیں جو اللہ کے نزدیک اس کے اپنے کلام سے زیاده محبوب ہو۔“
تخریج الحدیث: «في إسناده ضعيفان: عبد الله بن صالح وأبو بكر بن أبي مريم وهو أيضا مرسل، [مكتبه الشامله نمبر: 3396]»
اس اثر کی سند میں عبداللہ بن صالح اور ابوبکر بن ابی مریم ضعیف، اور عطیہ کی مرسل روایت ہے۔ دیکھئے: [البيهقي فى الأسماء والصفات، ص: 244] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: في إسناده ضعيفان: عبد الله بن صالح وأبو بكر بن أبي مريم وهو أيضا مرسل
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حج کے زمانے میں عرفات میں اپنے کو حجاج کے سامنے پیش کرتے تھے اور فرماتے تھے: ”کوئی آدمی مجھے اپنی قوم کی پناہ میں لے سکتا ہے؟ کیوں کہ قریش نے مجھے اپنے پروردگار کے کلام کی تبلیغ سے روک دیا ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3397]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أحمد 390/3]، [أبوداؤد 4734]، [ترمذي 2926]، [ابن ماجه 201]، [بخاري فى خلق أفعال العباد، ص: 60]، [ابن أبى شيبه 310/14، 18431]، [البيهقي فى الاعتقاد، ص: 61]، [أبونعيم دلائل النبوة 217]، [الحاكم 613/2]، [ابن كثير فى البداية والنهاية 146/3] و [البيهقي فى شعب الإيمان 118] وضاحت:
(تشریح احادیث 3383 سے 3386) اس حدیث سے معلوم ہوا قرآن پاک اللہ کا کلام ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
ابوالزعراء نے کہا: سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ قرآن اللہ کا کلام ہے، اس کو اپنی خواہشات کے مطابق بنا کر دھوکے میں نہ پڑنا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف ليث بن أبي سليم، [مكتبه الشامله نمبر: 3398]»
لیث بن ابی سلیم کی وجہ سے اس اثر کی سند ضعیف ہے، اور ابوالزعراء: عبداللہ بن ہانی ہے۔ دیکھئے: [الأسماء والصفات للبيهقي، ص: 242] و [شعب الإيمان 189/1 و الاعتقاد له ايضًا ص: 64] و [الشريعة للآجري، ص: 78، وغيرهم]۔ بعض نسخ میں «فَلَا يَغُرَّنَّكُمْ» کی جگہ «فَلَا أَعْرِفَنَّكُمْ» ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف ليث بن أبي سليم
|