(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا ابن لهيعة، عن يزيد بن ابي حبيب، عن معمر بن ابي حيية، عن ابن المسيب، انه ساله عن الصوم في السفر، فحدث ان عمر بن الخطاب، قال: " غزونا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في رمضان غزوتين يوم بدر، والفتح، فافطرنا فيهما ". قال: وفي الباب عن ابي سعيد. قال ابو عيسى: حديث عمر لا نعرفه إلا من هذا الوجه، وقد روي عن ابي سعيد، عن النبي صلى الله عليه وسلم " انه امر بالفطر في غزوة غزاها ". وقد روي عن عمر بن الخطاب نحو هذا، إلا انه رخص في الإفطار عند لقاء العدو، وبه يقول بعض اهل العلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ مَعْمَرِ بْنِ أَبِي حُيَيَّةَ، عَنْ ابْنِ الْمُسَيِّبِ، أَنَّهُ سَأَلَهُ عَنِ الصَّوْمِ فِي السَّفَرِ، فَحَدَّثَ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، قَالَ: " غَزَوْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ غَزْوَتَيْنِ يَوْمَ بَدْرٍ، وَالْفَتْحِ، فَأَفْطَرْنَا فِيهِمَا ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عُمَرَ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " أَنَّهُ أَمَرَ بِالْفِطْرِ فِي غَزْوَةٍ غَزَاهَا ". وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ نَحْوُ هَذَا، إِلَّا أَنَّهُ رَخَّصَ فِي الْإِفْطَارِ عِنْدَ لِقَاءِ الْعَدُوِّ، وَبِهِ يَقُولُ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ.
معمر بن ابی حیّیہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ابن مسیب سے سفر میں روزہ رکھنے کے بارے میں پوچھا تو ابن مسیب نے بیان کیا کہ عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں: ہم نے رمضان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دو غزوے کئے۔ غزوہ بدر اور فتح مکہ، ہم نے ان دونوں میں روزے نہیں رکھے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عمر رضی الله عنہ کی حدیث ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ۲- اس باب میں ابو سعید خدری سے بھی روایت ہے، ۳- ابو سعید خدری سے مروی ہے انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ نے (لوگوں کو) ایک غزوے میں افطار کا حکم دیا۔ عمر بن خطاب سے بھی اسی طرح مروی ہے۔ البتہ انہوں نے روزہ رکھنے کی رخصت دشمن سے مڈبھیڑ کی صورت میں دی ہے۔ اور بعض اہل علم اسی کے قائل ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10450) (ضعیف الإسناد) (سعیدبن المسیب نے عمر فاروق رضی الله عنہ کو نہیں پایا ہے، لیکن دوسرے دلائل سے مسئلہ ثابت ہے)»
وضاحت: ۱؎: یا تو سفر کی وجہ سے یا طاقت کے لیے تاکہ دشمن سے مڈبھیڑ کے وقت کمزوری لاحق نہ ہو اس سے معلوم ہوا کہ جہاد میں دشمن سے مڈبھیڑ کے وقت روزہ نہ رکھنا جائز ہے۔