كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم کتاب: روزوں کے احکام و مسائل 81. باب مَا جَاءَ فِي قِيَامِ شَهْرِ رَمَضَانَ باب: ماہ رمضان کی راتوں میں قیام (تہجد پڑھنے) کا بیان۔
ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صیام رمضان رکھے تو آپ نے ہمیں نماز (تراویح) نہیں پڑھائی، یہاں تک کہ رمضان کے صرف سات دن باقی رہ گئے تو آپ نے ہمارے ساتھ قیام کیا (یعنی تہجد پڑھی) یہاں تک کہ ایک تہائی رات گزر گئی۔ پھر جب چھ راتیں رہ گئیں تو آپ نے ہمارے ساتھ قیام نہیں کیا، (یعنی تہجد نہیں پڑھی) اور جب پانچ راتیں رہ گئیں تو آپ نے ہمارے ساتھ قیام کیا (یعنی تہجد پڑھی) یہاں تک کہ آدھی رات ہو گئی۔ تو ہم نے آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر آپ اس رات کے باقی ماندہ حصہ میں بھی ہمیں نفل پڑھاتے رہتے (تو بہتر ہوتا)؟ آپ نے فرمایا: ”جس نے امام کے ساتھ قیام کیا یہاں تک کہ وہ فارغ ہو جائے تو اس کے لیے پوری رات کا قیام لکھا جائے گا، پھر آپ نے ہمیں نماز نہیں پڑھائی، یہاں تک کہ مہینے کے صرف تین دن باقی رہ گئے، پھر آپ نے ہمیں ستائیسویں رات کو نماز پڑھائی۔ اور اپنے گھر والوں اور اپنی عورتوں کو بھی بلایا، آپ نے ہمارے ساتھ قیام کیا یہاں تک کہ ہمیں فلاح کے چھوٹ جانے کا اندیشہ ہوا۔ (راوی کہتے ہیں) میں نے پوچھا: فلاح کیا چیز ہے؟ تو انہوں نے کہا: سحری ہے۔
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عائشہ، نعمان بن بشیر اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- رمضان کے قیام کے سلسلے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وتر کے ساتھ اکتالیس رکعتیں پڑھے گا، یہ اہل مدینہ کا قول ہے، ان کے نزدیک مدینے میں اسی پر عمل تھا، ۴- اور اکثر اہل علم ان احادیث کی بنا پر جو عمر، علی اور دوسرے صحابہ کرام رضی الله عنہم سے مروی ہے بیس رکعت کے قائل ہیں۔ یہ سفیان ثوری، ابن مبارک اور شافعی کا قول ہے۔ اور شافعی کہتے ہیں: اسی طرح سے میں نے اپنے شہر مکے میں پایا ہے کہ بیس رکعتیں پڑھتے تھے، ۵- احمد کہتے ہیں: اس سلسلے میں کئی قسم کی باتیں مروی ہیں ۱؎ انہوں نے اس سلسلے میں کوئی فیصلہ کن بات نہیں کہی، ۶- اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: ہمیں ابی بن کعب کی روایت کے مطابق ۴۱ رکعتیں مرغوب ہیں، ۷- ابن مبارک، احمد اور اسحاق بن راہویہ نے ماہ رمضان میں امام کے ساتھ نماز پڑھنے کو پسند کیا ہے، ۸- شافعی نے اکیلے پڑھنے کو پسند کیا ہے جب وہ قاری ہو۔ تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 318 (137)، سنن النسائی/السہو 103 (1365)، الإقامة 173 (1327)، (تحفة الأشراف: 11903)، مسند احمد (5/159)، سنن الدارمی/الصوم (1818) (صحیح) (سنن الترمذی: 806 وإسنادہ صحیح و صححہ ابن خزیمہ: 2206 وابن حبان، الموارد: 919 وابن الجارود: 403 وقال الترمذی: ھٰذا حدیث حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: امام ترمذی نے اس سلسلے میں صرف دو قول کا ذکر کیا ہے ان کے علاوہ اور بھی بہت سے اقوال اس سلسلہ میں وارد ہیں ان میں راجح اور مختار اور دلائل کے اعتبار سے سب سے قوی گیارہ رکعت کا قول ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح سند سے یہی قول ثابت ہے دیگر اقوال میں سے کوئی بھی آپ سے صحیح سند سے ثابت نہیں اور نہ ہی خلفاء راشدین رضی الله عنہم میں سے کسی سے صحیح سند سے ثابت ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1327)
|