(مرفوع) حدثنا ابو مصعب المدني قراءة، عن مالك بن انس، عن ابن شهاب، عن عروة، وعمرة، عن عائشة، انها قالت: " كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا اعتكف ادنى إلي راسه فارجله، وكان لا يدخل البيت إلا لحاجة الإنسان ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، هكذا رواه غير واحد، عن مالك، عن ابن شهاب، عن عروة، وعمرة، عن عائشة، ورواه بعضهم، عن مالك، عن ابن شهاب، عن عروة، عن عمرة، عن عائشة. والصحيح عن عروة، وعمرة، عن عائشة.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُصْعَبٍ الْمَدَنِيُّ قِرَاءَةً، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، وَعَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اعْتَكَفَ أَدْنَى إِلَيَّ رَأْسَهُ فَأُرَجِّلُهُ، وَكَانَ لَا يَدْخُلُ الْبَيْتَ إِلَّا لِحَاجَةِ الْإِنْسَانِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، هَكَذَا رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، وَعَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، وَرَوَاهُ بَعْضُهُمْ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ. وَالصَّحِيحُ عَنْ عُرْوَةَ، وَعَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اعتکاف میں ہوتے تو اپنا سر میرے قریب کر دیتے میں اس میں کنگھی کر دیتی ۱؎ اور آپ گھر میں کسی انسانی ضرورت کے علاوہ ۲؎ داخل نہیں ہوتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اسی طرح اسے دیگر کئی لوگوں نے بھی بطریق: «مالك عن ابن شهاب عن عروة وعمرة عن عائشة» روایت کیا ہے، بعض لوگوں نے اسے بطریق: «مالك عن ابن شهاب عن عروة وعمرة عن عائشة» روایت کیا ہے، اور صحیح یہ ہے کہ ابن شہاب زہری نے اسے عروہ اور عمرہ دونوں سے اور ان دونوں نے عائشہ سے روایت کیا ہے۔
(مرفوع) حدثنا بذلك قتيبة، حدثنا الليث بن سعد، عن ابن شهاب، عن عروة، وعمرة، عن عائشة. والعمل على هذا عند اهل العلم إذا اعتكف الرجل ان لا يخرج من اعتكافه إلا لحاجة الإنسان، واجتمعوا على هذا انه يخرج لقضاء حاجته للغائط والبول، ثم اختلف اهل العلم في عيادة المريض وشهود الجمعة والجنازة للمعتكف، فراى بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، ان يعود المريض ويشيع الجنازة ويشهد الجمعة إذا اشترط ذلك، وهو قول سفيان الثوري، وابن المبارك، وقال بعضهم: ليس له ان يفعل شيئا من هذا، وراوا للمعتكف إذا كان في مصر يجمع فيه ان لا يعتكف إلا في مسجد الجامع، لانهم كرهوا الخروج له من معتكفه إلى الجمعة، ولم يروا له ان يترك الجمعة، فقالوا: لا يعتكف إلا في مسجد الجامع حتى لا يحتاج ان يخرج من معتكفه لغير قضاء حاجة الإنسان، لان خروجه لغير حاجة الإنسان قطع عندهم للاعتكاف، وهو قول مالك، والشافعي، وقال احمد: لا يعود المريض ولا يتبع الجنازة على حديث عائشة، وقال إسحاق: إن اشترط ذلك فله ان يتبع الجنازة ويعود المريض.(مرفوع) حَدَّثَنَا بِذَلِكَ قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، وَعَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ إِذَا اعْتَكَفَ الرَّجُلُ أَنْ لَا يَخْرُجَ مِنَ اعْتِكَافِهِ إِلَّا لِحَاجَةِ الْإِنْسَانِ، وَاجْتَمَعُوا عَلَى هَذَا أَنَّهُ يَخْرُجُ لِقَضَاءِ حَاجَتِهِ لِلْغَائِطِ وَالْبَوْلِ، ثُمَّ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي عِيَادَةِ الْمَرِيضِ وَشُهُودِ الْجُمُعَةِ وَالْجَنَازَةِ لِلْمُعْتَكِفِ، فَرَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، أَنْ يَعُودَ الْمَرِيضَ وَيُشَيِّعَ الْجَنَازَةَ وَيَشْهَدَ الْجُمُعَةَ إِذَا اشْتَرَطَ ذَلِكَ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَابْنِ الْمُبَارَكِ، وقَالَ بَعْضُهُمْ: لَيْسَ لَهُ أَنْ يَفْعَلَ شَيْئًا مِنْ هَذَا، وَرَأَوْا لِلْمُعْتَكِفِ إِذَا كَانَ فِي مِصْرٍ يُجَمَّعُ فِيهِ أَنْ لَا يَعْتَكِفَ إِلَّا فِي مَسْجِدِ الْجَامِعِ، لِأَنَّهُمْ كَرِهُوا الْخُرُوجَ لَهُ مِنْ مُعْتَكَفِهِ إِلَى الْجُمُعَةِ، وَلَمْ يَرَوْا لَهُ أَنْ يَتْرُكَ الْجُمُعَةَ، فَقَالُوا: لَا يَعْتَكِفُ إِلَّا فِي مَسْجِدِ الْجَامِعِ حَتَّى لَا يَحْتَاجَ أَنْ يَخْرُجَ مِنْ مُعْتَكَفِهِ لِغَيْرِ قَضَاءِ حَاجَةِ الْإِنْسَانِ، لِأَنَّ خُرُوجَهُ لِغَيْرِ حَاجَةِ الْإِنْسَانِ قَطْعٌ عِنْدَهُمْ لِلِاعْتِكَافِ، وَهُوَ قَوْلُ مَالِكٍ، وَالشَّافِعِيِّ، وقَالَ أَحْمَدُ: لَا يَعُودُ الْمَرِيضَ وَلَا يَتْبَعُ الْجَنَازَةَ عَلَى حَدِيثِ عَائِشَةَ، وقَالَ إِسْحَاق: إِنِ اشْتَرَطَ ذَلِكَ فَلَهُ أَنْ يَتْبَعَ الْجَنَازَةَ وَيَعُودَ الْمَرِيضَ.
ہم سے اسے قتیبہ نے بسند «الليث بن سعد عن ابن شهاب عن عروة وعمرة عن عائشة» روایت کیا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اور اہل علم کے نزدیک اسی پر عمل ہے کہ جب آدمی اعتکاف کرے تو انسانی ضرورت کے بغیر اپنے معتکف سے نہ نکلے، اور ان کا اس بات پر اتفاق ہے کہ وہ پاخانہ پیشاب جیسی اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے نکل سکتا ہے، ۲- پھر معتکف کے لیے مریض کی عیادت کرنے، جمعہ اور جنازہ میں شریک ہونے میں اہل علم کا اختلاف ہے، صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کی رائے ہے کہ وہ مریض کی عیادت کر سکتا ہے، جنازہ کے ساتھ جا سکتا ہے اور جمعہ میں شریک ہو سکتا ہے جب کہ اس نے اس کی شرط لگا لی ہو۔ یہ سفیان ثوری اور ابن مبارک کا قول ہے، ۳- اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ اسے ان میں سے کوئی بھی چیز کرنے کی اجازت نہیں، ان کا خیال ہے کہ معتکف کے لیے ضروری ہے کہ جب وہ کسی ایسے شہر میں ہو جہاں جمعہ ہوتا ہو تو مسجد جامع میں ہی اعتکاف کرے۔ اس لیے کہ یہ لوگ جمعہ کے لیے اپنے معتکف سے نکلنا اس کے لیے مکروہ قرار دیتے ہیں اور اس کے لیے جمعہ چھوڑنے کو بھی جائز نہیں سمجھتے، اس لیے ان کا کہنا ہے کہ وہ جامع مسجد ہی میں اعتکاف کرے تاکہ اسے انسانی حاجتوں کے علاوہ کسی اور حاجت سے باہر نکلنے کی ضرورت نہ باقی رہے، اس لیے کہ بغیر کسی انسانی ضرورت کے مسجد سے نکلنے سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے، یہی مالک اور شافعی کا قول ہے۔ ۴- اور احمد کہتے ہیں: عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث کی رو سے نہ وہ مریض کی عیادت کرے گا، نہ جنازہ کے ساتھ جائے گا۔ ۵- اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: اگر وہ ان چیزوں کی شرط کر لے تو اسے جنازے کے ساتھ جانے اور مریض کی عیادت کرنے کی اجازت ہے۔