من كتاب فضائل القرآن قرآن کے فضائل 32. باب كَمْ يَكُونُ الْقِنْطَارُ: قنطار کی مقدار کتنی ہوتی ہے
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: قنطار بارہ ہزار کا ہوتا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن إلى أبي هريرة، [مكتبه الشامله نمبر: 3507]»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ تک اس روایت کی سند حسن ہے، اور مسند احمد میں مرفوعاً روایت ہے۔ دیکھئے: [أحمد 363/2]، اور اس میں ہے کہ قنطار بارہ ہزار اوقیہ کا ہوتا ہے، اور ہر اوقیہ زمین و آسمان کے درمیان جو کچھ ہے اس سے بہتر ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن إلى أبي هريرة
ابونضرہ العبدی نے کہا: قنطار بیل کی سونے سے بھری ہوئی کھال کے برابر ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى أبي نضرة: المنذر بن مالك بن قطعة، [مكتبه الشامله نمبر: 3508]»
ابونضرہ و منذر بن مالک تک اس روایت کی سند صحیح ہے۔ ابوالاشہب کا نام جعفر بن حیان ہے۔ یہ اثر رقم (3490) پر گذر چکا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى أبي نضرة: المنذر بن مالك بن قطعة
سعید بن المسيب رحمہ اللہ نے کہا: قنطار چالیس ہزار کا ہوتا ہے۔
تخریج الحدیث: «في إسناده علتان: عنعنة هشيم وضعف علي بن زيد وهو موقوف على سعيد بن المسيب، [مكتبه الشامله نمبر: 3509]»
علی بن زید اس روایت کی سند میں ضعیف، اور ہشیم نے مدلس ہوتے ہوئے عن سے روایت کی ہے۔ نیز ابن المسيب رحمہ اللہ پر یہ اثر موقوف یعنی انہیں کا قول ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: في إسناده علتان: عنعنة هشيم وضعف علي بن زيد وهو موقوف على سعيد بن المسيب
حسن رحمہ اللہ نے کہا: قنطار تم میں سے کسی کی دیت کے مطابق بارہ ہزار ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى الحسن، [مكتبه الشامله نمبر: 3510]»
یہ روایت حسن رحمہ اللہ پر موقوف ہے، اور اس کی سند صحیح ہے۔ اس میں اسحاق: ابن عیسیٰ اور مبارک: ابن فضالہ ہیں۔ دیکھئے: [تفسير الطبري 200/3] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى الحسن
مجاہد رحمہ اللہ سے مروی ہے، انہوں نے کہا: قنطار ستر ہزار کا ہوتا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن إلى مجاهد، [مكتبه الشامله نمبر: 3511]»
مجاہد تک اس اثر کی سند موقوف و حسن ہے۔ دیکھئے: [تفسير الطبري 200/3] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن إلى مجاهد
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے کہا: قنطار بارہ ہزار اوقیہ کا ہوتا ہے۔
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات أبو بكر هو: ابن عياش وأبو حصين هو: عثمان بن عاصم. غير أن سالما لم يدرك معاذا فالإسناد منقطع، [مكتبه الشامله نمبر: 3512]»
اس اثر کے رجال ثقات ہیں، ابوبکر: ابن عیاش، ابوحصین: عثمان بن عاصم ہیں، اور سالم کی ملا قات سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ سے نہیں ہوئی، اس سند میں انقطاع ہے۔ دیکھئے: [تفسير الطبري 200/3] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات أبو بكر هو: ابن عياش وأبو حصين هو: عثمان بن عاصم. غير أن سالما لم يدرك معاذا فالإسناد منقطع
مجاہد رحمہ اللہ نے کہا: (قنطار) ستر ہزار مثقال کا ہوتا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف ليث وهو: ابن أبي سليم وهو موقوف على مجاهد، [مكتبه الشامله نمبر: 3513]»
لیث بن ابی سلیم کی وجہ سے یہ اثر ضعیف ہے، اور مجاہد رحمہ اللہ پر موقوف بھی ہے۔ وضاحت:
(تشریح احادیث 3495 سے 3502) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ کے قنطار کی مقدار کے بارے میں مختلف اقوال ہیں، اور سیاق و سباق اور لغت میں بہت سارے، ڈھیر سارے مال و ذخیرے کو کہتے ہیں، اور مختلف ازمان میں اس کی مقدار مختلف بتائی گئی ہے۔ اس لئے قنطار کی تحدید ممکن نہیں۔ «واللّٰه أعلم بالصواب.» قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف ليث وهو: ابن أبي سليم وهو موقوف على مجاهد
|