كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم کتاب: روزوں کے احکام و مسائل 58. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الصَّوْمِ يَوْمَ الْفِطْرِ وَيَوْمَ النَّحْرِ باب: عیدالفطر اور عید الاضحی کے دن روزہ رکھنے کی حرمت کا بیان۔
عبدالرحمٰن بن عوف رضی الله عنہ کے مولیٰ ابو عبید سعد کہتے ہیں کہ میں عمر بن الخطاب رضی الله عنہ کے پاس دسویں ذی الحجہ کو موجود تھا، انہوں نے خطبے سے پہلے نماز شروع کی، پھر کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان دو دنوں میں روزہ رکھنے سے منع فرماتے سنا ہے، عید الفطر کے دن سے، اس لیے کہ یہ تمہارے روزوں سے افطار کا دن اور مسلمانوں کی عید ہے اور عید الاضحی کے دن اس لیے کہ اس دن تم اپنی قربانیوں کا گوشت کھاؤ ۱؎۔
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصوم 66 (1990)، والأضاحی 16 (5571)، صحیح مسلم/الصیام 22 (1137)، سنن ابی داود/ الصیام 48 (2416)، سنن ابن ماجہ/الصیام 36 (1722)، (تحفة الأشراف: 10663)، موطا امام مالک/العیدین 2 (5) مسند احمد (1/40) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: علماء کا اجماع ہے کہ ان دونوں دنوں میں روزہ رکھنا کسی بھی حال میں جائز نہیں خواہ وہ نذر کا روزہ ہو یا نفلی روزہ ہو یا کفارے کا یا ان کے علاوہ کوئی اور روزہ ہو، اگر کوئی تعیین کے ساتھ ان دونوں دنوں میں روزہ رکھنے کی نذر مان لے تو جمہور کے نزدیک اس کی یہ نذر منعقد نہیں ہو گی اور نہ ہی اس کی قضاء اس پر لازم آئے گی اور امام ابوحنیفہ کہتے ہیں نذر منعقد ہو جائے گی لیکن وہ ان دونوں دنوں میں روزہ نہیں رکھے گا، ان کی قضاء کرے گا۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1722)
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو روزوں سے منع فرمایا: ”یوم الاضحی (بقر عید) کے روزے سے اور یوم الفطر (عید) کے روزے سے“۔
۱- ابو سعید خدری رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عمر، علی، عائشہ، ابوہریرہ، عقبہ بن عامر اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ۴- عمرو بن یحییٰ ہی عمارہ بن ابی الحسن مازنی ہیں، وہ مدینے کے رہنے والے ہیں اور ثقہ ہیں۔ سفیان ثوری، شعبہ اور مالک بن انس نے ان سے حدیثیں روایت کی ہیں۔ تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/ /الصوم 66 (1991)، صحیح مسلم/الصیام 22 (827)، سنن ابی داود/ الصیام 48 (2417)، (تحفة الأشراف: 4404) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/جزاء الصید 26 (1864)، سنن ابن ماجہ/الصیام 36 (1721)، مسند احمد (3/34)، سنن الدارمی/الصوم 43 (1794)، من غیر ہذا الطریق۔»
قال الشيخ الألباني: صحيح (1721)
|