كتاب الجنائز کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل 118. بَابُ: الْبَعْثِ باب: موت کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے کا بیان۔
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر خطبہ دیتے سنا آپ فرما رہے تھے: ”تم اللہ تعالیٰ سے ننگے پاؤں، ننگے بدن (اور) غیر مختون ملو گے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الرقاق 45 (6524، 6525)، صحیح مسلم/الجنة 14 (2860)، (تحفة الأشراف: 5583)، وقد أخرجہ: حم1/220 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگ قیامت کے دن ننگ دھڑنگ، غیر مختون اکٹھا کیے جائیں گے، اور مخلوقات میں سب سے پہلے ابراہیم علیہ السلام کو کپڑا پہنایا جائے گا، پھر آپ نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی: «كما بدأنا أول خلق نعيده» ”جیسے ہم نے پہلی دفعہ پیدا کیا تھا ویسے ہی دوبارہ پیدا کریں گے“ (الانبیاء: ۱۰۴)۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأنبیاء 8 (3349)، 49 (3447)، تفسیر المائدة 13 (4626)، تفسیر الأنبیاء 2 (4740)، الرقاق 45 (6526)، صحیح مسلم/الجنة 14 (2860)، سنن الترمذی/صفة القیامة 3 (2423)، تفسیر الأنبیاء (3167)، (تحفة الأشراف: 5622)، مسند احمد 1/223، 229، 235، 253، سنن الدارمی/الرقاق 82 (2844)، ویأتي برقم: 2089 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگ قیامت کے دن ننگے پاؤں، ننگے بدن (اور) غیر مختون اٹھائے جائیں گے“، تو اس پر عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا: لوگوں کی شرمگاہوں کا کیا حال ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس دن ہر ایک کی ایسی حالت ہو گی جو اسے (ان چیزوں سے) بے نیاز کر دے گی“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 16628)، مسند احمد 6/90 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ (قیامت کے دن) ننگے پاؤں (اور) ننگے بدن اکٹھا کیے جاؤ گے“، میں نے پوچھا: مرد عورت سب ایک دوسرے کو دیکھیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”معاملہ اتنا سنگین ہو گا کہ انہیں اس کی فکر نہیں ہو گی“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الرقاق 45 (6527)، صحیح مسلم/الجنة 14 (2859)، سنن ابن ماجہ/الزہد 33 (4276)، (تحفة الأشراف: 17461)، مسند احمد 6/53 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگ قیامت کے دن تین گروہ میں جمع کیے جائیں گے، کچھ جنت کی رغبت رکھنے والے اور جہنم سے ڈرنے والے ہوں گے ۱؎، اور کچھ لوگ ایک اونٹ پر دو سوار ہوں گے، ایک اونٹ پر تین سوار ہوں گے، ایک اونٹ پر چار سوار ہوں گے، ایک اونٹ پر دس سوار ہوں گے، اور بقیہ لوگوں کو آگ ۱؎ اکٹھا کرے گی، ان کے ساتھ وہ بھی قیلولہ کرے گی جہاں وہ قیلولہ کریں گے، رات گزارے گی جہاں وہ رات گزاریں گے، صبح کرے گی جہاں وہ صبح کریں گے، اور شام کرے گی جہاں وہ شام کریں گے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الرقاق 45 (6522)، صحیح مسلم/الجنة 14 (2861)، (تحفة الأشراف: 13521) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس آگ کا ذکر بہت سی حدیثوں میں آیا ہوا ہے، یہ عدن سے نکلے گی اور لوگوں کو شام کی طرف ہانک کر لے جائے گی۔ ۲؎: یہ پہلا گروہ ہو گا جو موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے اسی وقت چل پڑے گا جب سواریوں اور زاد راہ کی بہتات ہو گی، چنانچہ وہ سوار ہو کر کھاتا اور پہنتا پہنچے گا، اور کچھ بیٹھے رہیں جب سواریاں کم ہو جائیں گی تب چلیں گے، ایک اونٹ پر کئی کئی لوگ سوار ہوں گے، اور تیسرا گروہ وہ ہو گا جو سواریوں سے محروم ہو گا، اور جسے آگ پا پیادہ ہانک کر لے جائے گی۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ صادق و مصدوق صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے بیان کیا کہ لوگ (قیامت کے دن) تین گروہ میں جمع کیے جائیں گے: ایک گروپ سوار ہو گا، کھاتے (اور) پہنتے اٹھے گا، اور ایک گروہ کو فرشتے اوندھے منہ گھسیٹیں گے، اور انہیں آگ گھیر لے گی، اور ایک گروہ پیدل چلے گا (بلکہ) دوڑے گا۔ اللہ تعالیٰ سواریوں پر آفت نازل کر دے گا، چنانچہ کوئی سواری باقی نہ رہے گی، یہاں تک کہ ایک شخص کے پاس باغ ہو گا جسے وہ ایک پالان والے اونٹ کے بدلے میں دیدے گا جس پر وہ قادر نہ ہو سکے گا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 11906)، مسند احمد 5/164 (ضعیف) (اس کے راوی ’’ولید بن عبداللہ بن جمیع‘‘ حافظہ کے ذرا کمزور راوی ہیں، اس لیے کبھی کبھی انہیں روایتوں میں وہم ہو جایا کرتا تھا)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف
|