سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
من كتاب فضائل القرآن
قرآن کے فضائل
25. باب في فَضْلِ الْمُعَوِّذَتَيْنِ:
معوذتین کی فضیلت کا بیان
حدیث نمبر: 3471
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله بن يزيد، حدثنا حيوة، وابن لهيعة، قالا: سمعنا يزيد بن ابي حبيب، يقول: حدثني ابو عمران، انه سمع عقبة بن عامر، يقول: تعلقت بقدم رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت له: يا رسول الله، اقرئني سورة هود، وسورة يوسف، فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:"يا عقبة، إنك لن تقرا من القرآن سورة احب إلى الله ولا ابلغ عنده من قل اعوذ برب الفلق"، قال يزيد: فلم يكن ابو عمران يدعها، كان لا يزال يقرؤها في صلاة المغرب.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ، وَابْنُ لَهِيعَةَ، قَالا: سَمِعْنَا يَزِيدَ بْنَ أَبِي حَبِيبٍ، يَقُولُ: حَدَّثَنِي أَبُو عِمْرَانَ، أَنَّهُ سَمِعَ عُقْبَةَ بْنَ عَامِرٍ، يَقُولُ: تَعَلَّقْتُ بِقَدَمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَقْرِئْنِي سُورَةَ هُود، وَسُورَةَ يُوسُفَ، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"يَا عُقْبَةُ، إِنَّكَ لَنْ تَقْرَأَ مِنْ الْقُرْآنِ سُورَةً أَحَبَّ إِلَى اللَّهِ وَلَا أَبْلَغَ عِنْدَهُ مِن قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ"، قَالَ يَزِيدُ: فَلَمْ يَكُنْ أَبُو عِمْرَانَ يَدَعُهَا، كَانَ لَا يَزَالُ يَقْرَؤُهَا فِي صَلَاةِ الْمَغْرِبِ.
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے (سواری پر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک کو پکڑا اور عرض کیا: اے اللہ کے پیغمبر! مجھے سورہ ہود اور سورہ یوسف پڑھا دیجئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: اے عقبہ! تم ہرگز نہ پڑھو گے قرآن کی کوئی سوره جو «قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ» سے زیادہ الله تعالیٰ کے نزدیک محبوب اور بلیغ ہو (یعنی سورہ الفلق سب سے زیادہ الله کو محبوب اور بلیغ ہے)۔ یزید نے کہا: ابوعمران ہمیشہ اس کو مغرب کی نماز میں پڑھتے تھے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3482]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 814]، [النسائي 552]، [أحمد 155/4، 159]، [طبراني فى الكبير 312/17، 862]، [أبويعلی 1734]، [ابن حبان 795]، [الحميدي 874] و [البغوي فى شرح السنة 1213، وغيرهم]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 3472
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا احمد بن عبد الله، حدثنا ليث، عن ابن عجلان، عن سعيد بن ابي سعيد المقبري، ان عقبة بن عامر، قال:"مشيت مع النبي صلى الله عليه وسلم، فقال لي:"قل يا عقبة"، فقلت: اي شيء اقول؟ قال: فسكت عني، ثم قال:"يا عقبة: قل، فقلت: اي شيء اقول؟ قال: "قل اعوذ برب الفلق، فقراتها حتى جئت على آخرها، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم عند ذلك:"ما سال سائل، ولا استعاذ مستعيذ بمثلها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ، عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، أَنَّ عُقْبَةَ بْنَ عَامِرٍ، قَالَ:"مَشَيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِي:"قُلْ يَا عُقْبَةُ"، فَقُلْتُ: أَيَّ شَيْءٍ أَقُولُ؟ قَالَ: فَسَكَتَ عَنِّي، ثُمَّ قَالَ:"يَا عُقْبَةُ: قُلْ، فَقُلْتُ: أَيَّ شَيْءٍ أَقُولُ؟ قَالَ: "قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ، فَقَرَأْتُهَا حَتَّى جِئْتُ عَلَى آخِرِهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ذَلِكَ:"مَا سَأَلَ سَائِلٌ، وَلَا اسْتَعَاذَ مُسْتَعِيذٌ بِمِثْلِهَا".
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلا جا رہا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عقبہ! کہو، میں نے عرض کیا: کیا کہوں؟ سیدنا عقبہ رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ خاموش ہو گئے پھر کچھ دیر بعد فرمایا: اے عقبہ! کہو، میں نے پھر عرض کیا: کیا کہوں؟ فرمایا: «قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ» ، چنانچہ میں نے پوری سورت آخر تک پڑھی تو اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی مانگنے والے نے اس کے مثل نہیں مانگا، اور نہ کسی پناہ چاہنے والے نے اس کے مثل پناہ چاہی۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن من أجل محمد بن عجلان ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3483]»
محمد بن عجلان کی وجہ سے اس روایت کی سند حسن ہے، لیکن حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [نسائي 5456]، [البيهقي فى شعب الإيمان 2564]

وضاحت:
(تشریح احادیث 3470 سے 3472)
یعنی اللہ تعالیٰ سے مانگنے میں اور پناہ طلب کرنے میں سورۃ الفلق بہت عمدہ ہے اور اس جیسی اور کوئی سورت نہیں ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن من أجل محمد بن عجلان ولكن الحديث صحيح
حدیث نمبر: 3473
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا يعلى، حدثنا إسماعيل هو ابن ابي خالد، عن قيس، عن عقبة بن عامر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لقد انزل علي آيات لم ار او لم ير مثلهن، يعني: المعوذتين".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْلَى، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل هُوَ ابْنُ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ قَيْسٍ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَقَدْ أُنْزِلَ عَلَيَّ آيَاتٌ لَمْ أَرَ أَوْ لَمْ يُرَ مِثْلَهُنَّ، يَعْنِي: الْمُعَوِّذَتَيْنِ".
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے اوپر کچھ ایسی آیات نازل ہوئی ہیں جن کے مثل کوئی دیکھنے میں نہیں آئیں یعنی معوذتین «﴿قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ﴾» و «﴿قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ﴾»

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3484]»
اس حدیث کی سند اور حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 814]، [نسائي 953، 5456]، [ترمذي 2902، وغيرهم]

وضاحت:
(تشریح حدیث 3472)
مسلم شریف میں سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم دیکھتے نہیں آج کی رات ایسی آیات نازل ہوئی ہیں کہ ان کے مثل کبھی نہیں دیکھیں، اور وہ « ﴿قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ﴾ » اور « ﴿قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ﴾ (الفلق والناس)» ہیں، اس سے ان دونوں سورتوں کی فضیلت معلوم ہوتی ہے، نیز یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سورتیں پڑھ کر خود اپنے اوپر اور سیدنا حسن و سیدنا حسین رضی اللہ عنہما کے اوپر دم کیا کرتے تھے۔
اُم المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی تکلیف ہوتی تو معوذتین پڑھ کر اپنے اوپر دم کر لیتے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکلیف زیادہ ہوگئی تو میں یہ سورتیں پڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسمِ اطہر پر پھیرتی۔
[بخاري: باب المعوذات فى فضائل القرآن] و [مسلم: كتاب السلام، باب رقية المريض بالمعوذات] ۔
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا گیا تو جبریل علیہ السلام یہی سورتیں لے کر حاضر ہوئے اور فرمایا کہ ایک یہودی نے آپ پر جادو کیا ہے، اور یہ جادو فلاں کنویں میں ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بھیج کر اسے نکلوایا (جو ایک کنگھی کے دندانوں اور بالوں کے ساتھ ایک تانت کے اندر گیاره گرہیں پڑی ہوئی تھیں اور موم کا ایک پتلا تھا جس میں سویاں پیوست کی ہوئی تھیں)، جبریل علیہ السلام کے بتانے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں سورتوں میں سے ایک ایک پڑھتے جاتے اور گرہ کھلتی جاتی اور سوئی نکلتی جاتی، خاتمے تک پہنچتے پہنچتے ساری گرہیں بھی کھل گئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح صحیح ہو گئے جیسے کوئی شخص جکڑ بندی سے آزاد ہو جائے۔
[بخاري: كتاب الطب، باب السحر]، [مسلم: كتاب السلام، باب السحر والسنن] واضح رہے دونوں سورتوں میں گیارہ آیات ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول تھا کہ رات سوتے وقت سورة الاخلاص اور معوذتین پڑھ کر اپنی دونوں ہتھیلیوں پر پھونکتے اور پھر انہیں پورے جسم پر ملتے تھے۔
نیز نمازِ فجر اور مغرب کے بعد تین تین بار ان سورتوں کو پڑھتے تھے، اور نمازِ ظہر، عصر اور عشاء کے بعد ایک ایک بار پڑھتے تھے۔
لیکن نماز کے بعد بدن یا چہرے پر ہاتھ پھیرنا ثابت نہیں ہے۔
ان دونوں سورتوں میں شیطان اور اس کی ذریت، جہنم اور ہر اس چیز سے پناہ ہے جس سے انسان کو نقصان پہنچ سکتا ہے یا نقصان ہو سکتا ہے۔
اتنی معمولی کاوش اور فائدہ کتنا عظیم، لیکن مسلمانوں پر یہ آیات پڑھنا کتنا بھاری ہوتا ہے؟ اگر ان سورتوں کا سنّت کے مطابق مسلمان ورد رکھیں تو بہت کی بلاؤں اور شیطان کے شر سے محفوظ رہیں۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.