من كتاب فضائل القرآن قرآن کے فضائل 4. باب في تَعَاهُدِ الْقُرْآنِ: قرآن پاک کی نسیان سے حفاظت کرنے کا بیان
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: کثرت سے قرآن کی تلاوت کرو اس سے پہلے کہ وہ اٹھا لیا جائے، لوگوں نے کہا: یہ مصاحف اٹھا لئے جائیں گے لیکن لوگوں کے سینوں سے کیسے (قرآن) اٹھایا جائے گا؟ جواب دیا کہ ان پر ایک رات گزرے گی کہ وہ اس سے محروم ہو جائیں گے اور لا الہ الا الله تک کہنا بھول جائیں گے اور جاہلیت کے قول اشعار میں پڑ جائیں گے اور یہ اس وقت ہو گا جب ان پر الله کا قول واقع ہو جائے گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف موسى بن عبيدة وباقي رجاله ثقات، [مكتبه الشامله نمبر: 3384]»
موسیٰ بن عبیدہ کی وجہ سے اس اثر کی سند ضعیف ہے، باقی رواة ثقات ہیں لیکن دوسری جید سند سے بھی سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے موقوفاً ایسے ہی مروی ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 10242]، [ابن منصور 335/2، 97]، [عبدالرزاق 5981]، [الزهد لابن المبارك 803]، [طبراني 153/9، 8698] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف موسى بن عبيدة وباقي رجاله ثقات
سلام بن ابی مطیع نے کہا: قتادہ رحمہ اللہ کہتے تھے: اپنے دلوں کو آباد کرو، اور اپنے گھروں کو آباد رکھو۔ راوی نے کہا: میرے خیال میں ان کا مقصد تھا قرآن سے آباد کرو۔
تخریج الحدیث: «سلام بن أبي مطيع في روايته عن قتادة كلام وهو موقوف على قتادة. وما وقفت عليه في غير هذا المكان، [مكتبه الشامله نمبر: 3385]»
سلام کی قتادہ رحمہ اللہ سے روایت میں کلام ہے۔ کہیں اور یہ روایت نہیں ملی۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: سلام بن أبي مطيع في روايته عن قتادة كلام وهو موقوف على قتادة. وما وقفت عليه في غير هذا المكان
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: ایک رات قرآن پاک پر ایسی گزرے گی کہ ایک آیت بھی نہ مصحف میں رہے گی نہ کسی کے دل میں باقی رہے گی، بلکہ اٹھا لی جائے گی۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن إلى عبد الله، [مكتبه الشامله نمبر: 3386]»
اس اثر کی سند عبداللہ تک حسن و موقوف ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 10242]، [عبدالرزاق 5980] و [البخاري فى خلق أفعال العباد، ص: 86] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن إلى عبد الله
قتادہ رحمہ اللہ نے کہا: قرآن کے لئے جو بھی بیٹھا، پھر کھڑا ہوا تو وہ زیادتی یا نقصان لے کر اٹھے گا، پھر انہوں نے یہ آیت پڑھی: «﴿وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ وَلَا يَزِيدُ الظَّالِمِينَ إِلَّا خَسَارًا﴾» [الاسراء: 82/17] یعنی ”یہ قرآن جو ہم نازل کر رہے ہیں مومنوں کے لئے تو سراسر شفا اور رحمت ہے، ہاں ظالموں کو بجز نقصان کے اور کوئی زیادتی نہیں ہوتی۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف محمد بن كثير بن أبي عطاء، [مكتبه الشامله نمبر: 3387]»
محمد بن کثیر بن ابی عطا کی وجہ سے اس اثر کی سند ضعیف ہے، اور قتادہ رحمہ اللہ پر موقوف ہے۔ دیکھئے: [فضائل أبوعبيد، ص: 56-57] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف محمد بن كثير بن أبي عطاء
ثابت بن عجلان انصاری نے کہا: یہ کہا جاتا تھا کہ اللہ تعالیٰ اہلِ زمین کو عذاب کا ارادہ کرتا ہے لیکن جب بچوں کو حکمت کی تعلیم لیتے سنتا ہے تو ارادہ بدل دیتا ہے۔ مروان نے کہا: حکمت سے مراد قرآن کی تعلیم ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف رفدة بن قضاعة وهو موقوف على ثابث، [مكتبه الشامله نمبر: 3388]»
رفده بن قضاعہ کی وجہ سے اس اثر کی سند ضعیف ہے، جو ثابت بن عجلان پر موقوف ہے۔ «وانفرد به الدارمي» ۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف رفدة بن قضاعة وهو موقوف على ثابث
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے کہا: کچھ لوگوں کے دلوں میں قرآن کریم ایسے ہی پرانا ہو جائے گا جیسے کپڑا پرانا ہو جاتا ہے، لوگ اس کو پڑھیں گے لیکن اس میں رغبت و لذت نہ پائیں گے، ایسے لوگ پگھلنے والے دلوں پر میڈھوں کی کھال پہنیں گے، ان کے اعمال میں لالچ ہو گا، خوف الٰہی اس میں نہ ہو گا، اگر ان سے کوتاہی ہو گی تو کہیں گے ہم عنقریب (منزل مقصود کو) پہنچ جائیں گے، اور اگر گناہ کریں گے تو کہیں گے ہماری مغفرت کر دی جائے گی کیوں کہ ہم اللہ کے ساتھ کوئی شرک نہیں کرتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى معاذ وهو موقوف عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 3389]»
اس حدیث کی سند سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ تک صحیح و موقوف ہے۔ دیکھئے: [مجمع الزوائد] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى معاذ وهو موقوف عليه
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بہت برا ہے تم میں سے کسی کا یہ کہنا کہ میں فلاں فلاں آیت بھول گیا (بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ) مجھے بھلا دیا گیا، اور قرآن مجید کا پڑھنا جاری رکھو کیونکہ انسان کے دلوں میں دور ہو جانے میں وہ اونٹ کے بھاگنے سے بڑھ کر ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 3390]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5032]، [مسلم 790]، [ترمذي 2944]، [نسائي 942]، [أبويعلی 5136]، [ابن حبان 762]، [الحميدي 91] و [موارد الظمآن 1784] وضاحت:
(تشریح احادیث 3372 سے 3379) «نَسِيْتُ» یعنی میں بھول گیا۔ یہ کہنے سے اس لئے منع کیا گیا کہ اس عبارت سے ایسا لگتا ہے کہ بھولنا اس کا اختیاری فعل ہے، حالانکہ یہ تو الله تعالیٰ کی مشیت پر موقوف ہے، چاہے جس کے دل میں قرآن بسا دے اور جس کے دل سے چاہے اس کو مٹا دے۔ « ﴿ذَلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ﴾ [الجمعة: 4] » قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی کتاب کو پڑھو اور اس کی حفاظت کرو (یعنی بار بار دہراؤ) اس سے گنگناؤ اور اس کو لازم پکڑو، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے (یا یہ کہا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں محمد کی جان ہے) کیوں کہ وہ دور ہو جانے میں اونٹ کے بھاگ جانے سے بڑھ کر ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3391]»
اس اثر کی سند صحیح ہے، لیکن موقوف على سیدنا عقبہ رضی اللہ عنہ ہے، آگے موصول روایت بھی آرہی ہے۔ دیکھئے: [أحمد 146/4]، [ابن أبى شيبه 10040]، [نسائي فى فضائل القرآن 59-60] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے اپنے والد سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی کتاب پڑھو، اس کو یاد کرو، اس سے چمٹے رہو، اور اس سے گنگناؤ، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے وہ بھول جانے میں اونٹ کے بھاگ جانے سے زیادہ بڑھ چڑھ کر ہے۔“ (یعنی جس طرح اونٹ بھاگ جاتا ہے قرآن پاک بھی دلوں سے محو ہو جاتا ہے)۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن صالح، [مكتبه الشامله نمبر: 3392]»
عبداللہ بن صالح کی وجہ سے اس روایت کی سند ضعیف ہے، لیکن دوسری سند سے حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن حبان 119]، [نسائي فى فضائل القرآن 60]، [طبراني فى الكبير 290/17، 800]، و [الأوسط 3211]، [موارد الظمآن 1788] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن صالح
ابن ابی ملیکہ سے مروی ہے کہ سیدنا عکرمہ بن ابی جہل رضی اللہ عنہ قرآن پاک کو اپنے چہرے سے لگاتے اور کہتے تھے: میرے رب کی کتاب ہے، یہ میرے پروردگار کی کتاب ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده منقطع ابن أبي ملكية لم يدرك عكرمة وهو موقوف أيضا على عكرمة، [مكتبه الشامله نمبر: 3393]»
اس اثر کی سند میں انقطاع ہے، کیوں کہ ابن ابی ملیکہ نے سیدنا عکرمہ رضی اللہ عنہ کو پایاہی نہیں، نیز یہ اثر سیدنا عکرمہ رضی اللہ عنہ پر ہی موقوف ہے یعنی ان کا اپنا فعل ہے۔ دیکھئے: [طبراني 371/17، 1018]، [الحاكم 243/3]، [البيهقي فى الشعب 2229] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده منقطع ابن أبي ملكية لم يدرك عكرمة وهو موقوف أيضا على عكرمة
ثابت نے بیان کیا کہ عبدالرحمٰن بن ابی لیلی نماز فجر کے بعد طلوع آفتاب تک قرآن پڑھتے رہتے۔ راوی نے کہا: اور ثابت بھی ایسا ہی کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى ثابت وهو موقوف عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 3394]»
اس اثر کی سند ثابت تک صحیح اور موقوف علیہ ہے۔ دیکھئے: [طبقات ابن سعد 751] وضاحت:
(تشریح احادیث 3379 سے 3383) ان تمام آثار و احادیث میں قرآن پاک پڑھنے، اسے حفظ کرنے، یاد رکھنے، اور اس سے برابر لگاؤ رکھنے کی ترغیب ہے، اور اس سے ڈرایا گیا ہے کہ یاد کر کے ایک مسلمان اس کو پسِ پشت نہ ڈالے، اس کو دہراتا رہے اور عمل بھی کرے، قرآن پاک کا یہ معجزہ بھی ان میں مذکور ہے کہ بار بار پڑھنے سے اور تازگی آتی ہے، اکتاہٹ نہیں ہوتی، کتنے ایسے مسلمان ہیں جو پڑھے لکھے ہونے کے باوجود بھی قرآن کو نہ کھول کر دیکھتے ہیں نہ پڑھتے ہیں اور نہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے پوچھا: اے اللہ کی نبی! میں کتنے دن میں قرآن پاک ختم کر سکتا ہوں؟ فرمایا: ایک مہینہ میں، عرض کیا: میں زیادہ پڑھنے کی طاقت رکھتا ہوں۔ فرمایا: پچیس دن میں، پھر بیس دن میں، یہاں تک کہ کہا: پانچ دن میں۔ یہ روایت آگے (3518) نمبر پر آرہی ہے۔ ایک اور روایت میں کم سے کم تین دن میں قرآن پاک ختم کرنے کا حکم ہے۔ شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے فرمایا: ایک مہینے میں ایک قرآن ضرور ختم کرنا چاہئے، اور کم سے کم تین دن میں۔ تین دن سے کم میں قرآن کریم ختم کرنے کی ممانعت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس سے کم میں ختمِ قرآن کرنے والا کچھ نہ سمجھے گا۔ دیکھئے: [سنن ابن ماجه 1347] ۔ الله تعالیٰ سب مسلمانوں کو قرآن پاک پڑھنے اور اس کو یاد کرنے نیز سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیقِ ارزانی نصیب فرمائے، آمین۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى ثابت وهو موقوف عليه
|