كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم کتاب: روزوں کے احکام و مسائل 46. باب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ صَوْمِ عَرَفَةَ باب: عرفہ کے دن کے روزے کی فضیلت کا بیان۔
ابوقتادہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں کہ عرفہ کے دن ۱؎ کا روزہ ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہ مٹا دے گا“ ۲؎۔
۱- ابوقتادہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے، ۳- اہل علم نے عرفہ کے دن کے روزے کو مستحب قرار دیا ہے، مگر جو لوگ عرفات میں ہوں ان کے لیے مستحب نہیں۔ تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصیام 36 (1162)، سنن ابی داود/ الصیام 53 (2425)، سنن النسائی/الصیام 73 (2384)، سنن ابن ماجہ/الصیام 31 (1730)، (التحفہ: 12117)، مسند احمد (5/297) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یوم عرفہ سے مراد ۹ ذی الحجہ ہے جب حجاج کرام عرفات میں وقوف کرتے ہیں اور ذکر و دعا میں مشغول ہوتے ہیں، اس دن ان کے لیے یہی سب سے بڑی عبادت ہے اس لیے اس دن کا روزہ ان کے لیے مستحب نہیں ہے، البتہ غیر حاجیوں کے لیے اس دن روزہ رکھنا بڑی فضیلت کی بات ہے، اس سے ان کے دو سال کے وہ صغیرہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں جن کا تعلق حقوق اللہ سے ہوتا ہے۔ (یہ خیال رہے کہ مکے سے دور علاقوں کے لوگ اپنے یہاں کی رویت کے حساب سے ۹ ذی الحجہ کو عرفہ کا روزہ نہ رکھیں، بلکہ مکے کی رویت کے حساب سے ۹ ذی الحجہ کا روزہ رکھیں کیونکہ حجاج اسی حساب سے میدان عرفات میں جمع ہوتے ہیں۔ لیکن جہاں مطلع اور ملک بدل جائے وہاں کے لوگ اپنے حساب نو ذی الحجہ کا روزہ رکھیں، بلکہ افضل یہ ہے کہ یکم ذی الحجہ سے ۹ تک مسلسل روزہ رکھے، اس لیے کہ ان دنوں میں کیے گئے اعمال کی فضیلت حدیث میں بہت آئی ہے اور سلف صالحین کا اس ضمن میں تعامل بھی روایات میں مذکور ہے، اور اس سے یوم عرفہ سے مراد مقام عرفات میں ۹ ذی الحجہ پر بھی عمل ہو جائے گا، واللہ اعلم۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1730)
|