من كتاب فضائل القرآن قرآن کے فضائل 1. باب فَضْلِ مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ: جو قرآن پڑھے اس کی فضیلت کا بیان
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک جس آدمی کے سینے میں قرآن پاک میں سے کچھ نہیں وہ ویران گھر کے مانند ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 3349]»
اس حدیث کی سند قابوس کی وجہ سے حسن ہے۔ حوالہ دیکھئے: [ترمذي 2914]، [أحمد 223/1]، [طبراني 109/12، 12619]، [ابن كثير فى فضائل القرآن، ص: 284]، [السهمي فى تاريخ جرجان من طريق الدارمي، ص: 412]، [البغوي فى شرح السنة 1185]، [الحاكم فى المستدرك 554/1] و [البيهقي فى شعب الإيمان 3349] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ قرآن پاک اللہ تعالیٰ کا دسترخوان ہے، جتنا ہو سکے اس کو لے لو، میرے علم میں کوئی گھر اتنا محتاج نہیں جس میں الله کی کتاب کا کچھ حصہ نہ ہو، بیشک وہ دل جس میں کتاب اللہ میں سے کچھ نہ ہو وہ ویران ہے اس گھر کی ویرانی کی طرح جس میں کوئی رہتا نہ ہو۔
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات غير أن أبا سنان سعيد بن سنان متأخر السماع من أبي إسحاق وهو موقوف على ابن مسعود، [مكتبه الشامله نمبر: 3350]»
یہ اثر سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ پر موقوف ہے۔ اس کے رجال ثقات ہیں۔ مذکور بالا حدیث اس کے آخری حصے کی تائید ہوتی ہے۔ اس اثر کو دیکھئے: [ابن أبى شيبه 10071]، [عبدالرزاق 5998]، [طبراني 138/9، 8642] میں۔ نیز دیکھئے: اگلی حدیث۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات غير أن أبا سنان سعيد بن سنان متأخر السماع من أبي إسحاق وهو موقوف على ابن مسعود
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: اس قرآن کریم کو سیکھو، تم کو اس کی تلاوت کے ہر حرف پر دس نیکیوں کا اجر دیا جائے گا، میں نہیں کہتا «الم» (ایک حرف ہے) بلکہ «الف لام ميم» تین حروف ہیں اور ہر حرف کے بدلے دس نیکیاں ہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وهو موقوف، [مكتبه الشامله نمبر: 3351]»
یہ اثر موقوف علی سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ ہے۔ اور ابوالاحوس کا نام عوف بن مالک ہے۔ بعض رواۃ نے اس کو مرفوعاً بھی روایت کیا ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 2912، وقال: هذا حديث حسن صحيح]۔ نیز دیکھئے: [ابن أبى شيبه 9981، 10071]، [عبدالرزاق 5993]، [البخاري فى الكبير 216/1]، [الطبراني 139/9، 8648، 8649] و [ابن الضريس فى فضائل القرآن 60] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وهو موقوف
حفص بن غیاث حنفی نے بیان کیا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے تھے: بیشک گھر میں اگر قرآن پاک پڑھا جائے تو وہ اس گھر والوں کے لئے کشادہ ہو جاتا ہے (رحمت کے) فرشتے وہاں حاضر ہوتے ہیں، اور شیطان اس گھر کو چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں، اور اس میں خیر کی کثرت ہوتی ہے، اور جس گھر میں قرآن کریم نہ پڑھا جائے وہ اپنے رہنے والوں کے لئے تنگ ہو جاتا ہے، فرشتے اسے چھوڑ جاتے ہیں اور شیطان آ کر اس میں بس جاتے ہیں اور اس میں خیر کی قلت ہوتی ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وهو موقوف على أبي هريرة، [مكتبه الشامله نمبر: 3352]»
اس اثر کی سند صحیح ہے، اور یہ بھی موقوف على سیدنا ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 10076]، [فضائل القرآن لابن الضريس 185] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وهو موقوف على أبي هريرة
عقبہ بن عامر کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”قرآن پاک اگر چمڑے پر لکھا جائے، پھر آگ میں ڈال دیا جائے تو وہ جلے گا نہیں۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف ابن لهيعة، [مكتبه الشامله نمبر: 3353]»
ابن لہیعہ کی وجہ سے اس حدیث کی سند ضعیف ہے، لیکن بہت سے طرق سے مروی ہے۔ دیکھئے: [فضائل القرآن للفريابي 2]، [شرح مشكل الآثار للطحاوي 906]، [فضائل القرآن لابن كثير، ص: 303]، [أحمد 151/4]، [أبويعلی 1745]، [طبراني 308/17، 850]، [شعب الايمان للبيهقي 2699، وغيرهم] وضاحت:
(تشریح احادیث 3337 سے 3342) قرآن کریم الله کا کلام اور آسمانی صحیفہ ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کے پڑھنے والے کو ہر ہر حرف پر دس دس نیکیاں ثواب میں ملتی ہیں، آگے بھی قرآن پاک کے فضائل مذکور ہیں، اس حدیث کی سند گرچہ ضعیف ہے لیکن اللہ تعالیٰ اس طرح کے کرشمے کبھی کبھی دنیا میں دکھا دیتا ہے، چند سال قبل سعودیہ کا ایک ہوائی جہاز حادثے کا شکار ہوا، اس کے پائلٹ کے کپڑے اور جسم جل گیا لیکن جیب میں رکھا ہوا قرآن پاک کا نسخہ جلنے سے محفوظ رہا، اخبارات نے جلی حرفوں میں اللہ تعالیٰ کی اس نشانی کا ذکر کیا۔ «سبحان من يخلق و يحفظ.» امام طحاوی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اس کا مطلب ہے جلنے سے پہلے اللہ تعالیٰ اس کے حروف مٹا دیتا ہے۔ واللہ اعلم۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف ابن لهيعة
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: قرآن پڑھو، وہ قیامت کے دن بہت اچھا شفیع ہو گا، وہ قیامت کے دن کہے گا: اے میرے رب! اس (قاری قرآن) کو کرامت کا زیور پہنا دے، چنانچہ اس کو عزت و کرامت کے زیور سے آراستہ کر دیا جائے گا، تو پھر وہ کہے گا: اے رب! اس کو کرامت کا لباس بھی پہنا دے، چنانچہ اس شخص کو کرامت کا لباس پہنا دیا جائے گا، پھر وہ سفارش کرے گا: اے رب! اس کو کرامت کا تاج بھی پہنا دے، اے رب! اس سے راضی ہو جا، تیری رضا مندی کے بعد کسی چیز کی ضرورت نہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن من أجل عاصم وهو: ابن أبي النجود، [مكتبه الشامله نمبر: 3354]»
عاصم بن ابی النجود کی وجہ سے اس اثر کی سند حسن ہے۔ دیگر اسانید سے یہ مرفوعاً بھی روایت ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 2916، مرفوعًا وقال: هذا حديث حسن صحيح]، [الحاكم 552/1]، [البيهقي فى شعب الإيمان 1996، 1997]۔ نیز دیکھئے: [ابن أبى شيبه 10096]، [فضائل القرآن لابي عبيد، ص: 83] و [فضائل القرآن لابن الضريس 101، 109]۔ نیز امام ترمذی نے فرمایا: «شعبه عن عاصم بن بهدله عن أبى صالح عن أبى هريرة موقوفًا وهذا أصح من حديث عبدالصمد عن شعبه» قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن من أجل عاصم وهو: ابن أبي النجود
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: قیامت کے دن قرآن کریم آئے گا اور اپنے پڑھنے والے کے لئے شفاعت کرتے ہوئے کہے گا: اے رب! ہر مزدور کے لئے اس کے کام کی مزدوری ہے، اور میں اس کو لذت رسانی سے اور سونے سے روکتا تھا، تو اس کی عزت افزائی فرما، کہا جائے گا: اپنا داہنا ہاتھ دراز کرو اور اس کو اللہ تعالیٰ کی رضامندی سے بھر دیا جائے گا، پھر کہا جائے گا: بایاں ہاتھ پھیلاؤ اس کو بھی الله تعالیٰ کی رضا سے بھر دیا جائے گا، اور اس کو عزت و کرامت کا لباس پہنایا جائے گا، کرامت کے زیور سے وہ آراستہ کیا جائے گا اور اس (کے سر) پر کرامت کا تاج رکھا جائے گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن من أجل عاصم، [مكتبه الشامله نمبر: 3355]»
اس اثر کی سند عاصم کی وجہ سے حسن ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 10098، 10099]، [ابن منصور 22]، [فضائل القرآن لابن الضريس 102]، موقوفاً علی سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن من أجل عاصم
ابوصالح نے کہا: قرآن کریم اپنے پڑھنے والے کے لئے سفارش کرے گا تو اس (قاری) کو کرامت کی پوشاک پہنائی جائے گی، قرآن عرض کرے گا: اے رب! اور اضافہ فرما، چنانچہ کرامت کا تاج پہنایا جائے گا، کہا پھر وہ کہے گا: اے رب! اور مزید عطاء فرما، اس کو اور نواز دے، اللہ تعالیٰ اس کو اپنی رضامندی عطا کرے گا۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: وہیب بن الورد نے کہا: قرآن کی قرأت کو علم بناؤ (صرف) عمل نہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده جيد وهو موقوف على أبي صالح، [مكتبه الشامله نمبر: 3356]»
اس اثر کی سند جید اور موقوف علی ابی صالح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 10097]، [فضائل القرآن لابن ضريس 102] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد وهو موقوف على أبي صالح
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم میں سے کوئی پسند کرے گا کہ وہ جب اپنے گھر آئے تو تین نہایت فربہ حاملہ اونٹنیاں کھٹری پائے؟“ عرض کیا: بے شک یا رسول اللہ! (ہم میں سے ہر کوئی اس کو پسند کرتا ہے)، فرمایا: ”پس تین آیات جن کو انسان پڑھتا ہے ان تین (موٹی حاملہ) اونٹنیوں سے بہتر ہیں۔“
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 3357]»
اس حدیث کی سند جید ہے اور حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 802]، [ابن ماجه 3782]، [أحمد 266/2، 396]، [ابن أبى شيبه 10122]، [فضائل القرآن للفريابي 70]، [شرح السنة للبغوي 1177]، [شعب الايمان 2242، وغيرهم]۔ مسلم اور ابن ماجہ میں تین آیات نماز میں پڑھنے کا ذکر ہے۔ وضاحت:
(تشریح احادیث 3342 سے 3346) سبحان اللہ! کیا فضیلت ہے قرآن پڑھنے کی، صرف تین آیات اور اتنا بڑا ثواب، تین اونٹنیاں وہ بھی حاملہ اور موٹی تازی جن کی اس زمانے میں بڑی قیمت تھی، افسوس ہم اتنا بھی نہیں کر پاتے، اور یہ مثال تو دنیا کے لوگوں کی فہمائش کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ورنہ آیاتِ قرآنیہ تو آخرت کی بہت عمدہ نعمتوں میں سے ہیں اور بارگاهِ عالی میں درجات بلند کرانے والی ہیں۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: بیشک یہ قرآن اللہ کا دسترخوان ہے، اس کے دسترخوان سے جتنا ہو سکے علم حاصل کرو، بیشک یہ قرآن کریم اللہ کی رسی، نور، شفا اورنفع بخش ہے، جو اس کو تھامے اس کے لئے (گناہوں سے بچنے کا) سبب ہے، اور جو اس کی پیروی کرے اس کے لئے نجات ہے، اس پر چلنے والا گمراہ نہ ہوگا کہ اس کو رضامندی طلب کرنی پڑے، نہ ٹیڑھا ہو گا کہ اس کو سیدھا کرنا پڑے، اور اس کے عجائب ختم ہونے والے نہیں ہیں، اور بار بار پڑھنے سے یہ پرانا نہ ہو گا، اس کو پڑھو بیشک اس کی تلاوت پر الله تعالیٰ تمہیں اجر و ثواب سے نوازے گا، ہر ایک حرف کے بدلے دس نیکیاں ہیں، میں نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے بلکہ الف لام اور میم (الگ الگ حرف) ہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف إبراهيم الهجري، [مكتبه الشامله نمبر: 3358]»
ابراہیم بن مسلم الہجری کی وجہ سے اس اثر کی سند ضعیف ہے۔ بعض رواۃ نے اس کو مرفوعاً بھی روایت کیا ہے۔ اس کا طرف اول (3339) پر گذر چکا ہے۔ مزید حوالے کے لئے دیکھئے: [عبدالرزاق 6017]، [طبراني 139/9، 8646]، [أبونعيم فى الحلية 130/1]، [الحاكم فى المستدرك 555/1]، [أبوعبيد فى فضائل القرآن، ص: 49-50]، [نسائي فى عمل اليوم 963] و [أبونعيم فى أخبار أصبهاني 278/2]، [ابن منصور 7] و [البيهقي فى شعب الايمان 1985]، «كلهم عن طريق ابراهيم الهجري» ۔ وضاحت:
(تشریح حدیث 3346) اگرچہ اس اثر کی سند ضعیف ہے لیکن قرآن پاک کے وصف میں تمام جملے مبنی برحقیقت ہیں اور ہر جملے کا شاہد قرآن یا حدیث میں موجود ہے: « ﴿وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيعًا .....﴾ [آل عمران: 103] » اور « ﴿وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ وَلَا يَزِيدُ الظَّالِمِينَ إِلَّا خَسَارًا﴾ [الإسراء: 82] » نیز «مَنْ يَهْدِهِ اللّٰهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ، وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَا هَادِيَ لَهُ [مسلم: 868]، اقْرَءُوا الْقُرْآنَ، فَإِنَّهُ يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ شَفِيعًا لِأَصْحَابِهِ [مسلم: 804] وفي رواية: كِتَابُ اللّٰهِ فِيهِ الْهُدَى وَالنُّورُ مَنِ اسْتَمْسَكَ بِهِ وَأَخَذَ بِهِ كَانَ عَلَى الْهُدَى، وَمَنْ أَخْطَأَهُ ضَلَّ [مسلم 2408] او كما قال عليه الصلاة والسلام» یہ بھی صحیح ہے کہ اس قرآن پاک کے عجائب کبھی ختم ہونے والے نہیں، اس کی واضح مثال یہ ہے کہ چودہ سو سال میں بے شمار تفاسیر لکھی گئیں، ہر مفسر ایک نئی راہ اور مثال بیان کرتا ہے اور اب تک یہ سلسلہ جاری ہے، پچھلی صرف ایک دہائی میں صرف اردو میں کتنی تفسیر طبع ہوئیں ہیں اس پر غور کیا جائے، اور ہر تفسیر میں نیا اسلوب دیکھنے اور سمجھنے کو ملے گا، اور اسی لئے جب بعض اسلاف سے کہا گیا کہ آپ رات رات بھر بیٹھے قرآن پڑھتے رہتے ہیں سوتے بھی نہیں؟ کہا: کیا کروں، قرآن پڑھتا ہوں تو ایک عجوبہ سے نکل نہیں پاتا کہ دوسرا عجوبہ شروع ہو جاتا ہے۔ سبحان اللہ العظیم! کیا فہمِ قرآن ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اس کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف إبراهيم الهجري
سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے کہا: ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ سنانے کو کھڑے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی حمد اور اس کی تعریف بیان کی پھر فرمایا: ”اے لوگو! میں بشر (آدمی) ہوں، قریب ہے میرے پروردگار کا بھیجا ہوا (موت کا فرشتہ) آوے اور میں (اس کی بات) قبول کر لوں، میں تمہارے پاس دو بڑی چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، پہلی تو اللہ کی کتاب، اس میں ہدایت ہے اور نور ہے، پس تم اللہ کی کتاب کو تھامے رہو اور اسے مضبوطی سے پکڑے رہو،“ غرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتاب اللہ کی طرف ابھارا اور رغبت دلائی پھر فرمایا: ”اور میرے اہل بیت، میں تم کو اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ یاد دلاتا ہوں“، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار یہ فرمایا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3359]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 2408]، [أحمد 366/4]، [ابن حبان 123] وضاحت:
(تشریح حدیث 3347) یہ خطبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سن نو ہجری میں حجۃ الوداع سے لوٹتے ہوئے دیرخم کے مقام پر دیا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری وصیت اپنی امّت کے لئے یہی کی کہ ثقلین کو مضبوطی سے تھامنا، اور ثقلین سے مراد کتاب اللہ اور سنّتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے، جو ان کی عظمتِ شان کی وجہ سے یا ان پر عمل کے لحاظ سے بھاری ہونے کی وجہ سے ثقلین کہے جاتے ہیں، قرآن پاک میں جن و انس کو بھی ثقلین کہا گیا ہے۔ ایک وصیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہلِ بیت کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی کی، اور اہلِ بیت سے مراد ازواجِ مطہرات، بنوہاشم، بنوعبدالمطلب، اور بعض نے کہا: بنوقصی اور تمام قریش کے لوگ ہیں۔ اسی مسلم کی حدیث میں آخر میں ہے جب سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ اہل بیت کون ہیں؟ تو انہوں نے کہا: وہ آلِ علی، آلِ عقیل اور آلِ جعفر و آلِ عباس ہیں جن کے لئے صدقہ لینا حرام ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ راستہ گھیرا ہوا ہے، شیاطین اس کو گھیرے ہوئے ہیں (یعنی گمراہی کے راستے کی طرف بلاتے ہیں) اور وہ پکاریں لگاتے ہیں اے عبداللہ (وفی روایہ اے اللہ کے بندو) یہ ہی صحیح راستہ ہے، سو تم اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور اللہ کی رسی قرآن کریم ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى عبد الله، [مكتبه الشامله نمبر: 3360]»
اس روایت کی سند سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تک صحیح و موقوف ہے۔ دیکھئے: [ابن منصور 1083/3، 519]، [طبراني 240/9، 9031]، [ابن ضريس فى فضائل القرآن 74] و [البيهقي فى شعب الايمان 2025] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى عبد الله
خالد بن معدان نے کہا: بیشک قرآن پڑھنے والے اور قرآن کے متعلم کے لئے فرشتے اس وقت تک دعا کرتے ہیں جب تک کہ وہ سورت ختم کر لیں، اس لئے قرآن پڑھنے اور سیکھنے والے کو چاہیے کہ دو آیتیں باقی رہنے دے اور دن کے آخر میں پڑھے تاکہ پڑھنے اور پڑھانے والے کے لئے فرشتے صبح سے شام تک دعا کرتے رہیں۔
تخریج الحدیث: «لم يحكم عليه المحقق، [مكتبه الشامله نمبر: 3361]»
عبدۃ: خالد بن معدان کی بیٹی ہیں، لیکن ان کا ترجمہ کہیں نہیں ملا، باقی رجال ثقہ ہیں، اور یہ اثر خالد بن معدان پر موقوف ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 10128] اور [كنز العمال 2400] میں اس اثر کو حکیم الترمذی کی طرف منسوب کیا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: لم يحكم عليه المحقق
سیدنا ابوامامہ الباہلي رضی اللہ عنہ کہتے تھے: قرآن پڑھا کرو، یہ لٹکے ہوئے مصاحف تمہیں دھوکے میں نہ ڈالیں، کیوں کہ اللہ تعالیٰ اس دل کو ہرگز عذاب میں مبتلا نہیں کرے گا جس میں قرآن سمایا ہو (یعنی جس نے قرآن حفظ کیا ہو)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3362]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 10128] و [البخاري فى خلق أفعال العباد، ص: 87] وضاحت:
(تشریح احادیث 3348 سے 3351) معلوم ہوا قرآن یا قران پاک کی آیات و صور لٹکانے سے چنداں فائدہ نہ ہوگا، جس طرح لوگ آیت الکرسی، سورۂ الرحمٰن، سورۂ یس وغیرہ لٹکاتے ہیں یا معوذات کے فریم لگاتے ہیں، اصل چیز قرآن پڑھنا اور اس کو سمجھنا ہے، یہی انسان کو دنیا و آخرت میں فائدہ دے گا، ریشم کے جز دانوں میں لپیٹ کر رکھ دینے یا تعویذ بنا کر لٹکانے سے کیا ملے گا؟ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
اس اثر کا ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزر چکا ہے۔ بعض روایات میں «وعاءً للقرآن» ہے۔ یعنی جو دل قرآن کا گھر ہو۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن صالح، [مكتبه الشامله نمبر: 3363]»
اس کی تخریج وہی ہے جو اوپر گذر چکی ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن صالح
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: ہر مؤدّب (ادب سکھانے والا) چاہتا ہے کہ اس کے ادب کو اپنایا جائے، اور الله تعالیٰ کا ادب قرآن کریم ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى عبد الله، [مكتبه الشامله نمبر: 3364]»
اس اثر کی سند سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تک صحیح اور موقوف ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى عبد الله
ابوالاحوص نے کہا: سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے تھے: بیشک یہ قرآن الله کا دسترخوان ہے، جو اس پر آیا وہ مامون و محفوظ ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3365]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ مذکورہ بالا دونوں اثر رقم (3339) کے اطراف ہیں۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: جو قرآن سے محبت رکھے اس کے لئے بشارت ہے۔ (یعنی اس کو خوش ہونا چاہیے۔)
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى عبد الله، [مكتبه الشامله نمبر: 3366]»
اس اثر کی سند سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ تک صحیح و موقوف ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 10129]، [ابن منصور 12/1، 3] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى عبد الله
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: جو قرآن سے محبت رکھے اس کے لئے بشارت ہے۔ (یعنی اس کو خوش ہونا چاہیے۔)
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3367]»
اس کی تخریج اوپر گذر چکی ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے تھے: قیامت کے دن قرآن پاک آئے گا اور اپنے پڑھنے والے کے لئے شفاعت کرے گا، اور اس کی جنت کی طرف رہنمائی کرے گا، اس کے لئے شہادت دے گا اور اس کو جہنم سے ہنکا لے جائے گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن إلى الشعبي، [مكتبه الشامله نمبر: 3368]»
اس اثر کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 10102]، [ابن ضريس فى فضائل القرآن 96، 108] و [أبوالفضل الرازي 124]۔ بعض روایات میں «يكون له سائقًا إلى النار» ہے جس کی تصریح دوسری روایت میں یوں ہے: «ومن جعله خلفه قادہ إلى النار» یعنی جس نے اس کو پسِ پشت ڈالا اس کو یہ قرآن جہنم کی طرف لے جائے گا۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن إلى الشعبي
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمیوں میں سے کچھ لوگ اللہ والے ہیں۔“ عرض کیا گیا: وہ اہل اللہ کون ہیں؟ فرمایا: ”وہ اہل قرآن ہیں“ (یعنی قرآن پڑھنے پڑھانے والے)۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف الحسن بن أبي جعفر ولكنه لم ينفرد به كما يتبين من مصادر التخريج، [مكتبه الشامله نمبر: 3369]»
حسن بن ابی جعفر کی وجہ سے اس اثر کی سند ضعیف ہے، لیکن صحیح سند سے بھی یہ روایت مروی ہے۔ دیکھئے: [ابن ماجه 215]، [النسائي فى الكبریٰ 8031]، [أحمد 127/3]، [الطيالسي 1885]، [ابن ضريس فى فضائل القرآن 75]، [الحاكم 556/1]، [أبونعيم فى الحلية 40/9، وغيرهم] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف الحسن بن أبي جعفر ولكنه لم ينفرد به كما يتبين من مصادر التخريج
سیدنا کعب رضی اللہ عنہ نے کہا: قرآن کو تھامے رہو کیوں کہ یہ عقل کو فہم دیتا ہے، اور حکمت کا نور ہے، علم کے سر چشمے ہیں، اور اللہ تعالیٰ کے قرب کے تعلق سے یہ سب سے نئی کتاب ہے، توراۃ میں مخاطب کرتے ہوئے الله تعالیٰ نے فرمایا: اے محمد! میں تمہارے اوپر توراۃ ایک نئی کتاب نازل کرنے والا ہوں جس سے بند آنکھیں، بہرے کان، غافل پردہ پڑے ہوئے دل کھل جائیں گے۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 3370]»
یہ اثر موقوف ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11787، بسند صحيح] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ قرآن پاک تمہارے لئے باعث اجر و ثواب، تمہارے لئے ذکر اور نور ہے، یا پھر (عمل نہ کرنے پر) یہ تمہارے لئے وبال ہے، اس قرآن کی پیروی کرو اور (خیال رکھو) قرآن تمہارا پیچھا نہ کرے کیوں کہ جس نے قرآن کی اتباع کی اس کو وہ جنت کی کیاریوں میں لے جائے گا، اور قرآن جس کا پیچھا کرے اس کو وہ گدی کے بل کھینچ کر جہنم میں ڈال دے گا۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: «يزخ» کا مطلب ہے «يدفع» یعنی کھینچ کر لے جائے گا۔
تخریج الحدیث: «أبو كنانة ما رأيت فيه جرحا ولا تعديلا فهو على شرط ابن حبان وباقي رجاله ثقات، [مكتبه الشامله نمبر: 3371]»
اس اثر کی سند لا باس بہ ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 10064، 16671]، [ابن منصور 49/1، 8]، [أبونعيم فى حلية الأولياء 257/2]، [البيهقي فى شعب الإيمان 2023]۔ ابن الضريس نے [فضائل القرآن 67] میں ذکر کیا ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: أبو كنانة ما رأيت فيه جرحا ولا تعديلا فهو على شرط ابن حبان وباقي رجاله ثقات
ایاس بن عامر کہتے ہیں: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے میرا ہاتھ پکڑا پھر فرمایا: اگر تم زندہ رہے (تو دیکھو گے کہ) قرآن کو تین قسم کے لوگ پڑھیں گے، جن میں سے ایک قسم قرآن کو اللہ کے لئے پڑھے گی، اور ایک قسم لڑائی جھگڑے (مناظرے) کے لئے، اور ایک صنف دنیا کے لئے پڑھے گی اور جس نے مطلب براری کے لئے پڑھا وہ مطلب حاصل کرے گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3372]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [موارد الظمآن 506] و [مسند على 734] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
ابوقلابہ سے مروی ہے ایک آدمی نے سیدنا ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے کہا: کوفہ کے تمہارے اہل ذکر بھائی تم کو سلام کہتے ہیں، انہوں نے کہا: وعلیہم السلام، ان سے کہنا کہ قرآن کو اس کا حق دیں (یعنی اس کے احکام کی پوری طرح سے پیروی کریں)، قرآن ان کو میانہ روی اور آسانی کی طرف لے جائے گا اور انہیں ظلم و زیادتی سے بچائے گا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لانقطاعه أبو قلابة عبد الله بن زيد لم يدرك أبا الدرداء، [مكتبه الشامله نمبر: 3373]»
اس اثر کی سند میں انقطاع ہے۔ ابوقلابہ عبداللہ بن زید نے سیدنا ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کو پایا ہی نہیں۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 10211]، [عبدالرزاق 5996] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لانقطاعه أبو قلابة عبد الله بن زيد لم يدرك أبا الدرداء
حارث الاعور نے کہا: میں مسجد میں داخل ہوا تو دیکھا لوگ باتیں بنا رہے تھے، سو میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور عرض کیا: کیا آپ دیکھتے نہیں کہ لوگ مسجد میں بیٹھے ہوئے باتیں بنا رہے ہیں؟ انہوں نے کہا: کیا وہ لوگ ایسا کر رہے ہیں؟ میں نے کہا: جی ہاں، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا: سنو! میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”عنقریب فتنے نمودار ہوں گے“، میں نے عرض کیا: ان سے نکلنے کا راستہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کتاب اللہ (یعنی ان سے بچنے کا ذریعہ قرآن ہے)، اللہ کی کتاب میں تم سے پہلے (گزرے) لوگوں کی خبر ہے، اور ان کی خبر ہے جو تمہارے بعد (دنیا میں) آئیں گے، اور وہ تمہارے درمیان حکم ہے (یعنی جو تمہارے درمیان اختلافات ہوں ان کے لئے حکم ہے)، وہ دوٹوک ہے، ہنسی ٹھٹھا نہیں ہے، جس نے اس کو حقیر سمجھ کر پسِ پشت ڈالا الله تعالیٰ اس کے ٹکڑے کر ڈالے گا، اور جس نے اس کے غیر میں ہدایت ڈھونڈی الله تعالیٰ اس کو گمراہ کر دے گا، اور وہ اللہ تعالیٰ کی مضبوط رسی ہے، اور حکمت و دانائی والا ذکر ہے، اور سیدھی راہ ہے، وہ ایسی کتاب ہے جس کو انسانی چاہتیں (اہواء) ٹیڑھا نہیں کر سکتی ہیں، اور اس میں زبانیں نہیں مل سکتی ہیں، اور علماء اس سے سیراب ہو کر اکتاتے نہیں ہیں، اور بار بار پڑھنے سے یہ پرانا نہیں ہوتا، اور اس کے عجائب ختم نہیں ہوتے، اور یہ ایسی کتاب ہے کہ جب جنات نے اسے سنا تو یہ کہے بغیر نہ رہ سکے کہ ”ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے۔“ [الجن 1/72] ، جس نے اس کے مطابق کہا تو سچ کہا، اور اس کے مطابق فیصلہ کیا تو انصاف کیا، اس کے مطابق عمل کیا تو اسے اجر دیا گیا، اور جس نے اس کی طرف بلایا وہ صراط مستقیم کی طرف ہدایت سے نوازا گیا۔“ اے حارث اعور اسے یاد کر لو۔
تخریج الحدیث: «في إسناده مجهولان: أبو المختار سعد الطائي وابن أخي الحارث، [مكتبه الشامله نمبر: 3374]»
اس اثر کی سند میں ابوالمختار الطائی اور ابن اخی الحارث مجہول ہیں اور حارث الاعور متکلم فیہ۔ دیکھئے: [ترمذي 2908]، [ابن أبى شيبه 10056]، [بيهقي فى شعب الإيمان 1935، 1936]، [بغوي فى شرح السنة 1181]، [الخطيب فى الفقيه والمتفقه 55/1]، [أحمد مختصرًا 91/1] و [أبويعلی 367] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: في إسناده مجهولان: أبو المختار سعد الطائي وابن أخي الحارث
حارث الاعور سے مروی ہے سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا: آپ کے بعد ہو سکتا ہے آپ کی امت فتنوں میں مبتلا ہو جائے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ ان فتنوں سے نکلنے کا راستہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس سے نکلنے کا راستہ الله تعالیٰ کی عزت والی کتاب ہے (جس کے پاس باطل پھٹک بھی نہیں سکتا، نہ اس کے آگے سے، نہ اس کے پیچھے سے، یہ ہے نازل کردہ حکمتوں والے خوبیوں والے اللہ کی طرف سے ...... فصلت 42/41)، جو اس کے علاوہ (کسی کتاب میں) ہدایت تلاش کرے گا الله تعالیٰ اس کو گمراہ کر دے گا، جو اس امر کا والی ہو اور اس کے بغیر فیصلہ کرے اللہ تعالیٰ اس کو توڑ ڈالے گا، وہ دانائی والا ذکر ہے، نور مبین ہے اور صراط مستقیم (سیدھا راستہ) ہے، اس میں تم سے پہلے لوگوں کی خبر اور تمہارے بعد آنے والوں کی اطلاع ہے، اور یہ تمہارے درمیان حکم (فیصلہ دینے والا) ہے، دوٹوک ہے، ہنسی مذاق نہیں ہے، یہ قرآن ایسا ہے جس کو جنات نے سنا توہ یہ کہنے سے نہ رک سکے ”ہم نے ایسا عجیب قرآن سنا ہے جو راہِ حق کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔“ [الجن 1/72]
، جو بار بار پڑھنے سے پرانا نہیں ہوتا (یعنی اس سے آدمی اکتاتا نہیں ہے)، اس کی عبرتیں ختم نہیں ہوتی ہیں نہ اس کے عجائب تمام ہوتے ہیں۔“ پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے حارث اعور سے کہا: اس کو یاد کر لو اے اعور۔ تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 3375]»
حارث بن عبداللہ الاعور کی وجہ سے اس کی سند میں کلام ہے، لیکن دیگر اسانید سے حسن کے درجہ کو پہنچتی ہے۔ دیکھئے: [الفقيه والمتفقه للخطيب 55/1]، [أبوالفضل عبدالرحمٰن بن أحمد الرازى فى فضائل القرآن 35] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
ابراہیم رحمہ اللہ سے مروی ہے اس آیت: «﴿وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ . . . . . .﴾» [البقره: 269/2] میں حکمت سے مراد قرآن کی فہم ہے۔ یعنی: جو شخص حکمت اور سمجھ دیا جائے وہ بہت ساری بھلائی دیا گیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف إلى إبراهيم، [مكتبه الشامله نمبر: 3376]»
اس اثر کی سند ابراہیم رحمہ اللہ تک موقوف اور ضعیف ہے۔ دیکھئے: [تفسير ابن جرير الطبري، آيت مذكوره 90/3]۔ ابن وکیع نے کہا: «اَلْحِكْمَةَ: هِيَ الْفَهْمُ» ۔ ابوحمزہ کانام میمون القصاب الاعور ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف إلى إبراهيم
مجاہد نے کہا: «﴿يُؤْتِي الْحِكْمَةَ مَنْ يَشَاءُ . . . . . .﴾» [البقره: 269/2] الله جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے، اس آیت میں حکمت سے مراد کتاب الٰہی ہے جس کو (اللہ چاہتا ہے) اس کو اصابت رائے عطا کی جاتی ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى مجاهد، [مكتبه الشامله نمبر: 3377]»
اس اثر کی سند مجاہد تک صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 3009]، [تفسير طبري 90/3]، [الدر المنشور 348/1] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى مجاهد
خیثمہ نے اپنی بیوی سے کہا: خبردار! میرے اس گھر میں جو شراب پیتے ہیں ان کو داخل نہ کرنا اس کے باوجود کہ ہر تین دن میں اس میں قرآن پڑھا جاتا ہو۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن من أجل محمد بن يزيد أبي هاشم الرفاعي، [مكتبه الشامله نمبر: 3378]»
اس اثر کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [المعرفة و التاريخ للفسوي 143/3]، [حلية الأولياء لأبي نعيم 115/4]۔ اس میں ہے کہ میں ایک آدمی سے خوف کھاتا تھا، وہ میرا بھائی محمد بن عبدالرحمٰن تھا، جو فاسق و فاجر شراب پیتا تھا، تو مجھے بہت برا لگا کہ وہ میرے گھر میں داخل ہو جس میں ہر تین دن پر قرآن ختم کیا جاتا ہے۔ وضاحت:
(تشریح احادیث 3351 سے 3367) دوسرے نسخ میں اس طرح ہے: خبردار! میرے گھر میں ایسے آدمی کو داخل نہ ہونے دینا جو شراب پیتا ہو اس کے باوجود کہ وہ ہر تین دن میں قرآن پاک ختم کرے۔ مطلب یہ ہے کہ جو شخص قرآن پر عمل نہ کرے، قرآن کتنا ہی پڑھتا رہے اس کو گھر میں نہ آنے دینا۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن من أجل محمد بن يزيد أبي هاشم الرفاعي
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: تم میں سے کسی کو کون سی چیز روکتی ہے کہ جب وہ بازار یا اپنی ضرورت پوری کر کے گھر لوٹے تو اپنے بستر پر بیٹھ کر قرآن کی تین آیات پڑھ لے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3379]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ فطر: ابن خلیفہ، اور حکم: ابن عتبہ، اور مقسم: ابن بجرہ ہیں۔ دیکھئے: [الزهد لابن المبارك 807]، [طبراني 398/11، 12119]، [شعب الإيمان للبيهقي 2003] وضاحت:
(تشریح حدیث 3367) مطلب یہ ہے کہ گھر لوٹنے پر قرآن پاک کی صرف تین آیات پڑھنے سے کوئی چیز مانع نہیں ہونی چاہیے، تاکہ گھر میں خیر و برکت کا دور دورہ ہو، الله کی رحمت اور رحمت کے فرشتے اس گھر میں نزول کریں۔ پیچھے گذر چکا ہے جو شخص قرآن پاک کی دو آیت پڑھے گا اس کو دو حاملہ موٹی تازی اونٹنی جتنا ثواب ہوگا۔ یہ تمام صحابہ و تابعین کے آثار و اقوال ہیں جو قرآن پاک کی اہمیت اجاگر کرتے ہیں اور قرآن کریم پڑھنے کی رغبت دلاتے ہیں۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
|