(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، حدثنا سفيان، عن عاصم بن عبيد الله، عن عبد الله بن عامر بن ربيعة، عن ابيه، قال: " رايت النبي صلى الله عليه وسلم ما لا احصي يتسوك وهو صائم ". قال: وفي الباب عن عائشة. قال ابو عيسى: حديث عامر بن ربيعة حديث حسن. والعمل على هذا عند اهل العلم لا يرون بالسواك للصائم باسا، إلا ان بعض اهل العلم كرهوا السواك للصائم بالعود والرطب، وكرهوا له السواك آخر النهار، ولم ير الشافعي بالسواك باسا اول النهار ولا آخره، وكره احمد، وإسحاق السواك آخر النهار.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: " رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا لَا أُحْصِي يَتَسَوَّكُ وَهُوَ صَائِمٌ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ لَا يَرَوْنَ بِالسِّوَاكِ لِلصَّائِمِ بَأْسًا، إِلَّا أَنَّ بَعْضَ أَهْلِ الْعِلْمِ كَرِهُوا السِّوَاكَ لِلصَّائِمِ بِالْعُودِ وَالرُّطَبِ، وَكَرِهُوا لَهُ السِّوَاكَ آخِرَ النَّهَارِ، وَلَمْ يَرَ الشَّافِعِيُّ بِالسِّوَاكِ بَأْسًا أَوَّلَ النَّهَارِ وَلَا آخِرَهُ، وَكَرِهَ أَحْمَدُ، وَإِسْحَاق السِّوَاكَ آخِرَ النَّهَارِ.
عامر بن ربیعہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو روزہ کی حالت میں اتنی بار مسواک کرتے دیکھا کہ میں اسے شمار نہیں کر سکتا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عامر بن ربیعہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں عائشہ رضی الله عنہا سے بھی روایت ہے۔ ۳- اسی حدیث پر اہل علم کا عمل ہے۔ یہ لوگ روزہ دار کے مسواک کرنے میں کوئی حرج نہیں ۱؎ سمجھتے، البتہ بعض اہل علم نے روزہ دار کے لیے تازی لکڑی کی مسواک کو مکروہ قرار دیا ہے، اور دن کے آخری حصہ میں بھی مسواک کو مکروہ کہا ہے۔ لیکن شافعی دن کے شروع یا آخری کسی بھی حصہ میں مسواک کرنے میں حرج محسوس نہیں کرتے۔ احمد اور اسحاق بن راہویہ نے دن کے آخری حصہ میں مسواک کو مکروہ قرار دیا ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصیام 26 (2364)، (تحفة الأشراف: 5034) (ضعیف) (سند میں عاصم بن عبیداللہ ضعیف راوی ہے)»
وضاحت: ۱؎: خواہ زوال سے پہلے ہو یا زوال کے بعد، خواہ تازی لکڑی سے ہو، یا خشک، یہی اکثر اہل علم کا قول ہے اور یہی راجح۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف، الإرواء (68) //، ضعيف أبي داود (511 / 2364)، المشكاة (2009) //