سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: روزوں کے احکام و مسائل
The Book on Fasting
28. باب مَا جَاءَ فِي كَفَّارَةِ الْفِطْرِ فِي رَمَضَانَ
باب: رمضان میں روزہ نہ رکھنے پر عائد کفارہ کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About The Atonement For Breaking The Fast During Ramadan
حدیث نمبر: 724
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا نصر بن علي الجهضمي، وابو عمار، والمعنى واحد واللفظ لفظ ابي عمار، قالا: اخبرنا سفيان بن عيينة، عن الزهري، عن حميد بن عبد الرحمن، عن ابي هريرة، قال: اتاه رجل، فقال: يا رسول الله هلكت، قال: " وما اهلكك؟ " قال: وقعت على امراتي في رمضان، قال: " هل تستطيع ان تعتق رقبة؟ " قال: لا، قال: " فهل تستطيع ان تصوم شهرين متتابعين؟ " قال: لا، قال: " فهل تستطيع ان تطعم ستين مسكينا؟ " قال: لا، قال: " اجلس " فجلس، فاتي النبي صلى الله عليه وسلم بعرق فيه تمر والعرق المكتل الضخم، قال: " تصدق به " فقال: ما بين لابتيها احد افقر منا، قال: فضحك النبي صلى الله عليه وسلم حتى بدت انيابه، قال: " فخذه فاطعمه اهلك ". قال: وفي الباب عن ابن عمر، وعائشة، وعبد الله بن عمرو. قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حديث حسن صحيح، والعمل على هذا الحديث عند اهل العلم في من افطر في رمضان متعمدا من جماع، واما من افطر متعمدا من اكل او شرب، فإن اهل العلم قد اختلفوا في ذلك، فقال بعضهم: عليه القضاء والكفارة، وشبهوا الاكل والشرب بالجماع، وهو قول سفيان الثوري، وابن المبارك، وإسحاق، وقال بعضهم: عليه القضاء ولا كفارة عليه، لانه إنما ذكر عن النبي صلى الله عليه وسلم الكفارة في الجماع ولم تذكر عنه في الاكل والشرب، وقالوا: لا يشبه الاكل والشرب الجماع، وهو قول الشافعي، واحمد، وقال الشافعي: وقول النبي صلى الله عليه وسلم للرجل الذي افطر فتصدق عليه خذه فاطعمه اهلك، يحتمل هذا معاني: يحتمل ان تكون الكفارة على من قدر عليها، وهذا رجل لم يقدر على الكفارة، فلما اعطاه النبي صلى الله عليه وسلم شيئا وملكه، فقال الرجل: ما احد افقر إليه منا، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " خذه فاطعمه اهلك " لان الكفارة إنما تكون بعد الفضل عن قوته، واختار الشافعي لمن كان على مثل هذا الحال ان ياكله، وتكون الكفارة عليه دينا فمتى ما ملك يوما ما كفر.(مرفوع) حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، وَأَبَو عَمَّارٍ، وَالْمَعْنَى وَاحِدٌ وَاللَّفْظُ لَفْظُ أَبِي عَمَّارٍ، قَالَا: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: أَتَاهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلَكْتُ، قَالَ: " وَمَا أَهْلَكَكَ؟ " قَالَ: وَقَعْتُ عَلَى امْرَأَتِي فِي رَمَضَانَ، قَالَ: " هَلْ تَسْتَطِيعُ أَنْ تُعْتِقَ رَقَبَةً؟ " قَالَ: لَا، قَالَ: " فَهَلْ تَسْتَطِيعُ أَنْ تَصُومَ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ؟ " قَالَ: لَا، قَالَ: " فَهَلْ تَسْتَطِيعُ أَنْ تُطْعِمَ سِتِّينَ مِسْكِينًا؟ " قَالَ: لَا، قَالَ: " اجْلِسْ " فَجَلَسَ، فَأُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَقٍ فِيهِ تَمْرٌ وَالْعَرَقُ الْمِكْتَلُ الضَّخْمُ، قَالَ: " تَصَدَّقْ بِهِ " فَقَالَ: مَا بَيْنَ لَابَتَيْهَا أَحَدٌ أَفْقَرَ مِنَّا، قَالَ: فَضَحِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى بَدَتْ أَنْيَابُهُ، قَالَ: " فَخُذْهُ فَأَطْعِمْهُ أَهْلَكَ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَعَائِشَةَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي مَنْ أَفْطَرَ فِي رَمَضَانَ مُتَعَمِّدًا مِنْ جِمَاعٍ، وَأَمَّا مَنْ أَفْطَرَ مُتَعَمِّدًا مِنْ أَكْلٍ أَوْ شُرْبٍ، فَإِنَّ أَهْلَ الْعِلْمِ قَدِ اخْتَلَفُوا فِي ذَلِكَ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: عَلَيْهِ الْقَضَاءُ وَالْكَفَّارَةُ، وَشَبَّهُوا الْأَكْلَ وَالشُّرْبَ بِالْجِمَاعِ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَابْنِ الْمُبَارَكِ، وَإِسْحَاق، وقَالَ بَعْضُهُمْ: عَلَيْهِ الْقَضَاءُ وَلَا كَفَّارَةَ عَلَيْهِ، لِأَنَّهُ إِنَّمَا ذُكِرَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْكَفَّارَةُ فِي الْجِمَاعِ وَلَمْ تُذْكَرْ عَنْهُ فِي الْأَكْلِ وَالشُّرْبِ، وَقَالُوا: لَا يُشْبِهُ الْأَكْلُ وَالشُّرْبُ الْجِمَاعَ، وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وقَالَ الشَّافِعِيُّ: وَقَوْلُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلرَّجُلِ الَّذِي أَفْطَرَ فَتَصَدَّقَ عَلَيْهِ خُذْهُ فَأَطْعِمْهُ أَهْلَكَ، يَحْتَمِلُ هَذَا مَعَانِيَ: يَحْتَمِلُ أَنْ تَكُونَ الْكَفَّارَةُ عَلَى مَنْ قَدَرَ عَلَيْهَا، وَهَذَا رَجُلٌ لَمْ يَقْدِرْ عَلَى الْكَفَّارَةِ، فَلَمَّا أَعْطَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا وَمَلَكَهُ، فَقَالَ الرَّجُلُ: مَا أَحَدٌ أَفْقَرَ إِلَيْهِ مِنَّا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " خُذْهُ فَأَطْعِمْهُ أَهْلَكَ " لِأَنَّ الْكَفَّارَةَ إِنَّمَا تَكُونُ بَعْدَ الْفَضْلِ عَنْ قُوتِهِ، وَاخْتَارَ الشَّافِعِيُّ لِمَنْ كَانَ عَلَى مِثْلِ هَذَا الْحَالِ أَنْ يَأْكُلَهُ، وَتَكُونَ الْكَفَّارَةُ عَلَيْهِ دَيْنًا فَمَتَى مَا مَلَكَ يَوْمًا مَا كَفَّرَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص نے آ کر کہا: اللہ کے رسول! میں ہلاک ہو گیا، آپ نے پوچھا: تمہیں کس چیز نے ہلاک کر دیا؟ اس نے عرض کیا: میں رمضان میں اپنی بیوی سے صحبت کر بیٹھا۔ آپ نے پوچھا: کیا تم ایک غلام یا لونڈی آزاد کر سکتے ہو؟ اس نے کہا: نہیں، آپ نے پوچھا: کیا مسلسل دو ماہ کے روزے رکھ سکتے ہو؟ اس نے کہا: نہیں، تو آپ نے پوچھا: کیا ساٹھ مسکین کو کھانا کھلا سکتے ہو؟ اس نے کہا: نہیں، تو آپ نے فرمایا: بیٹھ جاؤ تو وہ بیٹھ گیا۔ اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک بڑا ٹوکرہ لایا گیا جس میں کھجوریں تھیں، آپ نے فرمایا: اسے لے جا کر صدقہ کر دو، اس نے عرض کیا: ان دونوں ملے ہوئے علاقوں کے درمیان کی بستی (یعنی مدینہ میں) مجھ سے زیادہ محتاج کوئی نہیں ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے، یہاں تک کہ آپ کے سامنے کے ساتھ والے دانت دکھائی دینے لگے۔ آپ نے فرمایا: اسے لے لو اور لے جا کر اپنے گھر والوں ہی کو کھلا دو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابن عمر، عائشہ اور عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اہل علم کا اس شخص کے بارے میں جو رمضان میں جان بوجھ کر بیوی سے جماع کر کے روزہ توڑ دے، اسی حدیث پر عمل ہے،
۴- اور جو جان بوجھ کر کھا پی کر روزہ توڑے، تو اس کے بارے میں اہل علم میں اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں: اس پر روزے کی قضاء اور کفارہ دونوں لازم ہے، ان لوگوں نے کھانے پینے کو جماع کے مشابہ قرار دیا ہے۔ سفیان ثوری، ابن مبارک اور اسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں۔ بعض کہتے ہیں: اس پر صرف روزے کی قضاء لازم ہے، کفارہ نہیں۔ اس لیے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کفارہ مذکور ہے وہ جماع سے متعلق ہے، کھانے پینے کے بارے میں آپ سے کفارہ مذکور نہیں ہے، ان لوگوں نے کہا ہے کہ کھانا پینا جماع کے مشابہ نہیں ہے۔ یہ شافعی اور احمد کا قول ہے۔ شافعی کہتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس شخص سے جس نے روزہ توڑ دیا، اور آپ نے اس پر صدقہ کیا یہ کہنا کہ اسے لے لو اور لے جا کر اپنے گھر والوں ہی کو کھلا دو، کئی باتوں کا احتمال رکھتا ہے: ایک احتمال یہ بھی ہے کہ کفارہ اس شخص پر ہو گا جو اس پر قادر ہو، اور یہ ایسا شخص تھا جسے کفارہ دینے کی قدرت نہیں تھی، تو جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کچھ دیا اور وہ اس کا مالک ہو گیا تو اس آدمی نے عرض کیا: ہم سے زیادہ اس کا کوئی محتاج نہیں۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے لے لو اور جا کر اپنے گھر والوں ہی کو کھلا دو، اس لیے کہ روزانہ کی خوراک سے بچنے کے بعد ہی کفارہ لازم آتا ہے، تو جو اس طرح کی صورت حال سے گزر رہا ہو اس کے لیے شافعی نے اسی بات کو پسند کیا ہے کہ وہی اسے کھا لے اور کفارہ اس پر فرض رہے گا، جب کبھی وہ مالدار ہو گا تو کفارہ ادا کرے گا۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصوم 30 (1936)، صحیح مسلم/الصیام 14 (1111)، سنن ابی داود/ الصیام 37 (2390)، سنن ابن ماجہ/الصیام 14 (1671)، (تحفة الأشراف: 12275)، موطا امام مالک/الصیام 9 (28)، مسند احمد (2/241)، سنن الدارمی/الصوم 19 (1757) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1671)

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.