من كتاب فضائل القرآن قرآن کے فضائل 34. باب التَّغَنِّي بِالْقُرْآنِ: ترنم کے ساتھ قرآن پڑھنے کا بیان
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص خوش الحانی سے قرآن نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔“ ابن عیینہ نے کہا: «لم يتغن» سے مراد «يستغني» ہے۔ ابومحمد امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: ابونہیک کو لوگ عبیداللہ بن ابی نہیک کہتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3531]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 1469، 1470]، [أبويعلی 689، 748]، [ابن حبان 120]، [الحميدي 76، 77]، [الدورفي فى مسند سعد 127]، [ابوالفضل الرازي فضائل القرآن 90]، [ابن كثير فى الفضائل، ص: 186]، [البيهقي فى شعب الإيمان 2613]، [أبوعبيد فى الفضائل، ص: 209] و [القضاعي فى مسند الشهاب 1194، وغيرهم] وضاحت:
(تشریح احادیث 3518 سے 3520) «مَنْ لَمْ يَتَغَنَّ بِالْقُرْآنِ» کی تفسیر میں علمائے کرام کی مختلف آراء ہیں، بعض نے کہا: جو قرآن پاک کو اچھی آواز سے نہ پڑھے، مد و شد کی رعایت نہ کرے بشرطیکہ کوئی حرف کم یا زیادہ نہ ہو اور راگنی کو دخل نہ دے (یعنی گانے کی طرح نہ پڑھے)۔ بعض علماء نے کہا: جو قرآن پڑھ کر دنیا سے یا شعر و سخن سے بے پرواہ نہ ہو جائے، وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ بعض علماء نے کہا: عرب میں دستور تھا مجلس اور سفر میں گایا کرتے تھے، اب اس کے بدلے میں یہ قرآن پایا کہ قرآن پڑھا جائے، یہی اسلام کا گانا ہے۔ بعض نے کہا: اس سے مراد پکار کر پڑھنا ہے۔ (وحیدی بتصرف) «لَيْسَ مِنَّا» سے مراد یہ ہے: ایسا شخص جو ترنم سے قرآن نہ پڑھے ہمارے اسلامی طریقے پر نہیں ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
طاؤس رحمہ اللہ سے مروی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: کون سا آدمی قرآن کے لئے اچھی آواز والا ہے؟ یا اچھی قراءت کرنے والا کون ہے؟ فرمایا: ”جس کو تم جب پڑھتے ہوئے سنو تو ایسا لگے کہ وہ اللہ سے ڈر رہا ہے۔“ طاؤس رحمہ اللہ نے کہا: طلق ایسے ہی تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف عبد الكريم وهو: ابن أبي المخارق، [مكتبه الشامله نمبر: 3532]»
عبدالکریم بن ابی المخارق کی وجہ سے اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 9694]، [فضائل القرآن لأبي عبيد، ص: 165]، [حلية الأولياء 19/4]، [الطبراني فى الكبير 7/11، 10852]، [ابن كثير فى البداية 243/9] و [المرشد الوجيز لابن شامه، ص: 199] وضاحت:
(تشریح حدیث 3520) مقصد یہ کہ کس شخص کی آواز یا قراءت اچھی مانی جائے گی؟ فرمایا: جس کی تلاوت سے الله کا ڈر پیدا ہو۔ یہ بھی وارد ہے کہ قرآن کو عرب کے لب و لہجے اور ان کی آواز سے پڑھو، اور گا گا کر گانے کی آواز سے پڑھنے کی ممانعت ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف عبد الكريم وهو: ابن أبي المخارق
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”الله تعالیٰ نے کوئی چیز اتنی توجہ سے نہیں سنی جتنی توجہ سے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بہترین آواز کے ساتھ قرآن مجید پڑھتے سناہے۔“ ابوسلمہ کے شاگرد نے کہا: ان کی مراد بلند آواز سے قرآن پڑھنے کی تھی۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف ولكن الحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 3533]»
یہ اثر اس سند سے ضعیف ہے، لیکن اسی طرح صحیحین میں صحیح سند سے موجود ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5023]، [مسلم 792]، [أبويعلی 5959]، [ابن حبان 751]، [الحميدي 979]، [ابن كثير فى فضائل القرآن، ص: 179] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف ولكن الحديث متفق عليه
اس سند سے بھی ویسے ہی مروی ہے جیسے اوپر بیان ہوا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف وهو موقوف على أبي هريرة، [مكتبه الشامله نمبر: 3534]»
ترجمہ و تخریج اوپر گذرچکی ہے، لیکن یہ روایت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پرموقوف ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف وهو موقوف على أبي هريرة
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے لیے فرماتے تھے، جو قرآن بڑی اچھی آواز سے پڑھتے تھے: ”ان کو داؤد علیہ السلام جیسی بہترین آواز عطا کی گئی ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن صالح وهو مرسل ولكن الحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 3535]»
یہ روایت مرسل ہے، اور عبداللہ بن صالح ضعیف ہے، لیکن دوسری سند سے حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5048]، [مسلم 793]، [أبويعلی 7279]، [ابن حبان 7197]، [البيهقي 12/3، 231/10]، [و فى شعب الإيمان 526/2، وغيرهم] وضاحت:
(تشریح احادیث 3521 سے 3524) داؤد علیہ السلام کو اچھی آواز (خوش الحان) کا معجزہ دیا گیا تھا، وہ بھی زبور خوش آوازی سے پڑھتے تھے اور ایک عجیب سماں بندھ جاتا تھا، (راز رحمہ اللہ)۔ «مَزَامِيْر مِزْمَار» کی جمع ہے جو ستار اور بجانے کے آلے کا نام ہے، یہاں مراد خوش الحانی ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن صالح وهو مرسل ولكن الحديث متفق عليه
ابوسلمہ نے ہی بیان کیا کہ سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ جب بھی سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کو دیکھتے تو فرماتے تھے: اے ابوموسیٰ! ہمارے رب کی یاد تازہ کراؤ، چنانچہ وہ ان کے پاس قرآن کی تلاوت کرتے۔
تخریج الحدیث: «في إسناده علتان: ضعف عبد الله بن صالح والانقطاع أبو سلمة لم يسمعه من عمر، [مكتبه الشامله نمبر: 3536]»
اس روایت کی سند میں دو علتیں ہیں: عبداللہ بن صالح ضعیف اور ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کا لقاء امیر المومنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں، لہٰذا سند منقطع ہے۔ دیکھئے: [فضائل القرآن لأبي عبيد، ص: 163]، [فضائل القرآن لابن كثير، ص: 191]، [ابن حبان 7196]، [موارد الظمآن بعين الحديث 2264] و [البيهقي 231/10] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: في إسناده علتان: ضعف عبد الله بن صالح والانقطاع أبو سلمة لم يسمعه من عمر
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: میں تم میں سے کسی کو پیر کے اوپر پیر رکھے قرآن کو گاتے ہوئے اور سورہ بقرہ کو چھوڑے ہوئے نہ پاؤں، بیشک شیطان اس گھر سے بھاگتا ہے جس میں سورہ بقرہ پڑھی جاتی ہے، اور بیشک ویران گھر وہ ہیں جن میں کتاب الٰہی نہ پڑھی جائے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف إبراهيم بن مسلم الهجري وهو موقوف، [مكتبه الشامله نمبر: 3537]»
ابراہیم بن مسلم الہجری کی وجہ سے اس روایت کی سند ضعیف ہے، اور سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ پر یہ روایت موقوف بھی ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 10073]، [عبدالرزاق 5998]، [طبراني فى الأوسط 7762]۔ لیکن سب کی سند ضعیف ہے۔ یہ اثر اس معنی میں پیچھے متعدد بار سورہ بقرہ کی فضیلت میں گذر چکا ہے: اور جس گھر میں یہ سورت پڑھی جائے اس سے یقیناً شیطان بھاگتا ہے۔ دیکھئے رقم (3411)۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف إبراهيم بن مسلم الهجري وهو موقوف
سالم بن عبداللہ رحمہ اللہ کے اہل میں سے کسی نے کہا: سالم البيذق مدینہ طیبہ آئے اور نماز پڑھانے لگے تو سالم رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: کاش آپ بھی جا کر ان کی قراءت سنتے، چنانچہ جب سالم بن عبداللہ دروازے پر پہنچے اور ان کی قراءت سنی تو واپس لوٹ آئے اور کہا: گانا ہے گانا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف فيه جهالة وابن جريج قد عنعن وهو مدلس، [مكتبه الشامله نمبر: 3538]»
اس روایت میں جہالت ہے، اور کسی نسخہ میں سلمہ البيذق ہے کسی میں سالم، نیز ابن جریح کا عنعنہ بھی ہے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ (”گانے والوں اور اہلِ کتاب کے لب و لہجہ سے قرآن کی تلاوت میں پرہیز کرو، میرے بعد ایک قوم ایسی پیدا ہوگی جو قرآن مجید کو گویوں کی طرح گا گا کر پڑھے گی، یہ تلاوت ان کے گلے سے نیچے نہیں اترے گی، اور ان کے دل فتنوں میں مبتلا ہوں گے“ (او كما قال صلی اللہ علیہ وسلم) یعنی ایسی تلاوت قطعاً منع ہے، سالم جو کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے صاحبزادے ہیں ان کے والد نہایت سختی سے سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے تھے، اور سنتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے سرمو انحراف یا خلاف ورزی ان پر شاق گذرتی تھی، کوئی بعید نہیں کہ اس قاری کی قراءت سن کر مذکورہ حدیث کے مطابق گویے کی طرح قرآن پڑھنے کو انہوں نے ناپسند کیا اور گھر واپس لوٹ گئے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف فيه جهالة وابن جريج قد عنعن وهو مدلس
ابن شہاب زہری رحمہ اللہ نے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے روایت کیا کہ سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لاتے تو امیر المومنین ان سے فرماتے تھے: ہمارے رب کی یاد دلاؤ، چنانچہ وہ ان کے پاس تلاوت کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لانقطاعه، [مكتبه الشامله نمبر: 3539]»
اس روایت کی سند میں انقطاع ہے، ابوسلمہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے سنا ہی نہیں۔ پیچھے رقم (3525) پر یہ روایت گذر چکی ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لانقطاعه
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے کسی کو اجازت نہ دی جیسی ایک نبی (خود محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کو خوش الحانی سے قرآن پڑھنے کی“، یعنی بلند آواز سے قرآن پڑھنے کی اجازت دی ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 3540]»
اس حدیث کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [طبقات ابن سعد 79/1/4]۔ نیز دیکھئے: مزید تفصیل کے لئے رقم (3522)۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
عبداللہ بن بریدہ نے اپنے والد سے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کو آل داؤد کی سریلی آواز عطا کی گئی ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3541]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ بعض نسخ میں عن ابی بریدہ ہے جو غلط ہے۔ راوی ابن بریدہ ہیں۔ دیکھئے: [مسلم 793]، [أحمد 349/5]، [ابن أبى شيبه 9987]، [البيهقي 230/10] و [الحاكم 7757] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو ایک صحابی کی قراءات سنی، فرمایا: ”یہ کون ہیں؟“ عرض کیا گیا: عبداللہ بن قیس (سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ) ہیں، فرمایا: ”ان کو آل داؤد کی مزامیر میں (سریلی) آواز عطا کی گئی ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 3542]»
اس حدیث کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [ابن ماجه 1341]، [ابن حبان 7196] و [موارد الظمآن 2264] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قرآن کو اپنی آواز کے ساتھ زینت دو۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3543]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 1468]، [نسائي 1014]، [ابن ماجه 1342]، [أبويعلی 1687، 1706]، [ابن حبان 749]، [موارد الظمآن 660]، [فضائل القرآن لأبي عبيد 160]، [فضائل القرآن للرازي، ص: 190، وغيرهم] وضاحت:
(تشریح احادیث 3524 سے 3532) اس حدیث میں قرآن کو اپنی آواز سے آراستہ کرنے کا مطلب یہی ہے کہ خوش آوازی کے ساتھ قرآن پڑھو، یہ مطلب نہیں کہ میوزک یا گانے کی طرح آواز نکالو۔ واللہ اعلم۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہما نے کہا: میں نے سنا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: ”قرآن اپنی اچھی آواز سے پڑھو کیونکہ اچھی آواز قرآن کو مزید خوشنما بنا دیتی ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3544]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مستدرك الحاكم 575/1] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
|