كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم کتاب: روزوں کے احکام و مسائل 44. باب مَا جَاءَ فِي صَوْمِ يَوْمِ الاِثْنَيْنِ وَالْخَمِيسِ باب: سوموار (دوشنبہ) اور جمعرات کے دن روزہ رکھنے کا بیان۔
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سوموار اور جمعرات کے روزے کی تلاش میں رہتے تھے ۱؎۔
عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث حسن ہے اور اس سند سے غریب ہے۔ تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الصیام 36 (2189)، سنن ابن ماجہ/الصیام 42 (1739)، (تحفة الأشراف: 16081) (صحیح) وأخرجہ کل من: سنن النسائی/الصیام السابق: 2188، وباب 70 (الأرقام: 2358، 2362-2365)، و مسند احمد (6/80، 89، 106)، من غیر ہذا الطریق۔»
وضاحت: ۱؎: اس کی ایک وجہ تو یہ بیان کی گئی ہے کہ ان دونوں دنوں میں اعمال اللہ کے حضور پیش کئے جاتے ہیں، ابوہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «تعرض الأعمال يوم الإثنين والخميس فأحب أن يعرض عملي وأنا صائم» اور دوسری وجہ وہ ہے جس کا ذکر مسلم کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوموار (دوشنبہ) کے روزے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ”یہ وہ دن ہے جس میں میری پیدائش ہوئی اور اسی میں میں نبی بنا کر بھجا گیا، یا اسی دن مجھ پر وحی نازل کی گئی“۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1739)
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مہینہ ہفتہ (سنیچر)، اتوار اور سوموار (دوشنبہ) کو اور دوسرے مہینہ منگل، بدھ، اور جمعرات کو روزہ رکھتے تھے۔
۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- عبدالرحمٰن بن مہدی نے اس حدیث کو سفیان سے روایت کیا ہے اور اسے مرفوع نہیں کیا ہے۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 16070) (ضعیف) (سند میں خیثمہ بن ابی خیثمہ ابو نصر بصری لین الحدیث ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف تخريج المشكاة / التحقيق الثاني (2059)
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اعمال سوموار (دوشنبہ) اور جمعرات کو اعمال (اللہ کے حضور) پیش کئے جاتے ہیں، میری خواہش ہے کہ میرا عمل اس حال میں پیش کیا جائے کہ میں روزے سے ہوں“۔
ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث اس باب میں حسن غریب ہے۔ تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الصیام 42 (1740)، (تحفة الأشراف: 12746)، وأخرجہ: مسند احمد (2/329) (صحیح) (سند میں محمد بن رفاعہ لین الحدیث راوی ہے، لیکن متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے)»
قال الشيخ الألباني: صحيح تخريج المشكاة / التحقيق الثانى (2056)، التعليق الرغيب (2 / 84)، الإرواء (949)
|