من كتاب فضائل القرآن قرآن کے فضائل 11. باب فَضْلِ مَنْ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَيَشْتَدُّ عَلَيْهِ: اس کی فضیلت جو قرآن پڑھے اور وہ اس پر دشوار ہو
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک وہ شخص جو قرآن پڑھتا ہے اور وہ اس کا ماہر (یعنی حافظ) ہے تو وہ مکرم، نیک لکھنے والے فرشتوں کے ساتھ ہو گا، اور جو قرآن پڑھتا ہے اور قرآن پڑھنا اس پر دشوار ہوتا ہے تو اس کے لئے ڈبل اجر ہے۔“ (ایک اجر قرآن کی تلاوت کا اور ایک اجر تلاوت میں مشقت برداشت کرنے کا)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3411]»
اس حدیث کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 4937]، [مسلم 798]، [أبوداؤد 1454]، [ترمذي 2904]، [ابن ماجه 3779]، [نسائي فى فضائل القرآن 70، 71، 72] وضاحت:
(تشریح حدیث 3399) اس حدیث سے حافظِ قرآن کی فضیلت معلوم ہوئی جو اللہ کے نیک و مطیع، معزز و مکرم کاتبین کے ساتھ ہوں گے، «الماهر بالقرآن» کا مطلب ہے قرآن پڑھنے میں ماہر، اس کے معانی و مفاہیم کو جاننے والا، اور ماہرِ قرآن وہی ہوگا جو اس کا زیادہ سے زیادہ ورد رکھے۔ «(جعلنا اللّٰه منهم).» قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
وہب الذماری نے کہا: جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کی نعمت عطاء فرمائی اور وہ اس کو صبح و شام پڑھے، اور جو کچھ اس میں ہے اس پر عمل کرے، اطاعت و فرماں برداری پر ہی اسے موت آئے، ایسے شخص کو الله تعالیٰ قیامت کے دن «سفره» اور «احكام» کے ساتھ اٹھائے گا۔ سعید بن عبدالعزیز نے کہا: «سفره» سے مراد: فرشتے، اور «احكام» سے مراد انبیاء ہیں، وہب نے کہا: اور جو کوئی قرآن پاک یاد کرنے پر حریص رہا لیکن وہ اسے بھول جاتا ہے اور وہ اسے چھوڑتا بھی نہیں (یعنی پڑھتا رہتا ہے) اس کو دہرا اجر ملے گا، اور جو قرآن یاد کرنے کا حریص ہو اور اسے بھول جاتا ہو لیکن وہ اطاعت و فرماں برداری کرتے ہوئے دنیا سے رخصت ہو تو ایسے لوگ باعزت لوگ ہیں اور ان کی فضیلت و بزرگی لوگوں پر ایسی ہے جیسے تمام پرندوں پر نسور (گدھ) بھاری ہے، یا جیسے ہری بھری چراگاہ کی فضیلت اس کے اردگرد کی (بنجر) زمین پر ہے، پھر جب قیامت کا دن ہو گا تو کہا جائے گا: کہاں ہیں وہ لوگ جو میری کتاب کی تلاوت کیا کرتے تھے اور چوپائے چرانے (یعنی دنیا کی مصروفیات) نے انہیں غافل نہ کیا، ایسے شخص کو جنت اور اس میں ہمیشگی عطا کی جائے گی، اگر ایسے شخص کے والدین بھی اطاعت و فرماں برداری پر جاں بحق ہوئے تو ان کے سروں پر تاج الملک پہنایا جائے گا، وہ دونوں کہیں گے: اے ہمارے پروردگار ہمارے اعمال تو اتنے اچھے نہ تھے، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ہاں یہ اس لئے ہے کہ تمہارا بیٹا میری کتاب کی تلاوت کرتا تھا۔
تخریج الحدیث: «وهب الدارمي ترجمة ابن أبي حاتم وما رأيت فيه جرحا ولا تعديلا فهو على شرط ابن حبان، [مكتبه الشامله نمبر: 3412]»
وہب الذماری کو ابن ابی حاتم نے ذکر کیا ہے، لیکن جرح و تعدیل نہیں کی، باقی رواۃ ثقہ ہیں، کسی اور کتاب میں یہ روایت نہیں ملی۔ وہب الذماری کا یہ قول ہے: حافظ قرآن کے والدین کو تاج الکرام عطا کیا جائے گا، وہ کہیں گے کہ رب العالمین! ہمارے اعمال تو ایسے نہ تھے پھر یہ تاج ہمیں کیوں پہنایا گیا؟ جواب ملے گا کہ: یہ تمہارے بچے کے قرآن پڑھنے کی وجہ سے ہے۔ اس کا شاہد صحیح مسلم وغیرہ میں موجود ہے، اس لئے یہ آ خری جملہ صحیح ہے۔ مزید تفصیل کے لئے آگے دیکھئے: حدیث نمبر (3423)۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: وهب الدارمي ترجمة ابن أبي حاتم وما رأيت فيه جرحا ولا تعديلا فهو على شرط ابن حبان
|