كتاب الجنائز کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل 1. بَابُ: تَمَنِّي الْمَوْتِ باب: موت کی آرزو و تمنا۔
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی (بھی) ہرگز موت کی آرزو و تمنا نہ کرے، (کیونکہ) یا تو وہ نیک ہو گا تو ہو سکتا ہے زیادہ نیکی کرے، یا برا ہو گا تو ہو سکتا ہے وہ برائی سے توبہ کر لے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 14117)، مسند احمد 2/236 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس لیے زندہ رہنا ہی اس کے لیے بہتر ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں کا کوئی (بھی) ہرگز موت کی آرزو و تمنا نہ کرے (کیونکہ) اگر وہ نیک ہے تو شاید زندہ رہے (اور) زیادہ نیکی کرے، اور یہ اس کے لیے بہتر ہے، اور اگر گناہ گار ہے تو ہو سکتا ہے گنا ہوں سے توبہ کر لے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المرضی 19 (5673)، التمني 6 (7235)، (تحفة الأشراف: 12934)، مسند احمد 2/309، 514، سنن الدارمی/الرقاق 45 (2800) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں کا کوئی (بھی) ہرگز مصیبت کی وجہ سے جو اسے دنیا میں پہنچتی ہے موت کی تمنا نہ کرے ۱؎، بلکہ یہ کہے: «اللہم أحيني ما كانت الحياة خيرا لي وتوفني إذا كانت الوفاة خيرا لي» ”اے اللہ! اس وقت تک مجھے زندہ رکھ جب تک زندگی میرے لیے بہتر ہو، اور اس وقت موت دیدے جب موت میرے لیے بہتر ہو“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 805، حم3/104 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: کیونکہ زندگی کا جو حصہ باقی ہے اس کے دین و دنیا کے لیے بہتر ہو، اس لیے موت کی آرزو کرنا منع ہے، شہادت کی یا مقدس جگہ مرنے کی آرزو کرنا جائز ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سنو! تم میں کا کوئی (بھی) ہرگز موت کی آرزو نہ کرے، اس مصیبت کی وجہ سے جو اسے پہنچی ہے، اگر موت کی آرزو کرنا ضروری ہو تو یہ کہے: «اللہم أحيني ما كانت الحياة خيرا لي وتوفني إذا كانت الوفاة خيرا لي» ”اے اللہ! اس وقت تک مجھے زندہ رکھ جب تک زندگی میرے لیے بہتر ہو، اور اس وقت موت دیدے جب موت میرے لیے بہتر ہو“۔
تخریج الحدیث: «حدیث إسماعیل ابن علیّة، عن عبدالعزیز أخرجہ: صحیح البخاری/الدعوات 30 (6351)، صحیح مسلم/الذکر 4 (2680)، سنن الترمذی/الجنائز 3 (971)، (تحفة الأشراف: 991)، مسند احمد 3/101، وحدیث عبدالوارث، عن عبدالعزیز أخرجہ: سنن ابی داود/الجنائز 13 (3108)، سنن ابن ماجہ/الزہد 31 (4265)، (تحفة الأشراف: 1037) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
|