(مرفوع) حدثنا محمد بن عمر بن علي المقدمي، حدثنا سعيد بن عامر، حدثنا شعبة، عن عبد العزيز بن صهيب، عن انس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من وجد تمرا فليفطر عليه ومن لا فليفطر على ماء، فإن الماء طهور ". قال: وفي الباب عن سلمان بن عامر. قال ابو عيسى: حديث انس لا نعلم احدا رواه عن شعبة مثل هذا غير سعيد بن عامر، وهو حديث غير محفوظ ولا نعلم له اصلا من حديث عبد العزيز بن صهيب، عن انس، وقد روى اصحاب شعبة هذا الحديث، عن شعبة، عن عاصم الاحول، عن حفصة بنت سيرين، عن الرباب، عن سلمان بن عامر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، وهو اصح من حديث سعيد بن عامر، وهكذا رووا عن شعبة، عن عاصم، عن حفصة بنت سيرين، عن سلمان ولم يذكر فيه شعبة عن الرباب، والصحيح ما رواه. وابن عيينة وغير واحد، سفيان الثوري، عن عاصم الاحول، عن حفصة بنت سيرين، عن الرباب، عن سلمان بن عامر، وابن عون، يقول: عن ام الرائح بنت صليع، عن سلمان بن عامر، والرباب هي ام الرائح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ عَلِيٍّ الْمُقَدَّمِيُّ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ وَجَدَ تَمْرًا فَلْيُفْطِرْ عَلَيْهِ وَمَنْ لَا فَلْيُفْطِرْ عَلَى مَاءٍ، فَإِنَّ الْمَاءَ طَهُورٌ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ لَا نَعْلَمُ أَحَدًا رَوَاهُ عَنْ شُعْبَةَ مِثْلَ هَذَا غَيْرَ سَعِيدِ بْنِ عَامِرٍ، وَهُوَ حَدِيثٌ غَيْرُ مَحْفُوظٍ وَلَا نَعْلَمُ لَهُ أَصْلًا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسٍ، وَقَدْ رَوَى أَصْحَابُ شُعْبَةَ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ، عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ، عَنْ الرَّبَاب، عَنْ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ سَعِيدِ بْنِ عَامِرٍ، وَهَكَذَا رَوَوْا عَنْ شُعُبَةَ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ، عَنْ سَلْمَانَ وَلَمْ يُذْكَرْ فِيهِ شُعْبَةُ عَنِ الرَّبَاب، وَالصَّحِيحُ مَا رَوَاهُ. وَابْنُ عُيَيْنَةَ وغير واحد، سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحَوَلِ، عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ، عَنْ الرَّبَاب، عَنْ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ، وَابْنُ عَوْنٍ، يَقُولُ: عَنْ أُمِّ الرَّائِحِ بِنْتِ صُلَيْعٍ، عَنْ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ، وَالرَّبَاب هي أم الرائح.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جسے کھجور میسر ہو، تو چاہیئے کہ وہ اسی سے روزہ کھولے، اور جسے کھجور میسر نہ ہو تو چاہیئے کہ وہ پانی سے کھولے کیونکہ پانی پاکیزہ چیز ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں سلمان بن عامر رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے، ۲- ہم نہیں جانتے کہ انس کی حدیث سعید بن عامر کے علاوہ کسی اور نے بھی شعبہ سے روایت کی ہے، یہ حدیث غیر محفوظ ہے ۱؎، ہم اس کی کوئی اصل عبدالعزیز کی روایت سے جسے انہوں نے انس سے روایت کی ہو نہیں جانتے، اور شعبہ کے شاگردوں نے یہ حدیث بطریق: «شعبة عن عاصم الأحول عن حفصة بنت سيرين عن الرباب عن سلمان بن عامر عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کی ہے، اور یہ سعید بن عامر کی روایت سے زیادہ صحیح ہے، کچھ اور لوگوں نے اس کی بطریق: «شعبة عن عاصم عن حفصة بنت سيرين عن سلمان» روایت کی ہے اور اس میں شعبہ کی رباب سے روایت کرنے کا ذکر نہیں کیا گیا ہے اور صحیح وہ ہے جسے سفیان ثوری، ابن عیینہ اور دیگر کئی لوگوں نے بطریق: «عاصم الأحول عن حفصة بنت سيرين عن الرباب عن سلمان بن عامر» روایت کی ہے، اور ابن عون کہتے ہیں: «عن أم الرائح بنت صليع عن سلمان بن عامر» اور رباب ہی دراصل ام الرائح ہیں ۲؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (وأخرجہ النسائی فی الکبری) (تحفة الأشراف: 1026) (ضعیف) (سند میں سعید بن عامر حافظہ کے ضعیف ہیں اور ان سے اس کی سند میں وہم ہوا بھی ہے، دیکھئے الارواء رقم: 922)»
وضاحت: ۱؎: کیونکہ سعیدبن عامر «عن شعبة عن عبدالعزيز بن صهيب عن أنس» کے طریق سے اس کی روایت میں منفرد ہیں، شعبہ کے دوسرے تلامذہ نے ان کی مخالفت کی ہے، ان لوگوں نے اسے «عن شعبة عن عاصم الأحول عن حفصة بنت سيرين عن سلمان بن عامر» کے طریق سے روایت کی ہے، اور عاصم الاحول کے تلامذہ مثلاً سفیان ثوری اور ابن عیینہ وغیرہم نے بھی اسے اسی طرح سے روایت کیا ہے۔
۲؎: یعنی ابن عون نے اپنی روایت میں «عن الرباب» کہنے کے بجائے «عن ام الروائح بنت صلیع» کہا ہے، اور رباب ام الروائح کے علاوہ کوئی اور عورت نہیں ہیں بلکہ دونوں ایک ہی ہیں۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (1699) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (374) //
سلمان بن عامر ضبی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی افطار کرے تو چاہیئے کہ کھجور سے افطار کرے کیونکہ اس میں برکت ہے اور جسے (کھجور) میسر نہ ہو تو وہ پانی سے افطار کرے کیونکہ یہ پاکیزہ چیز ہے ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصوم 21 (2355)، سنن ابن ماجہ/الصیام 25 (1699)، (تحفة الأشراف: 4486)، مسند احمد (4/، 17، 19، 213، 215)، سنن الدارمی/الصوم 12 (1773)، وانظر أیضا ما تقدم برقم 658 (ضعیف)»
وضاحت: ۱؎: اگرچہ قولاً اس کی سند صحیح نہیں ہے، مگر فعلاً یہ حدیث دیگر طرق سے ثابت ہے۔
۲؎: یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اگر افطار میں کھجور میسر ہو تو کھجور ہی سے افطار کرے کیونکہ یہ مقوی معدہ، مقوی اعصاب اور جسم میں واقع ہونے والی کمزوریوں کا بہترین بدل ہے اور اگر کھجور میّسر نہ ہو سکے تو پھر پانی سے افطار بہتر ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تازہ کھجور سے افطار کیا کرتے تھے اگر تازہ کھجور نہیں ملتی تو خشک کھجور سے افطار کرتے اور اگر وہ بھی نہ ملتی تو چند گھونٹ پانی سے افطار کرتے تھے۔ ان دونوں چیزوں کے علاوہ اجر و ثواب وغیرہ کی نیت سے کسی اور چیز مثلاً نمک وغیرہ سے افطار کرنا بدعت ہے، جو ملاؤں نے ایجاد کی ہے۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن رافع، حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا جعفر بن سليمان، عن ثابت، عن انس بن مالك، قال: " كان النبي صلى الله عليه وسلم يفطر قبل ان يصلي على رطبات، فإن لم تكن رطبات فتميرات، فإن لم تكن تميرات حسا حسوات من ماء ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب. قال ابو عيسى: وروي ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان " يفطر في الشتاء على تمرات، وفي الصيف على الماء ".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُفْطِرُ قَبْلَ أَنْ يُصَلِّيَ عَلَى رُطَبَاتٍ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ رُطَبَاتٌ فَتُمَيْرَاتٌ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تُمَيْرَاتٌ حَسَا حَسَوَاتٍ مِنْ مَاءٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَرُوِيَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ " يُفْطِرُ فِي الشِّتَاءِ عَلَى تَمَرَاتٍ، وَفِي الصَّيْفِ عَلَى الْمَاءِ ".
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (مغرب) پڑھنے سے پہلے چند تر کھجوروں سے افطار کرتے تھے، اور اگر تر کھجوریں نہ ہوتیں تو چند خشک کھجوروں سے اور اگر خشک کھجوریں بھی میسر نہ ہوتیں تو پانی کے چند گھونٹ پی لیتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- اور یہ بھی مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سردیوں میں چند کھجوروں سے افطار کرتے اور گرمیوں میں پانی سے۔