كتاب الجنائز کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل 102. بَابُ: النَّهْىِ عَنْ الاِسْتِغْفَارِ لِلْمُشْرِكِينَ باب: کفار و مشرکین کے لیے مغفرت طلب کرنا منع ہے۔
مسیب بن حزن رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جب ابوطالب کی وفات کا وقت آیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آئے، اور ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ دونوں ان کے پاس (پہلے سے موجود) تھے، تو آپ نے فرمایا: ”چچا جان! آپ «لا إله إلا اللہ» کا کلمہ کہہ دیجئیے، میں اس کے ذریعہ آپ کے لیے اللہ عزوجل کے پاس جھگڑوں گا“، تو ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ دونوں نے ان سے کہا: ابوطالب! کیا آپ عبدالمطلب کے دین سے منہ موڑ لو گے؟ پھر وہ دونوں ان سے باتیں کرتے رہے یہاں تک کہ آخری بات جو عبدالمطلب نے ان سے کی وہ یہ تھی کہ (میں) عبدالمطلب کے دین پر ہوں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا: ”میں آپ کے لیے مغفرت طلب کرتا رہوں گا جب تک مجھے روک نہ دیا جائے“، تو یہ آیت اتری ۱؎: «ما كان للنبي والذين آمنوا أن يستغفروا للمشركين» ”نبی اور اہل ایمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ مشرکین کے لیے مغفرت طلب کریں“ (التوبہ: ۱۱۳) نیز یہ آیت اتری: «إنك لا تهدي من أحببت» ”آپ جسے چاہیں ہدایت کے راستہ پر نہیں لا سکتے“ (القص: ۵۶)۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجنائز 80 (1360)، ومناقب الأنصار 40 (3884)، وتفسیر التوبة 16 (4675)، والقصص 1 (4772)، والأیمان والنذور 19 (6681)، صحیح مسلم/الإیمان 9 (24)، (تحفة الأشراف: 11281)، مسند احمد 5/433 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہاں ایک مشکل یہ ہے کہ ابوطالب کی موت ہجرت سے پہلے ہوئی ہے، اور سورۃ برأت جس کی یہ آیت ہے ان سورتوں میں سے جو مدنی دور کے اخیر میں نازل ہوئی ہیں، اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ یہاں یہ مراد نہیں کہ آیت کا نزول آپ کے «لأستغفرن لك ما لم أنه عنك» کہنے کے بعد فوراً ہوا، بلکہ مراد یہ ہے کہ یہ نزول کا سبب ہے «فنزلت» میں «فاء» سبب بیان کرنے کے لیے ہے نہیں کہ بلکہ «تعقیب» یعنی بعد میں واقع ہونے کی خبر کے لیے ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں میں نے ایک شخص کو اپنے ماں باپ کے لیے مغفرت طلب کرتے ہوئے سنا حالانکہ وہ دونوں مشرک تھے، تو میں نے کہا: کیا تو ان دونوں کے لیے مغفرت طلب کرتا ہے؟ حالانکہ وہ دونوں مشرک تھے، تو اس نے کہا: کیا ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ کے لیے مغفرت طلب نہیں کی تھی؟ تو میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور آپ سے اس بات کا تذکرہ کیا، تو (یہ آیت) اتری: «وما كان استغفار إبراهيم لأبيه إلا عن موعدة وعدها إياه» ”ابراہیم کا اپنے باپ کے لیے مغفرت طلب کرنا ایک وعدہ کی وجہ سے تھا“ (التوبہ: ۱۱۴)۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/تفسیر التوبة (3101)، (تحفة الأشراف: 10181)، مسند احمد 1/99، 103 (حسن)»
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، ترمذي (3101) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 336
|