من كتاب فضائل القرآن قرآن کے فضائل 24. باب في فَضْلِ: {قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ}: «قُلْ هُوَ اللّٰهُ أَحَدٌ» کی فضیلت کا بیان
نوف بن فضالہ بکالی نے کہا: بیشک اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کی تقسیم تین جزء میں کی اور «﴿قُلْ هُوَ اللّٰهُ أَحَدٌ﴾» کو ایک تہائی قرار دیا۔
تخریج الحدیث: «إياس البكالي مجهول والأثر موقوف على نوف بن فضالة الباكلي، [مكتبه الشامله نمبر: 3471]»
یہ اثر نوف البکالی پر موقوف، اور اس کی سند میں ایاس البکالی مجہول ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إياس البكالي مجهول والأثر موقوف على نوف بن فضالة الباكلي
ابوعقیل نے خبر دی کہ انہوں نے سعید بن المسيب رحمہ اللہ سے سنا، وہ کہتے تھے: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے دس بار «﴿قُلْ هُوَ اللّٰهُ أَحَدٌ﴾» (سورة الاخلاص) پڑھی اس کے لئے جنت میں اسی وجہ سے ایک محل تیار کیا جائے گا، اور جس نے بیس مرتبہ اس کو پڑھا اس کے لئے اسی وجہ سے دو محل تعمیر کئے جائیں گے، اور جس نے تیس بار اس کو پڑھا اس کے لئے تین محل جنت میں ہوں گے“، اس پر سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: پھر تو اے اللہ کے رسول ہم بہت کثرت سے محل بنائیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یقیناً اللہ تعالیٰ اس سے بھی زیادہ وسعت دینے والا ہے۔“ ابومحمد امام دارمی رحمہ اللہ نے فرمایا: ابوعقیل کا نام زہرہ بن معبد ہے، اور کہا جاتا تھا کہ وہ ابدال (پہنچے ہوئے بزرگ) میں سے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لإرساله، [مكتبه الشامله نمبر: 3472]»
یہ حدیث مراسیل ابن المسیب میں سے ہے اور ضعیف ہے۔ مختصراً اس روایت کو طبرانی نے [أوسط 283] میں ذکر کیا ہے، لیکن اس کی سند بھی ضعیف ہے۔ نیز امام أحمد نے [أحمد 437/3] اور [ابن السني 693]، عقیلی نے [الضعفاء 92/2]، طبرانی نے [الكبير 184/20، 397، 398] میں بھی ذکر کیا ہے، لیکن سب کی سند ضعیف ہے۔ «إسناده ضعيف، انفرد به المصنف من هذا الطريق» «وله شواهد من حديث معاذ بن أنس الجهني، وحديث أبى هريرة الدوسي، وحديث محمد بن كعب بن سليم القرظي، وحديث على بن أبى طالب، وحديث هلال بن يساف الأشجعي» «فأما حديث معاذ بن أنس الجهني، أخرجه أحمد فى "مسنده" (6 / 3326) برقم: (15850) والطبراني فى "الكبير" (20 / 183) برقم: (397)، (20 / 184) برقم: (398)» «وأما حديث أبى هريرة الدوسي، أخرجه الطبراني فى "الأوسط" (1 / 93) برقم: (281)» «وأما حديث محمد بن كعب بن سليم القرظي، أخرجه ابن أبى شيبة فى "مصنفه" (5 / 268) برقم: (7902)» «وأما حديث على بن أبى طالب، أخرجه ابن أبى شيبة فى "مصنفه" (15 / 381) برقم: (30432)» «وأما حديث هلال بن يساف الأشجعي، أخرجه ابن أبى شيبة فى "مصنفه" (15 / 382) برقم: (30433)» قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لإرساله
عقبہ بن ضمرہ بن حبیب نے اپنے والد سے روایت کیا کہ وہ جب بھی کوئی سورت پڑھ کر ختم کرتے تو اس کے بعد «﴿قُلْ هُوَ اللّٰهُ أَحَدٌ﴾» پڑھتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى ضمرة بن حبيب وهو موقوف عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 3473]»
اس اثر کی سند ضمرہ بن حبيب تک صحیح اور انہیں پر موقوف ہے، یعنی یہ ان کا عمل تھا۔ کہیں اور یہ روایت نہیں ملی۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى ضمرة بن حبيب وهو موقوف عليه
سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم میں سے کوئی اس کی قدرت نہیں رکھتا کہ ایک رات میں ایک تہائی قرآن پڑھ لے؟“ صحابہ کرام نے عرض کیا: ہم اتنا قرآن ایک رات میں پڑھنے سے عاجز و کمزور ہیں (یعنی کسی طرح ثلث قرآن نہیں پڑھ سکتے)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”الله تعالیٰ نے قرآن کو تین حصوں میں تقسیم کیا (یعنی معانی و مفاہیم کے اعتبار سے قصص، احکام، صفات (باری تعالیٰ) اور «قُلْ هُوَ اللّٰهُ أَحَدٌ» (سورہ الاخلاص) کو تیسرا حصہ قرار دیا۔ (جس میں الله تعالیٰ کی جامع صفات مذکور ہیں)۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3474]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 811، 812]، [نسائي فى عمل اليوم و الليلة 701]، [الطيالسي 1992]، [فضائل القرآن لعبدالرحمٰن الرازي 105]، [فضائل القرآن لابي عبيد، ص: 268] و [البيهقي فى شعب الإيمان 2534] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے تھے: «قُلْ هُوَ اللّٰهُ أَحَدٌ» (سورہ الاخلاص) تہائی قرآن کے برابر ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف وهو موقوف على أبي هريرة، [مكتبه الشامله نمبر: 3475]»
اس اثر کی سند ضعیف ہے، اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پر موقوف ہے، لیکن دوسری اسانید سے موصولاً روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہارے لئے تہائی قرآن پڑھوں؟“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے «قُلْ هُوَ اللّٰهُ أَحَدٌ» کی تلاوت فرمائی۔ ابن ماجہ میں یہی روایت موصولاً مروی ہے۔ دیکھئے: [مسلم 812، 813]، [ترمذي 2901]، [ابن ماجه 3787]، [ابن الضريس فى فضائل القرآن 248]، [الطحاوي فى مشكل الآثار 1221، 1222] و [أبويعلی 6180] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف وهو موقوف على أبي هريرة
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: «قُلْ هُوَ اللّٰهُ أَحَدٌ» ثلث قرآن کے برابر ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن من أجل عاصم بن أبي النجود. وهو موقوف على عبد الله، [مكتبه الشامله نمبر: 3476]»
عاصم بن ابی النجود کی وجہ سے اس اثر کی سند حسن ہے، اور سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ پر موقوف ہے، لیکن اس کا شاہد مرفوعاً عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے موجود ہے۔ دیکھئے: [النسائي فى الكبرىٰ 10509]، [أبوعبيد فى فضائل القرآن، ص: 268]، [ابن الضريس فى الفضائل 262]، [الرازي فى الفضائل 106]، [الطبراني فى الكبير 172/10، 10245]، [الطيالسي 1991]، [ابن السني فى عمل اليوم 692، وغيرهم كثيرون] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن من أجل عاصم بن أبي النجود. وهو موقوف على عبد الله
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اسی کے مثل مروی ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن أيضا، [مكتبه الشامله نمبر: 3477]»
ترجمہ اور تخریج اوپر ملاحظہ فرمائیں۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن أيضا
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک صحابی نے کہا: قسم اللہ کی میں اس سورت «﴿قُلْ هُوَ اللّٰهُ أَحَدٌ﴾» کو بہت محبوب رکھتا ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہاری (اس سورت سے) اس محبت نے تمہیں جنت میں داخل کرا دیا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3478]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 2901]، [أبويعلی 3336]، [ابن حبان 793]، [الموارد 1774]، [الرازي فى فضائل القرآن 108]، [ابن السني فى عمل اليوم و الليلة 690]، [ابن خزيمه 537]، [عبد بن حميد فى المنتخب 1306] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حمید بن عبدالرحمٰن نے اپنے والد سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے «﴿قُلْ هُوَ اللّٰهُ أَحَدٌ﴾» کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تہائی قرآن ہے“ یا ”تہائی قرآن کے برابر ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 3479]»
اس روایت کی سند حسن ہے۔ اُم حمید: اُم کلثوم بنت عقبہ ہیں۔ دیکھئے: [الرازي فى الفضائل 107]، [ابن الضريس فى فضائل القرآن 242]، [الطبراني فى الكبير 74/25، 182]، [أحمد 404/6]، [النسائي فى الكبریٰ 10531] وضاحت:
(تشریح احادیث 3459 سے 3468) ان روایات سے پتہ چلا کہ کوئی شخص اگر تین بار « ﴿قُلْ هُوَ اللّٰهُ أَحَدٌ﴾ » پڑھے تو اس کو پورا قرآن پڑھنے کا ثواب ہے، اسی لئے خود پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے بعد اور سوتے وقت معوذتین کے ساتھ اس سورت کو ہمیشہ پڑھا کرتے تھے، اور اس کو تہائی قرآن ایک قول کے مطابق اس لئے کہا گیا کہ قرآن پاک میں تین قسم کے مضامین ہیں: ۱- توحيد . . . ۲- رسالت . . . 3- اعمال اس سورت میں توحید کا بیان ہے اور اس میں توحید کی تینوں اقسام موجود ہیں، اس لئے ثلث قرآن ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ سے مروی ہے، انہوں نے انصار کی ایک خاتون سے روایت کیا کہ سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے اور کہا: تم جانتی ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا چیز لے کر آئے ہیں؟ اس خاتون انصاری صحابیہ نے جواب دیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس بہت ساری بھلائیاں لے کر تشریف لائے ہیں، تم بتاؤ کیا خبر لائے ہو؟ سیدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے کہا: ”کیا تم میں سے کوئی ایک رات میں ثلث قرآن پڑھنے سے عاجز رہتا ہے؟“ ہم کو ڈر لگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے ایساعمل کرانا چاہتے ہیں جس کی ہم قدرت نہیں رکھتے، لہٰذا ہم نے کوئی جواب نہیں دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار یہ سوال دہرایا اور فرمایا: ”کیا تم میں سے کسی کو اتنی طاقت نہیں کہ وہ «﴿قُلْ هُوَ اللّٰهُ أَحَدٌ، اللّٰهُ الصَّمَدُ﴾» سورہ اخلاص پڑھ لے؟“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إذا كانت الأنصارية صحابية وإلا ففيه جهالة، [مكتبه الشامله نمبر: 3480]»
اس روایت کی سند میں اگر انصاری خاتون صحابیہ ہیں تو صحیح ہے، ورنہ اس میں جہالت ہے۔ اس کو ترمذی نے [الترمذي 2898]، النسائی نے [الكبرىٰ 10517]، اور ابن الضریس نے [فضائل القرآن 254] میں اور ابن عبدالبر نے [تمهيد 255/7] میں روایت کیا ہے، اور اس کے متعدد شواہد صحیحہ موجود ہیں۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إذا كانت الأنصارية صحابية وإلا ففيه جهالة
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص پچاس بار «﴿قُلْ هُوَ اللّٰهُ أَحَدٌ﴾» پڑھے گا اس کے پچاس سال کے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔“
تخریج الحدیث: «لم يحكم عليه المحقق، [مكتبه الشامله نمبر: 3481]»
اُم کثیر الانصاریہ کون ہیں پتہ نہیں چل سکا، باقی رواة اس روایت کے ثقہ ہیں۔ دیکھئے: [ترمذي 2900]، [أبويعلی 3365]، [ابن الضريس فى فضائل القرآن 266] و [البيهقي فى شعب الإيمان 2548، 2564] و [تاريخ بغداد 187/6]۔ لیکن ان سب کی اسانید ضعیفہ ہیں، اس لئے یہ حدیث قابلِ عمل نہیں ہو سکتی، اور ثلث قرآن والی احادیث صحیح ہیں۔ وضاحت:
(تشریح احادیث 3468 سے 3470) سورہ الاخلاص ایسی مبارک سورۂ شریفہ ہے جو الله تعالیٰ کی صفاتِ مبارکہ سے بھر پور ہے، اس میں اللہ پاک کا ایک ہونا، بے پرواہ معبود ہونا، ولد سے (اولاد سے) پاک ہونا، کسی سے پیدا نہ ہونا، اس کی ذات کا کوئی ہم سر نہ ہونا یعنی بے مثل ہونا مذکور ہے، اتنی عمده اور مبنی برحقیقت صفات اس سورہ شریفہ میں بڑے اختصار سے ذکر کی گئی ہیں، جو ان صفات کو سمجھے اور محبت رکھے اور اس کو پڑھتا رہے یقیناً الله تعالیٰ بھی اس سے محبت کرے گا، اور اس کی محبت کا تقاضہ یہ ہے کہ اپنے اس بندے کے گناہ بخش دے، دونوں جہان میں عافیت عنایت کرے، اور اپنی اطاعت کی توفیق بخشے، اور بندے کو یہ چاہیے کہ صرف الله تعالیٰ کی عبادت و بندگی، اطاعت و فرماں برداری صدقِ دل اور اخلاص سے کرے، دل سے اس کو یاد کرے، اس کی محبت، اسماء و صفات سے لگاؤ سارے جہاں سے مقدم رکھے۔ (وحیدی بتصرف)۔ یہ الله تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ بعض آیات اور سورتوں کو بعض پر فضیلت دی ہے، اور بزبانِ نبوت ان کی فضیلت بیان فرما دی تاکہ عاصی و گنہگار انسان اللہ تعالیٰ کی بے انتہا نعمتوں اور رحمتوں سے اپنا دامن بھرتا رہے اور سعادت دارین اس کو نصیب ہو، عمل تھوڑا سا کرے اور اجر و ثواب اتنا زیادہ کہ تصور میں نہ آئے، الله تعالیٰ سمجھ اور عمل کی ہمیں توفیق بخشے، آمین۔ اور جن آیات اور سورتوں کی فضیلت حدیثِ صحیح سے ثابت نہ ہو اس پر عمل نہ کرنا ہی بہتر ہے، کیونکہ جس آیت یا سورت میں کوئی فضیلت تھی اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح فرما دیا، جس کی کوئی فضیلت نہیں اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: لم يحكم عليه المحقق
|