كتاب الجنائز کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل 22. بَابُ: الأَمْرِ بِالاِحْتِسَابِ وَالصَّبْرِ عِنْدَ نُزُولِ الْمُصِيبَةِ باب: مصیبت آنے پر صبر کرنے اور اللہ سے ثواب چاہنے کے حکم کا بیان۔
اسامہ بن زید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی نے آپ کو صلی اللہ علیہ وسلم کہلا بھیجا کہ میرا بیٹا ۱؎ مرنے کو ہے آپ آ جائیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہلا بھیجا کہ آپ سلام کہتے ہیں، اور کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے جو (کچھ) لے، اور اسی کے لیے ہے جو (کچھ) دے، اور اللہ کے نزدیک ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے، تو چاہیئے کہ تم صبر کرو، اور اللہ سے اجر طلب کرو، بیٹی نے (دوبارہ) قسم دے کے کہلا بھیجا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور آ جائیں، چنانچہ آپ اٹھے، آپ کے ساتھ سعد بن عبادہ، معاذ بن جبل، ابی بن کعب، زید بن ثابت رضی اللہ عنہم اور کچھ اور لوگ تھے، (بچہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اٹھا کر اس حال میں لایا گیا کہ اس کی سانس ٹوٹ رہی تھی، تو آپ کی آنکھوں (سے) آنسو بہ پڑے، اس پر سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! یہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ رحمت ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں میں رکھ رکھا ہے، اور اللہ تعالیٰ اپنے انہیں بندوں پر رحم کرتا ہے جو رحم دل ہوتے ہیں“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجنائز 32 (1284)، والمرضی 9 (5655)، والقدر 4 (6602)، والأیمان والنذور 9 (6655)، والتوحید 2 (7377)، 25 (7448)، صحیح مسلم/الجنائز 6 (923)، سنن ابی داود/الجنائز 28 (3125)، سنن ابن ماجہ/الجنائز 53 (1588)، (تحفة الأشراف: 98)، مسند احمد 5/204، 205، 206، 207 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس سے مراد علی بن ابی العاص بن ربیع ہیں، اور ایک قول یہ ہے کہ بنت سے مراد فاطمہ رضی الله عنہا اور ابن سے مراد ان کے بیٹے محسن ہیں۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صبر وہی ہے جو صدمہ (غم) پہنچتے ہی ہو“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجنائز 31 (1283)، 42 (1302)، والأحکام 11 (7154)، صحیح مسلم/الجنائز 8 (926)، سنن ابی داود/الجنائز 27 (3124)، سنن الترمذی/الجنائز 13 (988)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الجنائز 55 (1596)، (تحفة الأشراف: 439)، مسند احمد 3/130، 143، 217 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: کیونکہ رو پیٹ کر تو صبر سبھی کو آ جاتا ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
قرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اس کے ساتھ اس کا بیٹا (بھی) تھا، آپ نے اس سے پوچھا: ”کیا تم اس سے محبت کرتے ہو؟“ تو اس نے جواب دیا: اللہ آپ سے ایسے ہی محبت کرے جیسے میں اس سے کرتا ہوں، پھر وہ (لڑکا) مر گیا، تو آپ نے (کچھ دنوں سے) اسے نہیں دیکھا تو اس کے بارے میں (اس کے باپ سے) پوچھا (تو انہوں نے بتایا کہ وہ مر گیا ہے) آپ نے فرمایا: ”کیا تمہیں اس بات سے خوشی نہیں ہو گی کہ تم جنت کے جس دروازے پر جاؤ گے (اپنے بچے) کو اس کے پاس پاؤ گے، وہ تمہارے لیے دوڑ کر دروازہ کھولنے کی کوشش کرے گا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 11083)، مسند احمد 5/35، ویأتی عند المؤلف برقم: 2090 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
|