سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
من كتاب فضائل القرآن
قرآن کے فضائل
33. باب في خَتْمِ الْقُرْآنِ:
ختم قرآن کا بیان
حدیث نمبر: 3503
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا صالح المري، عن ايوب، عن ابي قلابة، رفعه قال: "من شهد القرآن حين يفتح، فكانما شهد فتحا في سبيل الله، ومن شهد ختمه حين يختم، فكانما شهد الغنائم حين تقسم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا صَالِحٌ الْمُرِّيُّ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، رَفَعَهُ قَالَ: "مَنْ شَهِدَ الْقُرْآنَ حِينَ يُفْتَحُ، فَكَأَنَّمَا شَهِدَ فَتْحًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَمَنْ شَهِدَ خَتْمَهُ حِينَ يُخْتَمُ، فَكَأَنَّمَا شَهِدَ الْغَنَائِمَ حِينَ تُقْسَمُ".
ابوقلابہ نے مرفوعاً روایت کیا کہ جو شخص قرآن پاک کے شروع (افتتاح) میں حاضر ہوا گویا کہ وہ اللہ کے راستے کی فتح میں حاضر ہوا، اور جو ختم قرآن کے وقت حاضر ہوا تو گویا کہ وہ تقسیم غنائم کے وقت حاضر ہوا۔

تخریج الحدیث: «في إسناده علتان: الإرسال وضعف صالح بن بشير المري، [مكتبه الشامله نمبر: 3514]»
اس روایت کی سند میں دو علتیں ہیں: مرسل ہے، اور صالح بن بشیر المری ضعیف ہیں۔ حوالہ کیلئے دیکھئے: [فضائل القرآن لابي عبيد، ص: 107] و [فضائل ابن الضريس 77] و [جمال القراء للسخاوي 112/1]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: في إسناده علتان: الإرسال وضعف صالح بن بشير المري
حدیث نمبر: 3504
Save to word اعراب
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا صالح المري، عن قتادة، قال: "كان رجل يقرا في مسجد المدينة، وكان ابن عباس قد وضع عليه الرصد، فإذا كان يوم ختمه، قام فتحول إليه".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا صَالِحٌ الْمُرِّيُّ، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ: "كَانَ رَجُلٌ يَقْرَأُ فِي مَسْجِدِ الْمَدِينَةِ، وَكَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ قَدْ وَضَعَ عَلَيْهِ الرَّصَدَ، فَإِذَا كَانَ يَوْمُ خَتْمِهِ، قَامَ فَتَحَوَّلَ إِلَيْهِ".
قتاده رحمہ اللہ نے کہا: مدینہ منورہ کی مسجد میں ایک شخص قراءت کر رہا تھا، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس کے انتظار میں آدمی بٹھا دیا، جب اس نے ختم قرآن کی اطلاع دی تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اٹھ کر اسی کے پاس منتقل ہو گئے۔ (یعنی ختم قرآن میں شامل ہونے کے لئے اس قاری سے آ ملے، اس سے ختم قرآن میں حاضری کی فضیلت معلوم ہوئی۔)

تخریج الحدیث: «إسناده إسناد سابقه، [مكتبه الشامله نمبر: 3515]»
اس روایت کی سند پچھلی حدیث کی طرح معلل ہے۔ دیکھئے: [فضائل القرآن لأبي عبيد، ص: 108]، و [ابن الضريس 79]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده إسناد سابقه
حدیث نمبر: 3505
Save to word اعراب
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا صالح، عن ثابت البناني، قال: كان انس بن مالك إذا اشفى على ختم القرآن، بالليل بقى منه شيئا حتى يصبح فيجمع اهله، فيختمه معهم".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا صَالِحٌ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، قَالَ: كَانَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ إِذَا أَشْفَى عَلَى خَتْمِ الْقُرْآنِ، بِاللَّيْلِ بَقَّى مِنْهُ شَيْئًا حَتَّى يُصْبِحَ فَيَجْمَعَ أَهْلَهُ، فَيَخْتِمَهُ مَعَهُمْ".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ جب ختم قرآن کے قریب پہنچتے تو صبح صادق تک کے لئے تھوڑا سا قرآن باقی رہنے دیتے، پھر اپنے اہل و عیال کو جمع کرتے اور ان کے ساتھ قرآن ختم کرتے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف وهو الإسناد الأسبق، [مكتبه الشامله نمبر: 3516]»
اس روایت کی سند بھی اس باب کی پہلی روایت کی طرح ہے۔ تخریج بھی وہی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف وهو الإسناد الأسبق
حدیث نمبر: 3506
Save to word اعراب
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا عفان، حدثنا جعفر بن سليمان، حدثنا ثابت، قال: "كان انس إذا ختم القرآن، جمع ولده واهل بيته، فدعا لهم".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ، قَالَ: "كَانَ أَنَسٌ إِذَا خَتَمَ الْقُرْآنَ، جَمَعَ وَلَدَهُ وَأَهْلَ بَيْتِهِ، فَدَعَا لَهُمْ".
ثابت البنانی نے کہا: سیدنا انس رضی اللہ عنہ جب قرآن پاک ختم کرتے تو اپنے بچوں اور گھر والوں کو جمع کر لیتے اور سب کے لئے دعا کرتے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وهو موقوف على أنس، [مكتبه الشامله نمبر: 3517]»
اس روایت کی سند صحیح ہے، لیکن سیدنا انس رضی اللہ عنہ پر موقوف ہے۔ دیکھئے: [فضائل القرآن لأبي عبيد، ص: 109] و [الطبراني فى الكبير 242/1، 674]، [شعب الإيمان للبيهقي 2070، 2071]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وهو موقوف على أنس
حدیث نمبر: 3507
Save to word اعراب
(حديث مقطوع) حدثنا ابو المغيرة، حدثنا الاوزاعي، عن عبدة، قال: "إذا ختم الرجل القرآن بنهار، صلت عليه الملائكة حتى يمسي، وإن فرغ منه ليلا، صلت عليه الملائكة حتى يصبح".(حديث مقطوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ عَبْدَةَ، قَالَ: "إِذَا خَتَمَ الرَّجُلُ الْقُرْآنَ بِنَهَارٍ، صَلَّتْ عَلَيْهِ الْمَلَائِكَةُ حَتَّى يُمْسِيَ، وَإِنْ فَرَغَ مِنْهُ لَيْلًا، صَلَّتْ عَلَيْهِ الْمَلَائِكَةُ حَتَّى يُصْبِحَ".
عبدہ نے کہا: جب کوئی آدمی دن میں قرآن پاک ختم کرتا ہے تو شام تک فرشتے اس کے لئے دعا کرتے ہیں، اور رات میں اس کی قراءت سے فارغ ہوا تو صبح تک فرشتے اس کے لئے دعا کرتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى عبدة بن أبي لبابة، [مكتبه الشامله نمبر: 3518]»
عبدہ بن ابی لبابہ تک اس روایت کی سند صحیح اور انہیں پر موقوف ہے۔ دیکھئے: [حلية الأولياء 113/6]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى عبدة بن أبي لبابة
حدیث نمبر: 3508
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا إسحاق بن عيسى، عن صالح المري، عن قتادة، عن زرارة بن اوفى: ان النبي صلى الله عليه وسلم سئل: اي العمل افضل؟ قال: الحال المرتحل"، قيل: وما الحال المرتحل؟ قال: صاحب القرآن يضرب من اول القرآن إلى آخره، ومن آخره إلى اوله، كلما حل، ارتحل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ عِيسَى، عَنْ صَالِحٍ الْمُرِّيِّ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى: أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ: أَيُّ الْعَمَلِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: الْحَالُّ الْمُرْتَحِلُ"، قِيلَ: وَمَا الْحَالُّ الْمُرْتَحِلُ؟ قَالَ: صَاحِبُ الْقُرْآنِ يَضْرِبُ مِنْ أَوَّلِ الْقُرْآنِ إِلَى آخِرِهِ، وَمِنْ آخِرِهِ إِلَى أَوَّلِهِ، كُلَّمَا حَلَّ، ارْتَحَلَ".
زرارہ بن ابی اوفی سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا: کون سا عمل افضل ہے؟ فرمایا: پڑاو ڈالنا اور کوچ کرنا، پوچھا گیا: یہ کیا ہے؟ فرمایا: قرآن پڑھنے والا شروع سے آخر تک پڑھتا ہے (یہ شروع کرنا حال ہے)، پھر ختم کر کے دوبارہ شروع کرنا (ارتحال) ہے، جب بھی ختم کرے پھر شروع کر دے۔

تخریج الحدیث: «إسناده فيه علتان: الإرسال وضعف صالح المري، [مكتبه الشامله نمبر: 3519]»
اس روایت کی سند میں دو علتیں ہیں: ارسال اور صالح المری کا ضعیف ہونا، لیکن بہت سے محدثین نے اسے ذکر کیا ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 2949]، [عبدالرحمٰن الرازي فى فضائل القرآن 79]، [طبراني فى الكبير 168/12، 12783]، [حلية الأولياء لأبي نعيم 260/2]، [حاكم فى المستدرك 2088]، [بيهقي فى شعب الإيمان 2069] و [ابن كثير فى فضائل القرآن، ص: 287]

وضاحت:
(تشریح احادیث 3502 سے 3508)
گرچہ اس روایت کی سند ضعیف ہے لیکن علمائے کرام نے اس عمل کو مستحب گردانا ہے، جیسا کہ امام نووی رحمہ اللہ نے التبیان میں ذکر کیا ہے، سماحۃ الشیخ علامہ مفتی عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ کی بھی یہی رائے تھی، ایک بار تراویح میں ختمِ قرآن کے بعد ناچیز سے کہا تھا: پھر سورۂ بقرہ شروع کر دیتے تو اچھا تھا۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده فيه علتان: الإرسال وضعف صالح المري
حدیث نمبر: 3509
Save to word اعراب
(حديث مقطوع) حدثنا إبراهيم بن موسى، عن جرير، عن الاعمش، عن إبراهيم، قال: "إذا قرا الرجل القرآن نهارا، صلت عليه الملائكة حتى يمسي، وإن قراه ليلا، صلت عليه الملائكة حتى يصبح". قال سليمان: فرايت اصحابنا يعجبهم ان يختموه اول النهار، واول الليل.(حديث مقطوع) حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، عَنْ جَرِيرٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: "إِذَا قَرَأَ الرَّجُلُ الْقُرْآنَ نَهَارًا، صَلَّتْ عَلَيْهِ الْمَلَائِكَةُ حَتَّى يُمْسِيَ، وَإِنْ قَرَأَهُ لَيْلًا، صَلَّتْ عَلَيْهِ الْمَلَائِكَةُ حَتَّى يُصْبِحَ". قَالَ سُلَيْمَانُ: فَرَأَيْتُ أَصْحَابَنَا يُعْجِبُهُمْ أَنْ يَخْتِمُوهُ أَوَّلَ النَّهَارِ، وَأَوَّلَ اللَّيْلِ.
ابراہیم النخعی رحمہ اللہ نے کہا: جب کوئی آدمی دن کے شروع میں قرآن پڑھ لے تو شام تک اس کے لئے فرشتے دعا کرتے ہیں اور اگر رات میں پڑھا (یعنی ختم کیا) تو صبح تک فرشتے دعا کرتے ہیں۔ (اعمش) سلیمان نے کہا: اسی لئے ہم نے اپنے ہم عصر ساتھیوں کو دیکھا کہ وہ دن کے شروع اور رات کے شروع میں قرآن ختم کرنے کو پسند کرتے تھے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى إبراهيم النخعي وهو موقوف عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 3520]»
اس اثر کی سند ابراہیم نخعی رحمہ اللہ تک صحیح ہے اور انہیں پر موقوف ہے۔ جریر کا پورا نام ابن عبدالحمید ہے۔ دیکھئے: [فضائل القرآن لأبي عبيد، ص: 109] و [ابن الضريس 50، 51، 52، 80]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى إبراهيم النخعي وهو موقوف عليه
حدیث نمبر: 3510
Save to word اعراب
(حديث مقطوع) حدثنا محمد بن يوسف الفريابي، عن سفيان، عن الاعمش، عن إبراهيم، مثله، إلا انه ليس فيه قول سليمان.(حديث مقطوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ الْفِرْيَابِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، مِثْلَهُ، إِلَّا أَنَّهُ لَيْسَ فِيهِ قَوْلُ سُلَيْمَانَ.
اس سند سے بھی ابراہیم نخعی رحمہ اللہ سے مثل سابق مروی ہے لیکن اس میں سلیمان الاعمش کا قول نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح على شرط البخاري، [مكتبه الشامله نمبر: 3521]»
حوالہ وہی ہے جو اوپر ذکر کیا گیا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح على شرط البخاري
حدیث نمبر: 3511
Save to word اعراب
(حديث مقطوع) حدثنا فروة بن ابي المغراء، عن القاسم بن مالك المزني، عن عبد الرحمن بن إسحاق، عن محارب بن دثار، قال: "من قرا القرآن عن ظهر قلبه، كانت له دعوة في الدنيا، او في الآخرة".(حديث مقطوع) حَدَّثَنَا فَرْوَةُ بْنُ أَبِي الْمَغْرَاءِ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مَالِكٍ الْمُزَنِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ مُحَارِبِ بْنِ دِثَارٍ، قَالَ: "مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ عَنْ ظَهْرِ قَلْبِهِ، كَانَتْ لَهُ دَعْوَةٌ فِي الدُّنْيَا، أَوْ فِي الْآخِرَةِ".
محارب بن دثار رحمہ اللہ نے کہا: جس نے منہ زبانی قرآن پڑھا اس کے لئے دنیا و آخرت میں دعوة ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف عبد الرحمن بن إسحاق الحارثي وهو موقوف على محارب بن دثار، [مكتبه الشامله نمبر: 3522]»
عبدالرحمٰن بن اسحاق الحارثی کی وجہ سے اس اثر کی سند ضعیف ہے اور محارب رحمہ اللہ پر موقوف ہے۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 3508 سے 3511)
دعوت کے معنی پکار اور دعا اور ضیافت و مہمانی کے ہیں۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف عبد الرحمن بن إسحاق الحارثي وهو موقوف على محارب بن دثار
حدیث نمبر: 3512
Save to word اعراب
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا محمد بن سعيد، حدثنا عبد السلام، عن يزيد بن عبد الرحمن، عن طلحة، وعبد الرحمن بن الاسود، قالا: "من قرا القرآن ليلا او نهارا، صلت عليه الملائكة إلى الليل"، وقال الآخر:"غفر له".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ طَلْحَةَ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ، قَالَا: "مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ لَيْلًا أَوْ نَهَارًا، صَلَّتْ عَلَيْهِ الْمَلَائِكَةُ إِلَى اللَّيْلِ"، وَقَالَ الْآخَرُ:"غُفِرَ لَهُ".
طلحہ اور عبدالرحمٰن بن الاسود دونوں نے کہا: جس شخص نے رات یا دن میں قرآن پاک کی قراءت کی تو فرشتے رات تک اس کے لئے دعا کرتے ہیں، دوسرے نے کہا: اس کی مغفرت ہو گئی۔

تخریج الحدیث: «هما أثران بإسناد واحد وهو إسناد حسن إلى طلحة بن نافع ومنقطع إلى عبد الرحمن لأن أبا خالد الدالاني ليس له رواية عن عبد الرحمن بن الأسود، [مكتبه الشامله نمبر: 3523]»
یہ دو اثر ایک ہی سند سے مروی ہیں اور سند حسن ہے طلحہ بن نافع تک، اور عبدالرحمٰن کی سند میں انقطاع ہے۔ طلحہ بن نافع کے اثر کے لئے دیکھئے: [فضائل القرآن لابن الضريس 54]، امام نووی نے [حلية الأبرار، ص: 183] میں طلحہ بن مصرف سے ایسے ہی روایت کیا ہے جس کی سند صحیح ہے، اسی طرح ابونعیم نے حلیة الاولیاء میں اس کو روایت کیا ہے [حلية الأولياء 26/5]، لیکن اس کی سند ضعیف ہے۔
اور دوسری سند عبدالرحمٰن بن الاسود کو [ابن أبى شيبه 490/10، 10088] نے اور بیہقی نے [شعب الإيمان 2075] میں ذکر کیا ہے، لیکن دونوں کی سند ضعیف ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: هما أثران بإسناد واحد وهو إسناد حسن إلى طلحة بن نافع ومنقطع إلى عبد الرحمن لأن أبا خالد الدالاني ليس له رواية عن عبد الرحمن بن الأسود
حدیث نمبر: 3513
Save to word اعراب
(حديث مقطوع) حدثنا عمرو بن حماد، حدثنا قزعة بن سويد، عن حميد الاعرج، قال: "من قرا القرآن ثم دعا، امن على دعائه اربعة آلاف ملك".(حديث مقطوع) حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا قَزَعَةُ بْنُ سُوَيْدٍ، عَنْ حُمَيْدٍ الْأَعْرَجِ، قَالَ: "مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ ثُمَّ دَعَا، أَمَّنَ عَلَى دُعَائِهِ أَرْبَعَةُ آلَافِ مَلَكٍ".
حمید الاعرج رحمہ اللہ نے کہا: جو شخص قرآن پاک پڑھ کر دعا کرے اس کی دعا پر چار ہزار فرشتے آمین کہتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف قزعة بن سويد وهو موقوف على حميد الأعرج، [مكتبه الشامله نمبر: 3524]»
اس موقوف روایت کی سند میں قزعہ بن سوید ضعیف ہے، اس لئے سند ضعیف ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف قزعة بن سويد وهو موقوف على حميد الأعرج
حدیث نمبر: 3514
Save to word اعراب
(حديث مقطوع) حدثنا سعيد بن الربيع، حدثنا شعبة، عن الحكم، عن مجاهد، قال: بعث إلي مجاهد، قال: إنما دعوناك انا اردنا ان نختم القرآن، وإنه بلغنا ان الدعاء يستجاب عند ختم القرآن، قال: فدعوا بدعوات".(حديث مقطوع) حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: بَعَثَ إِلَيَّ مجاهدٌ، قَالَ: إِنَّمَا دَعَوْنَاكَ أَنَّا أَرَدْنَا أَنْ نَخْتِمَ الْقُرْآنَ، وَإِنَّهُ بَلَغَنَا أَنَّ الدُّعَاءَ يُسْتَجَابُ عِنْدَ خَتْمِ الْقُرْآنِ، قَالَ: فَدَعَوْا بِدَعَوَاتٍ".
مجاہد رحمہ اللہ نے کہا: میرے پاس بلاوا آیا اور کہا کہ ہم آپ کو ختم قرآن میں شرکت کی دعوت دیتے ہیں، کیوں کہ ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ ختم قرآن کے وقت دعا قبول ہوتی ہے، اور انہوں نے دعائیں کیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3525]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ حکم: ابن عتبہ ہیں۔ دیکھئے: [ابن الضريس فى فضائل القرآن 49، 81]، [أبوعبيد، ص: 107]، [ابن أبى شيبه 10089]، [شعب الإيمان 2072]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 3515
Save to word اعراب
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا محمد بن حميد، حدثنا هارون، عن عنبسة، عن ليث، عن طلحة بن مصرف، عن مصعب بن سعد، عن سعد، قال: "إذا وافق ختم القرآن اول الليل، صلت عليه الملائكة حتى يصبح، وإن وافق ختمه آخر الليل، صلت عليه الملائكة حتى يمسي، فربما بقي على احدنا الشيء، فيؤخره حتى يمسي او يصبح". قال ابو محمد: هذا حسن عن سعد.(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا هَارُونُ، عَنْ عَنْبسة، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ سَعْدٍ، قَالَ: "إِذَا وَافَقَ خَتْمُ الْقُرْآنِ أَوَّلَ اللَّيْلِ، صَلَّتْ عَلَيْهِ الْمَلَائِكَةُ حَتَّى يُصْبِحَ، وَإِنْ وَافَقَ خَتْمُهُ آخِرَ اللَّيْلِ، صَلَّتْ عَلَيْهِ الْمَلَائِكَةُ حَتَّى يُمْسِيَ، فَرُبَّمَا بَقِيَ عَلَى أَحَدِنَا الشَّيْءُ، فَيُؤَخِّرَهُ حَتَّى يُمْسِيَ أَوْ يُصْبِحَ". قَالَ أَبُو مُحَمَّد: هَذَا حَسَنٌ عَنْ سَعْدٍ.
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر ختم قرآن رات کے شروع حصے میں ہو جائے، تو اس کے صبح کرنے تک فرشتے اس (قاری) کے لئے دعا کرتے ہیں، اور اگر رات کے آخری حصے میں ختم قرآن کا اتفاق ہوا تو اس پر فرشتے شام تک دعا کرتے ہیں، اس لئے ہم میں سے کسی کا ختم قرآن میں سے کچھ باقی رہ جائے تو وہ شام کے لئے یا صبح کے لئے ختم کرنا مؤخر کر دے۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: یہ روایت سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے حسن ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف ليث بن أبي سليم، [مكتبه الشامله نمبر: 3526]»
لیث بن ابی سلیم کی وجہ سے اس اثر کی سند ضعیف ہے۔ امام نووی نے اس کو [حلية الابرار، ص: 183] میں مسند احمد اور مسند داری کی طرف منسوب کیا ہے۔ نیز (3509) پر بھی ایک روایت گذر چکی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف ليث بن أبي سليم
حدیث نمبر: 3516
Save to word اعراب
(حديث موقوف) حدثنا مجاهد بن موسى، حدثنا معن، حدثنا إبراهيم بن مهاجر بن مسمار ابن اخي بكير بن مسمار، حدثني صفوان بن سليم، عن عطاء بن يسار، قال: "حملة القرآن عرفاء اهل الجنة".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا مُجَاهِدُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُهَاجِرِ بْنِ مِسْمَارٍ ابْنِ أَخِي بُكَيْرِ بْنِ مِسْمَارٍ، حَدَّثَنِي صَفْوَانُ بْنُ سُلَيْمٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، قَالَ: "حَمَلَةُ الْقُرْآنِ عُرَفَاءُ أَهْلِ الْجَنَّةِ".
عطاء بن یسار رحمہ اللہ نے کہا: حاملین قرآن جنت میں نقیب (مانیٹر) ہوں گے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف إبراهيم بن مهاجر. وهو موقوف على عطاء، [مكتبه الشامله نمبر: 3527]»
اس موقوف اثر کی سند میں ابراہیم بن مہاجر ضعیف ہیں۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف إبراهيم بن مهاجر. وهو موقوف على عطاء
حدیث نمبر: 3517
Save to word اعراب
(حديث مقطوع) حدثنا يزيد بن هارون، انبانا عبد الملك، عن سعيد بن جبير: انه كان "يختم القرآن كل ليلتين".(حديث مقطوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أنبأنا عَبْدُ الْمَلِكِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ: أَنَّهُ كَانَ "يَخْتِمُ الْقُرْآنَ كُلَّ لَيْلَتَيْنِ".
عبدالملک نے خبر دی کہ سعید بن جبیر رحمہ اللہ ہر دوسری رات میں قرآن پاک ختم کر لیا کرتے تھے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى سعيد، [مكتبه الشامله نمبر: 3528]»
سعید بن جبیر رحمہ اللہ تک اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [حلية الأولياء 273/4]، [فضائل أبى عبيد، ص: 182]، [فضائل القرآن لابن كثير، ص: 258]۔ نیز دیکھئے: [ابن أبى شيبه 503/2]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى سعيد
حدیث نمبر: 3518
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عثمان بن محمد، حدثنا جرير، عن مطرف، عن ابي إسحاق، عن ابي بردة، عن عبد الله بن عمرو، قال: قلت: يا رسول الله، في كم اختم القرآن؟ قال: "اختمه في شهر"، قلت: يا رسول الله، انا اطيق، قال:"اختمه في خمسة وعشرين"، قلت: إني اطيق، قال:"اختمه في عشرين"، قلت: إني اطيق، قال:"اختمه في خمس عشرة"، قلت: إني اطيق، قال:"اختمه في عشر"، قلت: إني اطيق، قال:"اختمه في خمس"، قلت: إني اطيق، قال:"لا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فِي كَمْ أَخْتِمُ الْقُرْآنَ؟ قَالَ: "اخْتِمْهُ فِي شَهْرٍ"، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أنا أُطِيقُ، قَالَ:"اخْتِمْهُ فِي خَمْسة وَعِشْرِينَ"، قُلْتُ: إِنِّي أُطِيقُ، قَالَ:"اخْتِمْهُ فِي عِشْرِينَ"، قُلْتُ: إِنِّي أُطِيقُ، قَالَ:"اخْتِمْهُ فِي خَمْسَ عَشْرَةَ"، قُلْتُ: إِنِّي أُطِيقُ، قَالَ:"اخْتِمْهُ فِي عَشْرٍ"، قُلْتُ: إِنِّي أُطِيقُ، قَالَ:"اخْتِمْهُ فِي خَمْسٍ"، قُلْتُ: إِنِّي أُطِيقُ، قَالَ:"لَا".
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں کتنے دن میں قرآن پاک ختم کروں؟ فرمایا: ایک مہینے میں، میں نے عرض کیا: مجھے اس سے زیادہ کی طاقت ہے؟ فرمایا: پچیس دن میں ختم کر لو، میں نے عرض کیا: میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں، فرمایا: پندرہ دن میں ختم کرو، میں نے عرض کیا: مجھے اس سے زیادہ کی طاقت ہے، فرمایا: دس دن میں ختم کرو، میں نے کہا: اس سے زیادہ کی میں طاقت رکھتا ہوں، فرمایا: پانچ دن میں ختم کرو، میں نے کہا: مجھے اس سے زیادہ کی طاقت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس سے کم میں نہیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف مطرف بن طريف متأخر السماع من أبي إسحاق السبيعي ولكن الحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 3529]»
اس روایت کی سند میں ضعف ہے، لیکن یہ حدیث دوسری سند سے صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن ماجه 1346]، [نسائي 2390]، [ابن حبان 756]، [ابن كثير فى فضائل القرآن 247]۔ صحیحین میں صرف روزے کا ذکر ہے، قرآن پڑھنے کا نہیں۔ دیکھئے: [بخاري 1974]، [مسلم 1159]

وضاحت:
(تشریح احادیث 3511 سے 3518)
اس سے معلوم ہوا کہ کم سے کم پانچ دن میں قرآن ختم کرنا چاہے، بعض روایاتِ صحیحہ میں تین دن کا بھی ذکر ہے، کما سیأتی، لیکن ایک مہینے سے زیادہ ختمِ قرآن میں نہیں لگنا چاہے، ہم میں سے کتنے ایسے ہیں جو صرف رمضان میں قرآن پاک پڑھتے اور سنتے ہیں، اور پورے سال تلاوتِ کلام پاک سے غافل رہتے ہیں۔
«(هدانا اللّٰه وإياهم، آمين)»

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف مطرف بن طريف متأخر السماع من أبي إسحاق السبيعي ولكن الحديث متفق عليه
حدیث نمبر: 3519
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله بن سعيد، حدثنا عقبة بن خالد، عن عبد الرحمن بن زياد، حدثني عبد الرحمن بن رافع، عن عبد الله بن عمرو، قال:"امرني رسول الله صلى الله عليه وسلم ان لا اقرا القرآن في اقل من ثلاث".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زِيَادٍ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ رَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ:"أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ لَا أَقْرَأَ الْقُرْآنَ فِي أَقَلَّ مِنْ ثَلَاثٍ".
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دن سے کم میں قرآن پاک ختم کرنے سے منع فرمایا۔

تخریج الحدیث: «عبد الرحمن بن رافع ضعيف وعبد الرحمن بن زياد الحق فيه أنه ضعيف لكثرة روايته المنكرات، [مكتبه الشامله نمبر: 3530]»
اس سند سے یہ اثر ضعیف ہے، لیکن دوسری سند سے حسن کے درجہ میں ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 1391]، [ترمذي 2949]، [ابن ماجه 1347، بغير هذا اللفظ: لَمْ يَفْقَهُ مِنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ فِيْ أَقَلْ مِنْ ثَلَاثٍ]۔
نیز دیکھئے: [أحمد 158/2]، [حلية الأولياء 122/4]۔ نیز حدیث رقم (1532) پر اس موضوع سے متعلق حدیث گذر چکی ہے۔ تخریج اور تفصیل وہاں ملاحظہ کیجئے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: عبد الرحمن بن رافع ضعيف وعبد الرحمن بن زياد الحق فيه أنه ضعيف لكثرة روايته المنكرات

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.