كتاب الجنائز کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل 3. بَابُ: كَثْرَةِ ذِكْرِ الْمَوْتِ باب: موت کو کثرت سے یاد کرنے کا بیان۔
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لذتوں کو کاٹنے والی ۱؎ کو خوب یاد کیا کرو ”۲؎۔ ابوعبدالرحمٰن کہتے ہیں: محمد بن ابراہیم ابوبکر بن ابی شیبہ کے والد ہیں۔
تخریج الحدیث: «حدیث فضل بن موسی، عن محمد بن عمرو قد أخرجہ: سنن الترمذی/الزھد 4 (2307)، سنن ابن ماجہ/الزھد 31 (4258)، مسند احمد 2/293، (تحفة الأشراف: 15080)، وحدیث محمد بن إبراہیم، عن موسی بن عمرو قد تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 15087) (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: لذتوں کو کاٹنے والی سے مراد موت ہے۔ ۲؎: موت کو کثرت سے یاد کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ انسان اس سے نیکیوں کی طرف راغب ہوتا ہے، اور برائیوں سے توبہ کرتا ہے۔ قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”جب تم مریض کے پاس جاؤ تو اچھی باتیں کرو، کیونکہ تم جو کچھ کہتے ہو فرشتے اس پر آمین کہتے ہیں“۔ چنانچہ جب ابوسلمہ مر گئے، تو میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! میں کیا کہوں؟ تو آپ نے فرمایا ـ: ”تو کہو: «اللہم اغفر لنا وله وأعقبني منه عقبى حسنة» ”اے اللہ! ہماری اور ان کی مغفرت فرما، اور مجھے ان کا نعم البدل عطا فرما“ تو اللہ تعالیٰ نے مجھے ان کے بعد محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کیا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الجنائز 3 (919)، سنن ابی داود/الجنائز 19 (3115)، سنن الترمذی/الجنائز 7 (977)، سنن ابن ماجہ/الجنائز 4 (1447)، 55 (1598)، (تحفة الأشراف: 18162)، موطا امام مالک/الجنائز 14 (42)، مسند احمد 6/291، 306، 322 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ابوسلمہ کی وفات کے بعد ام سلمہ رضی الله عنہا کا نکاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہو گیا، اس طرح اللہ تعالیٰ نے انہیں بدل ہی نہیں نعم البدل عطا فرما دیا۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
|