كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم کتاب: روزوں کے احکام و مسائل 71. باب مَا جَاءَ فِي الاِعْتِكَافِ باب: اعتکاف کا بیان۔
ابوہریرہ رضی الله عنہ اور عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف ۱؎ کرتے تھے، یہاں تک کہ اللہ نے آپ کو وفات دی۔
۱- ابوہریرہ اور عائشہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابی بن کعب، ابولیلیٰ، ابوسعید، انس اور ابن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (وأخرجہ النسائی فی الکبری) (تحفة الأشراف: 13285 و 16647) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اعتکاف کے لغوی معنی روکنے اور بند کر لینے کے ہیں، اور شرعی اصطلاح میں ایک خاص کیفیت کے ساتھ اپنے آپ کو مسجد میں روکے رکھنے کو اعتکاف کہتے ہیں، اعتکاف سنت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ اس کا اہتمام فرمایا ہے اور آپ کے بعد ازواج مطہرات رضی اللہ عنہا بھی اس کا اہتمام کرتی تھیں۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (966)، صحيح أبي داود (2125)
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اعتکاف کا ارادہ کرتے تو فجر پڑھتے پھر اپنے معتکف (جائے اعتکاف) میں داخل ہو جاتے۔
۱- یہ حدیث یحییٰ بن سعید سے بواسطہ عمرۃ مرسلاً بھی مروی ہے (اس میں عائشہ کے واسطے کا ذکر نہیں)، ۲- اور اسے مالک اور دیگر کئی لوگوں نے یحییٰ بن سعید سے اور یحییٰ نے عمرۃ سے مرسلاً ہی روایت کی ہے، ۳- اور اوزاعی، سفیان ثوری اور دیگر لوگوں نے بطریق: «يحيى بن سعيد عن عروة عن عائشة» روایت کی ہے، ۴- بعض اہل علم کے نزدیک عمل اسی حدیث پر ہے، وہ کہتے ہیں: جب آدمی اعتکاف کا ارادہ کرے تو فجر پڑھے، پھر اپنے معتکف (اعتکاف کی جگہ) میں داخل ہو جائے، احمد اور اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ کا یہی قول ہے۔ بعض کہتے ہیں: جب آدمی اعتکاف کا ارادہ کرے تو اگلے دن جس میں وہ اعتکاف کرنا چاہتا ہے کی رات کا سورج ڈوب جائے تو وہ اپنے معتکف (اعتکاف کی جگہ) میں بیٹھا ہو، یہ سفیان ثوری اور مالک بن انس کا قول ہے ۱؎۔ تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الاعتکاف 6 (2033)، و7 (2034)، و14 (2041)، و18 (2045)، صحیح مسلم/الاعتکاف 2 (1172)، سنن ابی داود/ الصیام 77 (2464)، سنن النسائی/المساجد 18 (710)، سنن ابن ماجہ/الصوم 59 (1771)، موطا امام مالک/الاعتکاف 4 (7)، (تحفة الأشراف: 17930) مسند احمد (6/226) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎ اور یہی جمہور علماء کا قول ہے، اور ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کی مذکورہ روایت کی تاویل یہ کی جاتی ہے: اس کا یہ مطلب نہیں کہ اعتکاف کی ابتداء آپ اکیسویں کی فجر کے بعد کرتے بلکہ اعتکاف کے لیے آپ بیسویں تاریخ کا دن گزار کر کے مغرب سے پہلے ہی مسجد میں پہنچ جاتے اور اعتکاف کی نیت سے مسجد ہی میں رات گزارتے، پھر جب فجر پڑھ چکتے تو اعتکاف کی مخصوص جگہ میں جو آپ کے لیے بنائی گئی ہوتی تشریف لے جاتے، یہ تاویل اس لیے ضروری ہے کہ دوسری روایات سے یہ ثابت ہے کہ آپ رمضان کے پورے آخری عشرے کا اعتکاف کرتے اور اکیسویں کو فجر کے بعد معتکف میں آنے کا مطلب ہو گا کہ عشرہ پورا نہ ہو اس میں کمی رہ گئی۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1771)
|